خبریں

کاشی وشو ناتھ مندر-گیان واپی مسجد معاملے میں عدالت کا آثار قدیمہ سروے کرانے کا حکم

اس سروے میں محکمہ آثار قدیمہ کے پانچ نامورماہرین آثار قدیمہ کو شامل کرنے کا حکم دیا گیا ہے،جس میں دو اقلیتی طبقےکے ماہرین آثار قدیمہ بھی ہوں گے۔

گیان واپی مسجد۔ (فوٹو: کبیر اگروال/د ی وائر)

گیان واپی مسجد۔ (فوٹو: کبیر اگروال/د ی وائر)

نئی دہلی: فاسٹ ٹریک عدالت نے گزشتہ جمعرات کو کاشی وشوناتھ مندر اور گیان واپی مسجد تنازعہ سے متعلق  معاملے میں متنازعہ احاطے کاآثار قدیمہ سروے کروانے کا حکم  دیا۔ ایڈوکیٹ  وجئے شنکر رستوگی نے یہ جانکاری دی ہے۔

اس معاملے میں مقدمہ  دائر کرنے والے وکیل رستوگی نے بتایا کہ سینئر ڈویژن فاسٹ ٹریک(سول جج)عدالت وارانسی نے اس معاملے میں اتر پردیش سرکار کو اپنےاخراجات  پر یہ سروے کرنے کا حکم  دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس سروے میں آثا رقدیمہ (اے ایس آئی)کے پانچ نامور ماہرین کو شامل کرنے کا حکم  دیا گیا ہے، جس میں قلیتی طبقے کے ماہرین آثار قدیمہ  بھی ہوں گے۔

وکیل نے بتایا کہ سال2019 میں سول جج کی عدالت میں انہوں نے بھگوان وشویشور کاشی وشوناتھ کی جانب  سے عرضی دی تھی کہ گیان واپی مسجد، وشویشور مندر کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے ان کی  درخواست  پرغور کرتے ہوئے احاطہ میں سروے کاحکم دیا ہے۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، کورٹ نے کہا کہ اس معاملے کو لےکر دونوں مذاہب کی جانب سے کئی ساری عرضیاں دائر کی گئی ہیں، حالانکہ کسی کے بھی پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے پختہ ثبوت نہیں ہیں۔عدالت نے کہا، ‘چونکہ گیان واپی مسجد منتظمہ کمیٹی نے بادشاہ اورنگ زیب کے فرمان پر بھگوان وشویشور کاشی وشوناتھ کے مندر کو مہندم کرنے اور اس کو مسجد میں تبدیل کرنے کی واضح طور پر تردید کی  ہے، اس لیے ان حالات میں عدلیہ  کی ذمہ داری ہے کہ وہ  سچ کا پتہ لگائیں۔’

کورٹ نے سروے کا حکم  دیتے ہوئے اس دلیل کو بھی خارج کر دیا کہ ریونیو ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد متنازعہ ملکیت پر نہیں تھی۔ کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں یہ ثبوت کافی  نہیں ہے۔

کورٹ کے حکم کے مطابق پانچ ماہرین کی کمیٹی  کو یہ پتہ لگانا ہے کہ کیا متنازعہ مقام پر کھڑا مذہبی  ڈھانچہ کسی دوسرے مذہبی ڈھانچہ کے اوپر بنایا گیا ہے یا اس میں تبدیلی کرکے اس کوتیار کیا گیا ہے۔ اگر ایسی حالت  پیدا ہوتی ہے توکمیٹی  کو اس بات کی جانچ کرنی ہے کہ یہ ڈھانچہ کتنا قدیم  ہے، اس کا سائز اور ڈیزائن کیا ہے۔

اس کمیٹی کو یہ بھی پتہ لگانا ہے کہ مسجد بنانے سے پہلے، کیایہاں پر کوئی ہندو مندر تھا؟ اگر ہاں، تو پھر انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ یہ کتنا پرانا ہے اور اس کا سائز اور ڈیزائن  کیا تھا اور یہ کس ہندو بھگوان کا مندر تھا۔

اس سروے کے دوران مسلمان مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن عام لوگوں اور میڈیا کو سروے کی کارروائی دیکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس رپورٹ کو سیل بند لفافے میں کورٹ کے سامنے پیش کیا جانا ہے۔

مندر فریق کے عرضی گزاروں  کا کہنا ہے کہ مغل حکمراں  اورنگ زیب کے حکم  پر 2000 سال پرانے مندر کے ایک حصہ کو گراکر مسجد بنائی  گئی  تھی۔ حالانکہ مسجد فریق کی دلیل ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔

اس آرڈر کو ہائی کورٹ  میں چیلنج  دےگا وقف بورڈ

اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے کہا ہے کہ وہ  اس حکم کو ہائی کورٹ  میں چیلنج  دیں گے۔بورڈ کے صدرظفر فاروقی نے لکھنؤ میں جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بورڈ وارانسی کی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ  میں چیلنج دےگا۔

بورڈ کاواضح طور پر ماننا ہے یہ معاملہ پلیس آف ورشپ ایکٹ،1991 کے دائرے میں آتا ہے۔ اس قانون کو ایودھیا معاملے کی شنوائی کرنے والی پانچ ججوں  کی آئینی بنچ  نے بحال رکھا تھا۔ لہٰذا گیان واپی مسجد کا درجہ کسی بھی طرح کے شک وشبہ سے پاک ہے۔

معلوم ہو کہ اس قانون کے مطابق رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کو چھوڑکر دیگر عبادت گاہوں  سے متعلق اس طرح کے کسی بھی معاملےکو عدالت میں پھر سے نہیں کھولا جا سکتا ہے۔اس ایکٹ کو پی وی نرسمہا راؤ کی سربراہی  والی اس وقت کی  کانگریس سرکار کی جانب سے ہندوتواگروپوں کی  اس مہم کے مد نظر بنایا گیا تھا، جس میں انہوں نے ایودھیا کی بابری مسجد، وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کے عیدگاہ کو مندر میں تبدیل کرنے کی مانگ کی تھی۔

فی الحال اس قانون کو سپریم کورٹ  میں چیلنج  دیا گیا ہے۔

فاروقی نے کہا کہ وارانسی کی فاسٹ ٹریک عدالت کا حکم سوالوں کے گھیرے میں ہے کیونکہ ہندو فریق  کی طرف سے کوئی بھی تکنیکی ثبوت پیش نہیں کیے گئے کہ گیان واپی مسجد کی جگہ پہلے کبھی کوئی مندر ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ایودھیا مسئلے میں بھی آثار قدیمہ  سروے کی جانب سے کی گئی کھدائی آخر کار بیکار ثابت ہوئی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ادارہ  ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں پیش کر سکا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کومنہدم کرکے کی گئی  تھی۔فاروقی نے کہا کہ خود سپریم کورٹ نے خاص طور پر اس بات کا ذکر بھی کیا تھا۔ لہٰذاآثار قدیمہ سروے کے ذریعےمسجدوں کی جانچ کی روایت  کو بند کر دیا جانا چاہیے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)