فکر و نظر

مہادیو دیسائی کی ڈائری کے ذریعے سابرمتی آشرم میں ٹیکہ کاری  پر ہوئی بحث کی بازدید

گاندھی کہتے تھے کہ وہ کسی کو چیچک کا ٹیکہ لینے سے نہیں روکیں گے، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ  اپنا عقیدہ  نہیں بدل سکتے اور ٹیکہ کاری  کو بڑھاوا نہیں دے سکتے۔

مہاتما گاندھی کے ساتھ مہادیوبھائی دیسائی۔ (فوٹوبہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

مہاتما گاندھی کے ساتھ مہادیوبھائی دیسائی۔ (فوٹوبہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

کووڈ19 ٹیکہ کاری  کے بارے میں ان دنوں اکثر سنی جانے والی بات– ٹیکہ کاری کرنی چاہیےیا نہیں،یہ کتنا مؤثر ہے، ٹیکہ کاری کے ممکنہ مضر اثرات  کے ڈر سے کچھ ممالک میں ٹیکہ کاری کے پروگرام کو رد کیے جانے کی اطلاع نے مجھے مہاتما گاندھی کے احمدآباد واقع  سابرمتی آشرم کے ایک واقعے کی یاد دلا دی ہے، جسے مہادیوبھائی دیسائی نے اپنی ڈائری میں درج کیا تھا۔

گاندھی کے قریبی ساتھی مہادیوبھائی دیسائی گاندھی کی زندگی میں رونما ہونے والےواقعات کی جامع تفصیلات اپنی ڈائری میں درج کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ کو گجراتی میں 23 حصوں  میں شائع  کیا گیا ہے۔ڈائری نمبر 13، جس میں31 اگست، 1929 سے جنوری،1931 کے دوران رونما ہونے والے واقعات  کا ذکر ملتا ہے، اس میں دیگر باتوں کے علاوہ  ٹیکہ کاری کے بارے میں گاندھی کےعقائد کا تذکرہ  بھی کیا گیا ہے۔

سابرمتی آشرم میں چیچک اور ٹیکہ کاری  کے بارے میں ہوئی گفت وشنید سےمتعلق کچھ ترجمہ شدہ اقتباسات کو یہاں پیش  کیا گیا ہے۔

مہادیوبھائی دیسائی کی ڈائری نمبر13: ‘امتحان  اورمستعدی’

‘(سابرمتی)آشرم کے شمال میں ایک جیل ہے اور جنوب میں ایک شمشان ہے۔ آشرم کی چھت سے، جہاں آشرم کا جھنڈا ہے، وہاں سے جیل کی دیواروں اور شمشان میں جلتی چتاؤں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ہم ان دو جگہوں کو ہر روز دیکھتے ہیں، لیکن پھر بھی، تاکہ ہم یہ نہ بھولیں کہ ہم موت کے کتنے قریب ہیں… سیتلا ماتا (چیچک کی دیوی)نے اپنی خوفناک موجودگی محسوس کرائی ہے۔’

‘حالانکہ سب لوگ شمشان کو دیکھتے ہیں، لیکن آشرم میں رہنے والے لوگ اسے روزانہ  دیکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ملک بھر میں لوگ مصیبتوں سے پریشان ہیں اور لاکھوں افراد مرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی، لوگ اتنے دور اندیش نہیں  ہوتے ہیں کہ جب تک وہ ذاتی طور پر(موت کا)تجربہ نہیں کرتے ہیں تب تک لاپرواہ بنے رہتے ہیں۔

گویا اس لاپرواہی کو ختم کرنے کے لیے ہی، سیتلا ماتا آشرم میں نمودار  ہوئی اور بھرپور دیکھ بھال کرنے کے باوجودانہوں نے تین بچوں کی قربانی/بلی لے لی۔ ان میں سے ایک تو کسی بھی دیکھ بھال کے پہلے ہی چلا گیا۔ یہ واقعہ کئی لوگوں کے لیے کئی طرح کے امتحان کی وجہ  بن گئی۔

چیچک کی سیتلا دیوی۔ (فوٹو بہ شکریہ : وکی میڈیا کامنس)

چیچک کی سیتلا دیوی۔ (فوٹو بہ شکریہ : وکی میڈیا کامنس)

