فکر و نظر

مسلمانوں کو  ہراساں کرنے کی وجہ اب پولرائزیشن نہیں

ملک  کے رہنماگزشتہ کوئی بیس سالوں کی انتھک کوششوں  سے سماج کا اتنا پولرائزیشن  پہلے ہی کر چکے ہیں کہ آنے والے کئی  سالوں  تک ان کی انتخابی  جیت یقینی ہے۔ پھر کچھ لوگ اقلیتوں  کو ہراساں کرنے اور انہیں ذلیل وخوارکرنے کے لیے جوش و خروش کا مظاہرہ کیوں کر رہے  ہیں؟

(علامتی تصویر، فوٹو:اسپیشل ارینجمنٹ)

(علامتی تصویر، فوٹو:اسپیشل ارینجمنٹ)

کچھ ہی دن پہلے ڈاسنہ، غازی آ باد میں ایک مسلمان بچےآصف کو بری طرح پیٹا گیا۔ اس کا ‘سنگین جرم’تھا ایک مندر میں پانی پینے چلے جانا۔ دوسرے واقعہ  میں دہلی میں کھجوری خاص علاقے میں ایک مسلمان نوجوان کو نامعلوم وجوہات سے پٹک پٹک کر مارا گیا۔

کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جہاں ملک میں سال میں لگ بھگ 52 لاکھ جرائم  ہوتے ہیں، وہاں ہم محض دو پر بحث کیوں کر رہے ہیں۔اس کی وجہ  ان جرائم کی غیر انسانی  بربریت ہے اور متاثرین  کو ذلیل کرنا ہے۔ اگر دونوں فریق  نے حملہ  کیے ہوتے تو انہیں نظرانداز کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ان واقعات میں متاثرہ فریق  بے یارومددگار تھے اور ذرا بھی مزاحمت کرنے کے قابل نہیں  تھے۔

اس لیے انہیں پیٹا نہیں، بلکہ بنا کسی خوف کے، حق کے ساتھ‘سزا’دی  جا رہی تھی، اور یہ بلاشبہ  باعث تشویش  ہے۔آصف کی پٹائی کے ویڈیو میں حملہ آور شرنگی یادو نے اس کے  داہنی بازوکو پوری طرح سے پیچھے مروڑ کر اسے زمین پر گرا دیا ہے اور وہ لگاتار اس کے فوطے پر لات مار رہا ہے۔

فارینسک میڈیسن میں عرصے سے مصدقہ ہے کہ فوطہ میں‘ویگس نرو’ہوتی ہے، جس پر حملے سے ‘واسوویگل شاک’سے موت ہو سکتی ہے۔موت  کی اس وجہ کو قانون میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں ضیاء الدین (2010)؛رویندر سنگھ عرف پرتاپ (2014)؛ اور پریم سنگھ عرف فوجی (2014) کے فیصلے قابل ذکر ہیں۔

اس لحاظ سے شرنگی پر سیکشن 308کا کیس بنتا ہے۔ لیکن پتہ چلا ہے کہ پولیس نے قانون کے بناوٹی نامعلوم یا حملہ آور کو حمایت دے رہے مذہبی  سیاسی  گروہوں  سے اپنی حددرجہ عقیدت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔کھجوری کے واقعہ میں متاثرہ شخص حملہ آور کے پاؤں پکڑکر رحم  کی بھیک مانگتا دکھ رہا ہے۔ اسے پیٹنے کے ساتھ ‘پاکستان مردہ باد’ اور ‘اویسی مردہ باد’کے نعرے لگانے کو مجبور کیا گیا۔

کلیدی ملزم اجئے گوسوامی دہلی فسادات  کے سلسلے میں ضمانت پر ہے۔ ویڈیو میں وہ متاثرہ کو ردی کی بوری کی طرح اٹھاکر پٹکتا دکھ رہا ہے۔آپ خود غور کریں، پٹائی کے ساتھ ‘پاکستان مردہ باد’کے نعرے لگوانے کا کیاجواز ہے؟

