فکر و نظر

’جیل کا وہ گلاب، زندگی کے فلسفے سکھاتے ہوئے گویا میرا استاد بن گیا ہے…‘

دہلی فسادات  سے متعلق  معاملے میں گرفتار کیے گئے ‘یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ’ کے خالدسیفی کا جیل سے اپنے گھر والوں  کو بھیجا گیا خط۔

اپنے بچوں کے ساتھ خالد۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

اپنے بچوں کے ساتھ خالد۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

خالد سیفی اس تحریک میں متحرک تھے جو 2019 میں شہریت  کےمتعصبانہ قانون کے خلاف ہندوستان بھر میں شروع ہوئی  تھی۔ مسلمانوں، دیگر اقلیتوں  اور دلتوں کے خلاف تشدد کے خلاف انہوں نے ‘یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ’ نام کے ادارے  کا قیام  کئی دوستوں  کے ساتھ مل کر کیا۔

یہ ادارہ تشدد اور نفرت کے  واقعات  کا ریکارڈ رکھنے کے علاوہ تشدد کے شکار لوگوں کو ہر طرح کی مدد کرنے کا کام کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ یہ نفرت کی جگہ محبت کی منظم مہم بھی تھی۔

اس تنظیم  پر ہندوستان کے وزیر داخلہ نے 2020 میں دہلی کےشمال مشرقی حصے میں ہوئےتشددکی سازش کاالزام  لگایا۔ خالد سیفی نے یکساں شہریت  کے اس آتحریک  کوپرامن بنائےرکھنے میں اور زیادہ  سے زیادہ  لوگوں کو اس میں جوڑ نے میں بڑا رول  نبھایا۔

بیٹی کے ساتھ شوہر کی رہائی کی مانگ کرتی نرگس سیفی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@KhalidSaifiUAH)

بیٹی کے ساتھ شوہر کی رہائی کی مانگ کرتی نرگس سیفی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@KhalidSaifiUAH)

اسی وجہ سے پچھلے سال 26 فروری کو انہیں گرفتار کرکے ان پر یواےپی اے جیسے نام نہاددہشت گردی مخالف قانون کی دفعات لگا دی گئیں۔اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ وہ ایک سال سے جیل میں بند ہیں اور ہندوستان  میں انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔

تہاڑ جیل سے خالد سیفی نے اپنے بچوں کو یہ خط لکھا ہے۔ اس سے آپ کو خالد کے مزاج  کا کچھ انداز ہو پائےگا۔

§

نرگس، میرے بچوں اور دوستوں کو سلام،

ایک  اکتوبر 2020 کو مجھے وارڈ نمبر 4 سے وارڈ نمبر 2 میں بھیجا گیا تھا۔ وارڈ کی مسجد میں ہم تین وقت کی نماز ادا کرتے ہیں، ظہر، عصر اور مغرب۔جب میں مسجد پہنچا تو سب لوگ مجھے امامت کے لیے کہنے لگے۔ وہاں جو امام صاحب تھے ان کی حال ہی میں ضمانت ہوئی تھی۔ میں نے وہاں امامت شروع کر دی۔

حکام  اور کچھ ساتھیوں نے مسجد کے آس پاس کچھ پودے لگائے ہوئے ہیں اور امام کے نماز پڑھنے کی جگہ کے پاس ایک سفید گلاب کا پودالگایا ہے۔جب میں وہاں گیا تھا تو اس گلاب کے پودے میں کچھ بنا کھلی ہوئی کلیاں تھیں، جو کچھ دنوں میں کھلنی شروع ہوئیں اور پھر دھیرے دھیرے وہ پودا گلاب کے سفید پھولوں سے بھر گیا۔

پھولوں کا رنگ وقت وقت  پر بدلتا رہا۔ جب کلی کھلی تو گہرے گلابی رنگ کی تھی۔ پھر تھوڑی اور کھلی تو ہلکے گلابی رنگ کی ہو گئی اور جب پھول بنا تو وہ پورا سفید ہو گیا۔ دو دن میں وہ پودا سفید گلابوں سے بھر گیا اور وہ بہت ہی دلکش نظارہ بن گیا۔

