ادبستان

بیساکھی کا تہوار اور جزیرہ امن مالیر کوٹلہ

 بتایا جاتا ہے کہ 1947میں تقسیم کے وقت جب پنجاب اور اس کے 24راجواڑوں میں کشت و خون کا بازار گرم تھا تو دہلی سے 300 کیلومیٹر دور مسلم اکثریتی مالیر کوٹلہ ایک جزیرہ امن کی طرح قائم رہا۔ یہاں کسی کا خون بہا نہ کسی کو ہجرت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ پورے مغربی پنجاب میں یہ واحد علاقہ ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد 65فیصدہے۔

بیساکھی، فوٹو: پی ٹی آئی

بیساکھی، فوٹو: پی ٹی آئی

جاڑوں کے ختم ہونے اور موسم بہار کو خوش آمدید کہنے کےلیےدنیا کے تقریباً ہر خطے میں دھوم دھام کے ساتھ کوئی نہ کوئی تہوارمنایا جاتاہے، چاہے وہ ایران یا وسط ایشیا کا نوروز ہو، شمالی ہندوستان  میں ہندو ں کا رنگوں کا تہوار ہولی ہو یا تھائی لینڈ کا سونگ کران واٹرفیسٹول۔ لیکن ا ن میں پنجاب میں منائے جانے والے  بیساکھی کے تہو ا ر کی شان ہی الگ ہے۔

گو کہ یہ بھی ربی فصل کی کٹائی اور موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے، مگر یہ دن سکھ تاریخ میں بھی خاص اہمیت کا حامل  ہے۔ اسی دن 1699میں سکھ مذہب کے دسویں گرو، گروگوبند سنگھ نے خالصہ پنت کی بنیاد رکھ کر ایک نئے دور کا آغازکیاتھا۔

اس طرح انہوں نےوہ مشن پورا کیا جس کا آغاز پہلے گرو، گرو نانک نے کیا تھا۔ ذات پات اور اونچ نیچ کے نظام کے خلاف بغاوت کرکے نانک نے تو راہ دکھائی تھی کہ خدا کی نظر میں سب انسان برابر ہے۔ انہوں نے کہا تھا؛

اول اللہ نور اپایا، قدرت کے سب بندے

دسویں گرو نے بابا نانک کی تعلیمات کو عملی طور پر نافذ کیا۔ بیساکھی کےدن، خالصہ پنت کو تشکیل دیتے وقت سکھ سماج سے ذات پات اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کرکے مردوں کوسنگھ اور خواتین کو کورکا خاندانی نام دیا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ 13اپریل 1919کو اسی دن جب امرت سر کے جلیاں والا باغ میں ایک ہجوم جب بیساکھی منارہا تھا کہ برطانوی فوجکے جنرل ریجی نالڈ ڈائر نے فائرنگ کا حکم دےکر ہزاروں نہتے لوگوں کو خون میں نہلاکر جنگ آزادی کو ایک نیا موڑ دلادیا۔

 فوٹو: وکی میڈیا کامنس

فوٹو: وکی میڈیا کامنس

بیساکھی کا چونکہ گرو گوبند سنگھ جی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے، اسی لیے اس کو منانے کے لیے مالیر کوٹلہ تحصیل میں خاصا اہتمام کیا جاتاہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1947 میں تقسیم کے وقت جب پنجاب اور اس کے 24 راجواڑوں  میں کشت و خون کا بازار گرم تھا، تو دہلی سے 300 کیلومیٹر دور مسلم اکثریتی مالیر کوٹلہ ایک جزیرہ امن کی طرح قائم رہا۔ یہاں کسی کا خون بہا نہ کسی کو ہجرت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

پورے مغربی پنجاب میں یہ واحد علاقہ ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد 65فیصدہے۔ امن کے اسی جزیرہ میں پنجاب اردو اکیڈمی کا دفتر بھی ہے۔مؤرخین کے مطابق مغل دور میں جب سکھوں اور شاہی افواج کےدرمیان معرکہ گرم تھاتوسرہند کے گورنر وزیر خان نے گرو گوبند سنگھ کے دو خوردسال لڑکوں کو 1704 میں زندہ دیوار میں چن دینے کا حکم صادر کردیا۔ مگرمالیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان نے اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے شاہی دربارترک کر دیا۔

سکھ گرووں اور مغل بادشاہوں کے مابین اختلافات زیادہ تر سیاسی نوعیت کے تھے، لیکن اس نے ان برادریوں کے درمیان دشمنی کا احساس پیدا کردیا تھا۔

بتایاجاتا ہے کہ آنند پور صاحب قصبہ اور تاریخی گوردوارہ کے محاصرے کے دوران مغل فوج کےسربراہ اور سرہند کے حاکم  وزیر خان اور گرو گوبندکے درمیان ایک معاہدہ طےپایا، جس کی رو سے سکھ افواج نے آنند گڑھ قلعہ کو خالی کرنے  پر رضامندی ظاہر کی۔

طے پایا کہ سکھ افواج اور گرو گوبند سنگھ کے اہل خانہ کو محفوظ راہداری دی جائےگی۔ لیکن جیسے ہی سکھوں نے قلعہ چھوڑا، مغل فوج نے ان پر حملہ کردیا۔ گرو گوبندسنگھ، ان کا کنبہ اور انکی فوج دریائے سرسا کو عبور کرتے ہوئے بکھر گئی۔ان کے دوبڑے بیٹے اور قریبی 40 سکھ چمکور کے قلعے پر پہنچے، اس دوران ان کے دو چھوٹے بیٹےزورآورسنگھ اور فتح سنگھ اپنی دادی ماتا گجری کے ساتھ قافلہ سے پچھڑ گئے۔ دونوںصاحبزادے اس وقت نو اور سات سال کے تھے۔