سیدھی سی بات ہے کہ ایک مسلمان سے بلا وجہ یہ نعرہ لگوانے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ اسے مسلمان ہونے کے ناطے پاکستان سے جبراً جوڑا جائے اور اسے اس ‘رشتے’پر افسوس ظاہر کرنے کے لیے مردہ باد کا نعرہ لگوایا جائے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ فروری2020 کے دہلی فسادات کے وقت بھی کچھ پولیس اہلکاروں  نے کچھ مسلم نوجوانوں  کو بری طرح پیٹا تھا اور ان میں سے فیضان کی بعد میں موت  ہو گئی تھی۔ جب وہ  زمین پر گرے ہوئے تھے تو انہیں قومی ترانہ  گانے کو مجبور کیا گیا تھا۔ کیوں؟

واضح  ہے کہ پولیس کے ذریعے ہی ان کی حب الوطنی  پر سوالیہ نشان  لگایا جا رہا تھا۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہندوستان  میں سماجی جھگڑوں میں تشدد اوربربریت  تو شروع سے رہی ہے لیکن متاثرین  کو ذلیل و خوار کرنا اتنا عام نہیں تھا۔

اس سے بھی زیادہ باعث تشویش یہ ہے کہ ایسے واقعات  کی اکثریتی  سماج کی طرف سے جتنی مذمت ہونی چاہیے اتنی نہیں ہو رہی۔ الٹا، ڈاسنہ کے واقعہ میں سوشل میڈیا میں ملزم کےحق  میں ماحول تیار کیا گیا اور مندر کے مہنت نے باقاعدہ ویڈیو انٹرویو بھی دیے۔

ان سے یہی نتیجہ  نکلتا ہے کہ کہیں اکثریتی  سماج ایسے کارناموں  کو خاموش حمایت  تو نہیں دے رہا ہے؟

ہمیں اس پر غورکرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ سب ووٹوں کے پولرائزیشن  کے لیے ہو رہا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ گزشتہ کوئی بیس سالوں کی  انتھک کوشش سے ووٹوں کا اتنا پولرائزیشن  پہلے ہی ہو چکا ہے کہ آئندہ کئی سالوں  تک ان کی انتخابی  جیت یقینی ہے۔

یہ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ عہد وسطیٰ  نہیں ہے اور اب کسی صورت سے ملک  کے کوئی 19-20 کروڑ لوگوں سے ‘چھٹکارا’نہیں پایا جا سکتا۔ پھر کچھ لوگ اس قدر اقلیتوں  کو ہراساں کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے جوش وخروش کے ساتھ کیوں جٹے ہوئے ہیں؟

اس کا یہی جواب ہو سکتا ہے کہ وہ  اقلیتوں  پر پوری طرح سے بالادستی قائم  کرنا چاہتے ہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کےآئین کی وجہ سے وہ  قانوناً مسلمانوں کو ان کے سیاسی حقوق  سے محروم  نہیں کر سکتے۔ اس لیے وہ  انہیں سماجی  طور پر پوری طرح  سے ‘معذور’ کر دینا چاہتے ہیں۔

مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ایک گہری سازش کا حصہ معلوم  ہوتا ہے جس کے تحت مسلمانوں کو اس قدر ذلت دی جانی ہے، ان کی خوداعتمادی کو اس طرح سےمجروح کیا جانا ہے کہ آخرکار وہ  اپنے کو ‘شکست خوردہ ’مان لیں۔

یہی نہیں انہیں مجبور کیا جانا ہے کہ وہ اپنے کو دوئم درجے کے شہری  تو کیا اس سے بھی نیچے  کمتر درجے کا انسان (انٹرمینش) کی  سطح  پر مان لیں جو اس ملک میں صرف اکثریت کے رحم و کرم پررہ رہے ہیں جبکہ انہیں‘تاریخی  طور پر’تو اس سرزمین پر کھڑے ہونے کاحق بھی نہیں ہے۔

مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ ؛ انہیں اقتصادی لحاظ  سے حاشیے پر لانا؛ انڈر ٹرائل قیدیوں کے طور پر جیلوں میں آبادی کے تناسب  سے زیادہ بھرنا؛ دہشت گردی سےمتعلق  کیسوں میں جھوٹا پھنسایا جانا؛ بین مذہبی شادیوں  پر پریشان کرنا؛ اور یہاں تک کہ کرایے پر مکان دینے میں بھی مشکلیں پیدا کرنا، یہ سب اس گہری چال کا حصہ ہیں جن سے وہ  اپنے کوکمتر درجے کا سمجھنے لگیں۔