‘آشرم میں رہنے والے ہر دن  گیتا کا مطالعہ کرتے ہیں؛ جس نے جنم لیا ہے اس کی موت کے اٹل ہونے کی بات، وہ روز سنتے ہیں اور اس کا وردکرتے ہیں۔ تین دنوں کی قلیل عرصہ میں ہی، ان کے لیے موت تین بار ظاہر ہوئی اور ان تین بچوں کے والدین  کے لیے یہ ان کے گیتا پاٹھ کا امتحان تھا۔ تینوں والدین اس امتحان  میں پوری طرح سےکامیاب ہوئے اور اگر موت  کےدیوتا، یمراج سند دے سکتے، تو انہیں یہ سند ضرور حاصل ہوتا۔

یہ ذکر کرنے کی ضرورت  نہیں ہے کہ کوئی رونا دھونا نہیں کیا گیا۔ جنہیں بچوں کو شمشان تک پہنچانا تھا، انہوں نے ایسا ہی کیا اور باقی لوگ اپنے کام کاج میں لگے رہے۔ ان بچوں کے والدین کے معمول میں کوئی تبدیلی  نہیں آئی ۔ ایک باپ نے بستر مرگ  پر لیٹے اپنے بچہ سے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے کہا، ‘بیٹا، رام نام جپو”۔ بچہ نے رام نام کا دوچار بار ورد کیااور اس نے اشارے سے کہا کہ وہ بول نہیں پا رہا ہے۔

ایک اورباپ  نے، شام کی پوجا کے وقت جب ان کا بچہ اپنی آخری سانس لے رہا تھا، اسے اس کی ماں کو سونپ دیا۔ ماں نے خوشی خوشی بچہ کے باپ کو پوجا میں لوٹ جانے کی اجازت دے دی۔ اور ٹھیک اس وقت جب پوجا کی‘دل کے سکون’سے متعلق عبارت  سنائی جا رہی تھیں، وہ بچہ چل بسا۔ جیسے ہی یہ پوجا ختم ہوئی، باپ کو ان کے بچہ کی موت کے بارے میں مطلع کیا گیا، لیکن باپ  نے گھر کی طرف  دوڑنے کی بجائے سکون  سے سب کو رام دھن گانے کو کہا۔

اس سے بہتر اور کیا نظارہ  ہو سکتا ہے؟ یہ لکھتےوقت، مجھے اس کا احساس  ہے کہ مجھ میں اس طرح سے پرسکون  رہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ میں اس طرح سے موت کا استقبال نہیں کر سکتا ۔ اس لیے میں ان تین بچوں کے والدین  کو سر جھکاکر سلام پیش  کرتا ہوں۔’

‘یہ گیتا کا پاٹھ کرنے والے آشرم کے لوگوں  کے امتحان کے بارے میں ہے۔ لیکن انہیں گیتا پاٹھ کے لیےمستعد  بنانے والے گاندھی جی کو اور بھی بڑے امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔ گاندھی جی پچھلے کئی سالوں  سے ٹیکہ  نہیں لینے کےاصول پرعمل  کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس کے بارے میں کئی بار لکھا ہے۔ انہوں نے اپنے مضبوط قوت ارادی  سے چیچک سے متاثر کئی بچوں کو ٹھیک کیا ہے۔ لیکن جب تین بچہ ایک کے بعد ایک مر جائیں تو کون پرسکون  رہ سکتا ہے؟

اگر میں کہوں کہ گاندھی جی آشرم کے بچوں سے ان کے والدین  سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔ لیکن ممکن ہے کہ ان کے ذہن میں خیال آیا ہو:‘کیا میں آشرم کے بچوں کو چیچک سے محفوظ  رکھنے کے لیے ٹیکہ کاری کی سفارش نہیں کرکے بے رحم  بن رہا ہوں؟’ممبئی اور احمدآباد میں ہزاروں لوگوں کو ٹیکہ لگایا گیا۔ صرف معترضین نے ہی نہیں، بلکہ خیرخواہ بھی روزانہ کہہ رہے ہیں: ‘گاندھی جی اس طرح کاغیرضروری  جوکھم کیوں اٹھا رہے ہیں؟’

ایک خیرخواہ  نے بھی واضح طور پر لکھا:‘مجھے پتہ ہے کہ آپ کسی کو ٹیکہ لگانے سے روک نہیں رہے ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اب سب کو ٹیکہ لگائے جانے پر زور دیں۔’اس صاحب کی رائے کو گاندھی جی بہت اہمیت  دیتے ہیں، اور اگر یہ اصول  کاسوال نہیں ہوتا تو انہوں نے اس کی صلاح کو مان لیاہوتا۔ لیکن ایسے وقت میں؟ انہوں نے (گاندھی جی نے)اس خیرخواہ  کے خط کو کئی لوگوں کے ساتھ شیئر کیا۔ انہوں نے پرارتھنا سبھا میں بھی اسے پڑھا لیکن اس کے ساتھ انہوں نے اپنے خیالات کا بھی اظہارکیا:

‘ٹیکہ کاری ایک گندہ اور غلیظ کام ہے، اسے لینے میں بہت زیادہ  نقصان ہے۔ میں اسے گائے کا گوشت کھانے کے برابر مانتا ہوں۔ لیکن ایسے وقت میں جب میرے اپنے بچہ ایک کے بعد ایک مر رہے ہیں، اگر میں اپنا اصول بدل دوں اور یہ اعلان  کر دوں کہ ٹیکہ کاری  میں کوئی برائی نہیں ہے، تو میرے سچ کی کیا قیمت  رہ جائےگی؟ ایشور میں میرے یقین کا کیامطلب  رہ جائےگا؟ چاہے پورا آشرم ہی صاف کیوں نہ ہو جائے، جب تک کسی بنیادی غلطی کا ثبوت نہیں ملتا، اس پر عمل کرتے رہنا میرا دھرم ہے۔ کون اپنے بچوں کو کھونا چاہےگا؟ جو والدین اپنے بچوں کو ٹیکہ لگوانے میں محفوظ محسوس کرتے ہیں، وہ  ٹیکہ لگوا سکتے ہیں۔ میں بالکل بھی اعتراض  نہیں کروں گا اور اس کا انتظام بھی کروں گا، لیکن میں اپنا عقیدہ  کیسے بدل سکتا ہوں؟ ٹیکہ کاری کو بڑھاوا دینا میرے لیے کیسےممکن ہے؟’

سنسکرت کے دانشور پرچر شاستری کا علاج کرتے گاندھی۔ (فوٹوبہ شکریہ : وکی میڈیا کامنس)

سنسکرت کے دانشور پرچر شاستری کا علاج کرتے گاندھی۔ (فوٹوبہ شکریہ : وکی میڈیا کامنس)

مہادیوبھائی کی ڈائری سے اخذمذکورہ بالا تفصیلات کے علاوہ ٹیکہ کاری کے بارے میں گاندھی کے خیالات کو ان کی کتاب‘اے گائیڈ ٹو ہیلتھ’(شاہراہ تندرستی)میں بھی کیا گیا ہے، جس کا ای رام ایئر نے انگریزی میں ترجمہ کیا،اوریہ1921 میں شائع  ہوا تھا۔

‘متعدی مرض : چیچک’ سے متعلق باب  کے کچھ اقتباسات:

‘… یقینی طور پریہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ چیچک کبھی بھی چھونےسے نہیں پھیلتا ہے، کیونکہ اس کے انفیکشن  کے موافق  جسمانی حالت موجود ہونے پر اس کا پھیلاؤ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ  ہے کہ جس علاقے میں چیچک نکلتا ہے، وہاں ایک ہی وقت پر کئی لوگ اس کے شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اس لیے لوگوں کو گمراہ کرکے یہ یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی  ہے کہ ٹیکہ کاری اسے روکنے کا ایک مؤثر طریقہ  ہے۔

ٹیکہ کاری کےعمل میں چیچک کے مریض کے جسم کے بہاؤ کو گائے کے تھن میں لگانے سے حاصل  ہونے والے سیال  کو ٹیکے کے ذریعے جلدمیں ڈالا جاتا ہے…ٹیکہ کاری  ایک وحشیانہ عمل ہے، اور یہ ہمارے وقت  کے تمام مذاہب میں سے سب سے مہلک  بھرم ہے، جو دنیا کی نام نہاد غیر مہذب نسلوں میں بھی نہیں پایا جاتا۔

اس کے حامی، اسے صرف ان لوگوں تک محدود رکھنے میں مطمئن نہیں ہیں، جنہیں اس سے کوئی اعتراض  نہیں ہے، بلکہ وہ  قوانین اورسخت سے سخت سزا کی مدد سے اسے سبھی لوگوں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ٹیکہ کاری  کی روایت  بہت پرانی نہیں ہے، کیونکہ اس کی شروعات 1798 عیسوی میں ہی ہوئی ہے۔ لیکن نسبتاً اس قلیل مدت کے دوران، لاکھوں لوگ اس بھرم کے شکار ہو گئے ہیں کہ جو لوگ ٹیکہ لگواتے ہیں، وہ چیچک کے حملے سے محفوظ رہتے ہیں… اس کے علاوہ، ٹیکہ کاری ایک بہت ہی گندہ  اور غلیظ عمل ہے، کیونکہ جس سیرم کو انسانی بدن  میں ڈالا جاتا ہے، اس میں نہ صرف گائے سے، بلکہ چیچک کے مریض سے بھی لیا گیا سیال شامل ہوتا ہے۔

ایک عام آدمی اس عمل کو دیکھنے پر قئے کر دےگا…اور پھر بھی ہم خود کو ٹیکہ  لگوانے سے نہیں ہچکچاتے ہیں! کسی نے درست کہا ہے، بزدل زندہ موت کا شکار ہوجاتے ہیں، اور ٹیکہ کاری کے لیے ہماری سنک کے پیچھے صرف چیچک کی وجہ سے ہونے والی بدصورتی یا موت کا ڈر ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ٹیکہ کاری مذہب  اوراخلاقی ضابطوں  کی خلاف ورزی  ہے۔

عادتاًگوشت خوروں کے ذریعے بھی مرے ہوئے جانوروں کے بھی خون پینے کو ممنوعہ  مانا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ٹیکہ کاری بےقصور زندہ  جانوروں کےزہریلے خون کوجسم میں ڈالنے کے علاوہ اور کیا ہے؟ ایشور سے ڈرنے والے لوگوں کے لیے اس طرح کے ناپاک کام  کا قصورواربننے کے بجائے ہزار بار چیچک کا شکار ہونا اور یہاں تک کہ ایک بھیانک موت مرنا بھی کہیں بہتر ہوگا…’

گاندھیائی نظریے  کی ایک طالبعلم  کے طور پر میں اس بات کی تعریف  کرتی ہوں کہ گاندھی نے گرام سوراج سے لےکر برہم چریہ تک، ورناشرم دھرم سے لےکر رام راجیہ، زراعت، صحت،خواتین اوردیگرکئی مسائل  پر اپنے خیالات کاواضح طور پر اظہار  کیا ہے۔ لیکن ان میں سے کئی خیالات پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی ہے یا چرچہ نہیں کی گئی ہے۔

ان خیالات کا مطالعہ اور ان پر چرچہ ان خیالات  کے ارتقا کےسماجی ، ثقافتی، سیاسی ، اقتصادی حوالوں کو سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

جہاں تک چیچک کا سوال ہے، 1974 میں ہندوستان  میں چیچک مہاماری پھیلی تھی۔ حالانکہ میں تب ایک چھوٹی بچی تھی، لیکن پھر بھی مجھے یہ یاد ہے کہ گھر گھر چلائی گئی ٹیکہ کاری مہم کے تحت مجھے بھی ٹیکہ  لگایا گیا تھا۔ تب ہمارے والدین کو ٹیکہ کاری سے انکار کرنے کی آزادی تھی یا نہیں، یہ مجھے یاد نہیں۔

سترکی دہائی  کے آخر میں ہندوستان  سے چیچک کا مکمل طور پر خاتمہ  ہوا اور 1980 میں ڈبلیو ایچ او نے دنیا کو چیچک سےآزاداعلان  کیا۔

کووڈ19 مہاماری کے تناظرمیں صرف وقت ہی بتا سکتا ہے کہ ٹیکہ کاری کتنی مؤثر یا غیرمؤثر ہوگی۔ لیکن  ہندوستان  میں چیچک مہاماری سے متعلق کچھ پرانے دستاویز پڑھنے سے مجھے یقین  ہو گیا ہے کہ ہم کووڈ 19 مہاماری پر بھی قابو پا لیں گے۔

(نندنی اوجھا نرمدا بچاؤ تحریک میں کارکن کے طور پر بارہ سالوں تک کام کرنے کے بعد اب نرمدا سنگھرش کی زبانی تاریخ  پر کام کر رہی ہیں۔)

 (اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)