مؤرخین  کی گواہی ہے کہ ماتا گوجری جب اپنے دو نوں پوتوں کےساتھ ایک گاؤں کے قریب ندی عبور کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ایک ریلہ ان کو بہاکر لے گیا۔ ایک مسلمان ماہی گیر عبدالقیوم نے دریا میں چھلانگ لگا کر ان کو بچایااور اپنے گھر لےجاکر وعدہ کیا کہ وہ ان کو ان کے کنبہ تک پہنچائے گا۔

لیکن قدر ت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ماتاجی کے ایک پرانے باورچی گنگو برہمن نے ان کا پتہ لگاکر ان کو ساتھ چلنے پر آمادہ کرلیا۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ راستے میں اس نے نہ صرف ان کی نقد اور جواہرات چھین لیے، بلکہ ان کو مغل فوج کے حوالے کردیا۔انسانی تاریخ میں عہداور اعتماد شکنی کی یہ ایک بد ترین مثال ہے۔

 ماتا گجری کو ان کے دو پوتوں کےسمیت وزیر خان کی عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا گیا۔ گرو گوبند سنگھ کو گرفتارکرنے میں ناکامی سے دوچار وزیر خان تلملا رہا تھا۔ اس نے سب سے پہلے دونو ں لڑکوںکو زندگی کے بدلے  اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب وہ اس منصوبے میں ناکام ہوا تو اس نے ان کو دیوار میں زندہ چنوانے کی سزا سنائی۔ مالیرکوٹلہ کے نواب شیر محمد خاں، جو اس کاروائی کے دوران موجود تھے، نے بھرے دربار میں صدائے احتجاج بلند کیا۔

نواب خود اس جنگ میں اپنے دو بھائی کھو چکا تھا۔ مگر اس کا استدلال تھا کہ دشمن کے بچوں کو مار کر بدلہ چکانا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ مالیر کوٹلہ کے تاریخ دان، محمد حبیب کا کہنا ہے کہ ؛

نواب نے ان دونوں لڑکوں کو اپنے ساتھ لے جانے کی پیش کش کی تاکہ ان کی جانیں بچائی جاسکیں۔لیکن اس کی تجویز کو قبول نہیں کیا گیا اور نواب نے دربار سے واک آوٹ کیا۔

دونوں لڑکوں کوقتل کردیا گیا، جبکہ ان کی دادی نے حراست میں ہی دم توڑ  دیا۔

بعد میں جب گرو گوبند سنگھ کو اپنے بچو ں کی ہلاکت اورنواب کی ان کو بچانے کی جدو جہد کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اصل سکھ مالیرکوٹلہ کو کبھی بری نظر سے نہیں دیکھے گا۔بس وہ دن اور آج کا دن، مالیرکو ٹلہ سکھوں کے لیے اتنا ہی مقدس ہے، جتنا کوئی آستانہ یا گوردوارہ۔ایک سال  کے بعد جب بندہ سنگھ بہادر،سکھ ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لئے اپنی فوج کے ساتھ پنجاب میں داخل ہواتو اس نے سرہند اور دوسرے صوبوں پر قبضہ کرکے وزیر خان کو قتل کیا، مگر اس کی فوج مالیر کوٹلہ سے دور ہی رہی۔

بیساکھی، فوٹو: پی ٹی آئی

بیساکھی، فوٹو: پی ٹی آئی

یہ ریاست پٹیالہ، نابھہ اور سنگرور جیسی بڑی سکھ ریاستوں سے گھری ہوئی تھی۔مگر کسی بھی سکھ حکمران نے اس پر چڑھائی کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کو تحفظ ہی فراہم کرایا۔ سکھوں نے ابھی تک اپنے گرو کے حکم کی پاسداری کی ہے اور اب بھی مالیر کوٹلہ کے لوگوں کی احسان مند اور شکر گزار ہے۔ یہ علاقہ آج بھی سکھ مسلم بھائی چارے کی مثال بنا ہوا ہے۔

سن 1675 میں نویں گرو، گرو تیغ بہادر کی شہادت کے بعد سکھوں اور مغل حکمرانوں کے درمیان تناو میں کئی گنا کا اضافہ ہو گیا تھا۔جس کے بعدان کےبیٹے، گوبند رائے نے، سکھوں کو جنگجوقوم کے روپ میں ڈھالا۔ بابا نانک کے صوفی فلسفہ اور گرو تیغ بہادر اور گوبند رائے کے ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کی تعلیم کےدرمیان خالصہ پنت نے ایک طویل فاصلہ طے کیا۔سکھوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر،مقامی سردار جب ان سے متصادم ہوگئے، پھر تاریخ کچھ اس طرح لکھی گئی۔

اک موج مچل جائے تو طوفان بن جائے

ایک پھول اگر چاہے تو گلستان بن جائے

ایک خون کے قطرے میں ہے طاقت اتنی

ایک قوم کی تقدیر کا عنوان بن جائے

 بہر کیف بیساکھی کے موقع پر جب پنجاب کے ہر گلی، محلہ اوردیہات میں خواتین اور مرد گدّا اور بھنگڑا ڈال کر سکھوں کی ثقافت، قومی روایات اورمذہبی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں تو وہ گر و گوبند سنگھ کے ساتھ ساتھ مالیر کوٹلہ کے نواب شیر خان کی ہمت و جرأت کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔

 بیساکھی میلہ اول اللہ،وحدانیت، ذات پات اور طبقاتی نظام کے خلاف بغاوت کو اجاگر کرکے سکھوں اور مسلمانوں کی مشترکہ وراثت اور عقیدہ کو بھی ظا ہر کرکے غلط فہمیوں اور نفرت کی خلیج کو کم کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)