یہ دیکھا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر مسلسل  ان کے مذہب  کے بارے میں نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ یہ اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے کہ پولیس میں ان کی شکایت ہی بے معنی  ہے۔بنیادی طور پر دو باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ان کے آبا واجداد نے اکثریت پرقرون  وسطیٰ  میں شدیدظلم  کیے تھے اور ان کی‘تاریخ  بدلی’ ہے۔

دوسری یہ کہ ‘اکثریتی مذہب’خطرے میں ہے۔ مزے کی بات ہے کہ جو مذہب ہزاروں سالوں  کے طوفانوں میں نہیں ہلا، اسے یہ لوگ اچانک آج خطرے میں بتا رہے ہیں۔ مذہب کو ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔قرون وسطیٰ میں ہوئے نام نہاد مظالم  اور بالخصوص جنسی جرائم  کی  تفصیلات سوشل میڈیا پر تاریخ کو مسخ کرکے پیش کی جا رہی ہے۔

اپنی بات کو وزن دینے کے لیے ان کےخودساختہ مفکرین جیسے کونراڈ ایلسٹ، وی ڈی ساورکر اور کے ایس لال وغیرہ  کو بھی نقل کیا جاتا ہے جو مسلمانوں کوجنسی مجرم  کےطور پر پیش کرتے آئے ہیں۔انڈیا ٹو ڈے نے 2018 میں‘پوسٹ کارڈ نیوز’ کے ایک پروپیگنڈہ کی تردیدکی  تھی جس میں اس نے مسلمانوں کو ملک کے 96فیصد ریپ سے جوڑ دیا تھا۔

آپ ہراسانی کے واقعات  کو اس تناظر میں دیکھیں گے تو پائیں گے کہ ان کے پیچھےقرون وسطیٰ میں ہوئے نام نہاد جرائم  کی‘سزا’ دینےیا‘تاریخی انتقام ’لینے کی خواہش اہم ہے۔ یہ انتقام جنسی تشددکے طور پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔

تنیکا سرکار نے اپنے ایک مضمون میں دکھایا ہے کہ کس طرح گجرات دنگوں (2002) کے وقت عورتوں  کے جسم  کوبالخصوص درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بلقیس بانو کے ساتھ ہوئے غیرانسانی مظالم  تو سپریم کورٹ سے بھی مصدقہ  ہیں۔

جو اتنی دور کے تاریخ  میں چھلانگ نہیں لگاتے، وہ کہتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے وہ پچھلی کچھ دہائیوں کی ‘اپیزمنٹ’کی سزا ہے۔کچھ لوگ مذہنی کتابوں کی مذمت پر ہی تل جاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے تو ‘آپریٹنگ سسٹم’میں ہی گڑبڑی ہے، اور یہ کسی صورت میں سدھر نہیں سکتے۔

ابھی حال میں ہی ڈاسنہ کے اسی مہنت نے پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کر کے ایسی باتیں کیں۔ اس سلسلے میں ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہے۔

یتی نرسنہانند سرسوتی۔

یتی نرسنہانند سرسوتی۔

اسی تناظر میں، وطن کی مٹی سے مسلمانوں نے جو محبت کی ہے اسے یوں خارج کر دیا جاتا ہے جیسے اس کے پیچھے بھی کوئی چال رہی ہو۔ یہاں تک کہا جاتا ہے یہ لوگ آستین کے سانپ ہیں اور جو ان کے خون میں ہے، وہ تو کبھی نہ کبھی باہر نکل ہی آئےگا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ کرایہ دار کی طرح ہیں جو کبھی مکان سے پیار کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے پیچھے یہ جذبہ بھی ہے کہ کرایہ دار کو کبھی بھی نکالا جا سکتا ہے۔ایسا ماحول تیار کیا جا رہا ہے، جس میں ان کے پاس شکایت کرنے کا اخلاقی حق ہی نہ بچے۔ شکایت کو احسان فراموشی، گمراہی یا ملک سے غداری  مانا جائےگا۔