میں اکثر نماز کے بعد اللہ کی خوبصورت مخلوق کو دیکھتا رہتا تھا۔ ان پھولوں کو دیکھ کر مجھے بہت کچھ یاد آنے لگا۔ کسی پھول میں مجھے اپنی امی نظر آتی تھیں، تو کسی پھول میں مجھے اپنا خاندان نظر آتا تھا۔

اس پودے میں ایک گچھا تھا چار پھولوں کا، جس میں مجھے نرگس، یسا، طہٰ اور مریم نظر آتے تھے۔ تین چار دن پورے شباب پر رہنے کے بعد دھیرے دھیرے سارے پھول مرجھا گئے۔ ان کی پنکھڑیاں بےرنگ ہو گئی اور گرنے لگیں۔

پھولوں کے ساتھ ساتھ میں بھی اداس ہو گیا اور جس دن وہ چار پھولوں کا گچھا مرجھایا اس دن میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایسا لگا کہ وہ پھول میری کہانی بیان کر رہے تھے۔ پہلے ہم سب ساتھ ساتھ تھے اور خوب چہک اور مہک رہے تھے۔ پھر اچانک ایک اداسی چھا گئی اور سب ویران ہو گیا۔

بہت دیر تک میں ایسے ہی سوچتا رہا کہ کس طرح میری بھی ہنستی کھیلتی زندگی مرجھا سی گئی۔ اگلے دن جب نماز کے دوران سجدہ میں گیا تو ایک اچھی سی خوشبو کا احساس ہوا۔نماز کے بعد دھیان سے دیکھا تو پیروں کے نیچے پھولوں کی پنکھڑیاں جو جھڑکر نیچے گر گئی تھیں، ایک پیاری سی سفید چادر بن گئی تھیں اور ان سے وہ پیاری خوشبو آ رہی تھی۔

یہ دیکھ کر میرے چہرے پر مسکان آ گئی اور میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ میرے رب نے کیسی عجیب چیز بنائی ہے جو کانٹوں کے بیچ رہ کر بھی پیار اور خوبصورتی کا پیغام دیتی ہے اور جب فنا ہونے لگتی ہے تو آخری دم تک منظر کو خوشگوار اور خوبصورت کرکے فنا ہوتی ہے۔

میں نے خود سے کہا،‘خالد، زندگی ان پھولوں کی طرح ہونی چاہیے، مشکلوں میں پل کر بھی اپنا وجود قائم کرنا، مسکراتے رہنا اور دوسروں کو راحت پہنچانا۔ اور جب تم پر اداسی یا مصیبت آئے، تو تمہارے چاہنے والے بھی ہوں  اور تمہارے لیے دعا کریں جب زندگی کا آخری پڑاؤ ہو، تب بھی خود کو فنا کر کے دوسروں کے کام آنا۔’

دو تین دن تک ایسے ہی خیال دل میں آتے رہے، کبھی مثبت تو کبھی منفی۔ پھر ایک دن میں نے دیکھا تو اس پودے پر پھر کچھ کلیاں دکھائی دیں۔انہیں دیکھتے ہی میں بہت خوش ہو گیا۔ ایسا لگا جیسے زندگی میں کوئی بڑی خوشی مل گئی ہو۔ فوراً قرآن کی آیت دل میں آئی؛ فَإِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا (مشکلوں کے ساتھ، راحت بھی ہے)

بےشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔تقریباً 12 مہینے کے اس معمول نے زندگی کا فلسفہ سمجھا دیا ہے۔ جب بھی دل اداس ہوتا ہے یا مایوسی کی طرف جاتا ہے تو اس گلاب کے پودے کو دیکھتا ہوں جو اب میرا اچھا دوست بن چکا ہے۔

اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں اور خود اسی خاموش استاد سے سبق لیتا ہوں۔ زیادہ لمبے خط کی اجازت نہیں ہے یہاں اس لیےیہیں رکتا ہوں۔ کچھ اور باتیں ہے جو آگے لکھوں گا انشاءاللہ۔ آپ سبھی کو میرا سلام اور مجھے دعا میں یاد رکھنا۔

یسا، طہٰ اور مریم، ابو آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور آپ کو بہت سارا پیار۔

خالدسیفی