یہ بھی پڑھیں: ہندوستانی مسلمانوں کا المیہ: ہو ئے اپنے ہی گھر میں بیگانے


کوئی شکایت کرے تو کہا جاتا ہے کہ وکٹم کارڈ کھیل رہا ہے۔ پھر یہ جوڑا جاتا ہے کہ یہ لوگ دنیا میں کہیں اور ہوتے تو ‘ان کے جیسوں’ کو ‘کانسینٹریشن کیمپس’ میں رکھا جاتا!پروپیگنڈہ لوگوں کے دماغ میں مسلسل یہ بھر رہا ہے کہ ‘اگر یہ غدار لوگ نہ ہوتے تو آج ملک  میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہوتیں اور تم چین کی بنسی بجا رہے ہوتے۔’

ساتھ ہی اکثریت کو یہ خوف دکھایا جا رہا ہے کہ اگر تم نے ان کا ‘استحصال’نہیں کیا تو یہ قرون وسطیٰ  کی طرح‘قبضہ’کر لیں گے۔ جب انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ یہ21ویں صدی ہے اور اب قبضہ جیسی کوئی بات ممکن ہی نہیں ہے تو وہ‘ثقافتی قبضہ’وغیرہ  کی بات کرنے لگ جاتے ہیں ۔

انہوں نے اس ‘استحصال’ کا سب سے مؤثر طریقہ پایا ہے پولیس اورانتظامیہ کی طاقت کو اپنے ساتھ ملاکر اس کاغلط استعمال کرنا۔

پولیس کے ذریعے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ شاہین باغ  تحریک  کے وقت ایک خاتون  نے بے حد ہی غیرمہذب طریقے سے اور بڑے ٹھسک کے ساتھ انہیں پیٹنے کے لیے پولیس کی اپیل کرنے کی جرأت کی تھی کہ ‘موٹے موٹے لٹھ بجاؤ، لمبے لمبے لٹھ بجاؤ، اور ضرورت پڑے تو ہمیں بلاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔’

افسوس کی بات یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کو معلوم ہے کہ پولیس ان کے گناہ بھی نظرانداز کر دےگی اور الٹا دوسروں کو ہی فرضی معاملوں میں پھنسا دےگی۔ انہیں یقین ہے کہ پولیس ‘ان کی’ ہے۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ظلم صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی ہو رہا ہے۔ ظلم تو ملک میں ہر کمزور کے ساتھ ہو رہا ہے پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہو رہے ظلم کی خاصیت ہے کہ اسے نفرت دھکا دے رہی ہے۔

ہراسانی کے واقعات  چاہے کسی وجہ سے ہو رہے ہوں،گائے کے گوشت کے تناظر میں؛ اذان کو لےکر؛ بین مذہبی شادیوں  کو لےکر؛ مندروں کی نام نہاد توہین کو لےکر؛یاحب الوطنی  پر شبہ کرکے، یہ سب علامت محض  ہیں اصل مرض ہے اقلیتوں کو کچل دینے کی چاہت۔

معروف  جرمن مفکر ہیگل نے کہا تھا، ‘منروا کا الو شام ہونے پر ہی پرواز بھرتا ہے۔’ان کا مفہوم  تھا کہ برا ہو جانے کے بعد ہی عقل آتی ہے۔ آج ملک میں، ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ، شام وقت کے پہلے ہی آ رہی ہے۔ناانصافی اورمظالم کی مخالفت نہ کرکے چپ رہ جانا بزدلی ہی نہیں گنا ہ عظیم ہے۔ قدیم روم کی ایک کہاوت  ہے، انصاف  ہونا ہی چاہیے تاکہ انصاف  کےفقدان  میں دنیاتباہ  نہ ہو جائے۔

میں عوام  سے اپیل کرتا ہوں کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کی حفاظت  کریں۔ ‘اندھیرے کی طاقتوں’کو ملک پر چھا جانے سے روکیں۔ دھیان رہے کہیں دیر نہ ہو جائے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )