خبریں

’ جہنم  اور کچھ نہیں، کووڈ اسپتال، شمشان کی لمبی قطاریں اور لگاتار جلتی لاشیں  ہی ہیں…‘

بھوپال شہر کے سارے وشرام گھاٹ ان دنوں لاشوں  سے پٹے پڑے ہیں۔ ڈھیر ساری ایمبولینس لاشوں  کو رکھے اپنی باری کا انتظار کرتی رہتی ہیں، چاہے بھدبھدا وشرام گھاٹ ہو یا سبھاش وشرام  گھاٹ سب جگہ اتنی لاشیں  آ رہی ہیں کہ انتظامیہ  کے چہرے پر پسینہ ہی دکھتا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

بھوپال کے بھدبھدا وشرام گھاٹ پر وہ آٹھ تاریخ کی شام کا وقت تھا جب سورج تقریباً ڈوبنے کو تھا اور اندھیرا ہر کونے پر چھا رہا تھا۔عام طور پرشمشان گھاٹ کا اندھیرا ڈراونا ہوتا ہے مگر اس اندھیرے کو اور زیادہ خوفناک  بنا رہی تھیں وہ لپٹیں، جو پاس میں جل رہی چتاؤں سے اٹھ کر ہواؤں سے ہوڑکر اوپر کی جانب  اٹھ رہی تھیں۔

قطار میں دس سے بارہ لاشیں ایک ساتھ جل رہی تھیں۔ آگ میں گوشت کے جلنے اور لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں آ رہی تھیں جس میں جڑ رہی تھیں چتاؤں سے دور کھڑے سوگوار اہل خانہ  کی تیز تیز سسکیاں۔ آنکھوں میں آنسو بھرکر کوئی ان چتاؤں کی طرف ہاتھ جوڑے کھڑا تھا تو کوئی کسی کو سہارا دےکر ڈھانڈس بندھا رہا تھا اور خود بھی سبک رہا تھا۔

یہ سارے وہ بدقسمت لوگ  تھے جو نہ تو اپنے اہل خانہ  کو اسپتال میں بھرتی کراتے وقت مل پائے اور نہ اس آخری  وداعی کے دوران ان کو اچھے سے دیکھ پائے۔ پی پی ای کٹ کی پلاسٹک  اور کورونا کے انفیکشن  کا خطرہ لاشوں سے اپنوں کو دور کیے ہوئے تھا۔

یہ چتائیں وشرام گھاٹ کے دوسری جانب  بنی تھیں، جہاں کورونا سے دم توڑنے والوں کے آخری رسومات کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے تقریباً روز پچاس سے ساٹھ کورونا لاشوں  کا اس جگہ انتم سنسکار ہو رہا ہے۔

آخری رسومات کی ادائیگی  کے لیے آ رہے لاشوں کی یہ رفتار وشرام گھاٹ میں سالوں سے کام کر رہے لوگوں کو یاد نہیں پڑتی۔روایتی  لکڑی کی مدد سے کیے جانے والے اس شمشان  کے پاس ہی برقی شمشان  بنا ہوا ہے، جہاں کی اونچی چمنی لگاتار آسمان کی جانب  دھواں اگل رہی تھی۔

اسی چمنی کی جانب  ایک ٹک نہارے جا رہی تھی دویا، جس کی ماں مینا جین کا انتم سنسکار اس شمشان  میں ہوا۔ دویا کی آنکھوں سے آنسو لگاتار گر رہے ہیں اور وہ ہے کہ اس دھوئیں کی لکیر کا پیچھا اپنی نگاہوں سے کیے جا رہی ہے۔

دویاکو اپنے کندھے کا سہارا دےکر دیپک کھڑا ہے۔ اچانک جیسے نڈھال سی کھڑی دویا کے بدن  میں حرکت ہوتی ہے وہ کہتی ہے، ‘دیپک دیکھو، دیکھو وہ میری ماں جا رہی ہیں، دیکھا تم نے وہ دھوئیں کے بیچ میں دیکھو ان کا چہرہ دکھ رہا ہے۔ دیکھو اچھے سے دیکھو، وہ مسکرا رہی ہیں۔ دیکھو، دیپک غور سے دیکھو، میری ماں کے چہرے کا فوٹو اتارو جلدی کیمرہ نکالو۔’

ادھر پاس میں ہی دیوار پر کھڑے ہوکر فوٹوگرافر سنجیو گپتا اپنے کیمرے سے شمشان گھاٹ میں جل رہی چتاؤں کے فوٹو لے رہے تھے۔ ان کی طرف دیکھ دویا چیخی،‘بھیا او بھیا! وہ میری ماں کا فوٹو نکالو دیکھو وہ جا رہی ہیں۔ اس دھوئیں کے بیچ میں بیٹھ کر، آپ جلدی ان کی فوٹو اتارو۔ جلدی کرو بھیا! وہ دور ہو جائیں گی۔’

کورونا کی سفاکی کو اپنے کیمرے کی نظر سے دیکھ رہے سنجیو کے لیےیہ اچانک پیش آیا چیلنج  تھا۔ سنجیو نے برقی شمشان سے نکل رہے دھوئیں کی لمبی لکیر کی فوٹو تو لی ہی، ساتھ میں سوگوار ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑے میاں بیوی  دیپک اور دویا کی فوٹو بھی کھینچ لی۔

دیپک اور دویا کی زندگی دو دن میں ہی اجڑ گئی۔ کوتما میں رہنے والے ڈاکٹر دیپک کی شادی دویا سے ہوئی تھی، جو کھنڈوا کی رہنے والی ہیں۔کھنڈوا میں دویا کےوالد ریٹائرڈ ڈپٹی کلکٹر جی کے جین بیوی  مینا کے ساتھ رہتے ہیں۔ اچانک جی کے جین اور بیوی  مینا کی طبیعت بگڑتی ہے۔ دونوں کو بھوپال لاکر حمیدیہ اسپتال میں بھرتی کرایا جاتا ہے۔

جین صاحب کے داماد دیپک اور بیٹی دویا کوتما سے اپنے دو بچوں کے ساتھ بھاگے بھاگے بھوپال آتے ہیں۔ جین صاحب کی طبیعت اور بگڑتی ہے، وینٹی لیٹر پر رکھا جاتا ہے۔ مگر صبح بھرتی کرائی گئیں مینا کووڈ کا علاج شروع ہوتے ہی شام تک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے دم توڑ دیتی ہیں۔

اچانک آئی اس مصیبت  سے دیپک اور دویا سنبھل بھی نہیں پاتے کہ پھر شروع ہو جاتی ہے ڈیڈ باڈی یعنی لاش  کو لینے کی لمبی سی کارروائی ۔ مورچری سے لےکر شمشان گھاٹ تک ایمبولینس کی مدد سے پہنچانے کے لیے اتنے کاغذی انتظام کرنے پڑتے ہیں کہ دکھ درد سب بھول کر اسی مشکل کام  میں لگنا پڑتا ہے۔

موت کے بعد اگلے دن صبح سے شام ہو جاتی ہے تب جاکر باڈی ملتی ہے اور پھر اس کے بعد شمشان گھاٹ میں لمبا انتظار…

شہر کے سارے وشرام گھاٹ ان دنوں لاشوں  سے پٹے پڑے ہیں۔ ڈھیر ساری ایمبولینس لاشوں  کو رکھے اپنی باری کا انتظار کرتی رہتی ہیں، پھر چاہے بھدبھدا وشرام گھاٹ ہو یا سبھاش وشرام گھاٹ سب جگہ اتنی لاشیں آ رہی ہیں کہ انتظامیہ کے چہرے پر پسینہ ہی دکھتا ہے۔

کہیں پر لکڑی کی کمی ہو گئی ہے تو کہیں پر لگاتار ایک جیسا کام کرنے سے وشرام گھاٹ کے ملازمین کے چہرے پر اب تھکان اور تناؤ بھی دکھنے لگا ہے۔

دیپک بتاتے ہیں کہ وہ  ان کی ساس کا انتم سنسکار کر جلدی اپنے سسر کے پاس اسپتال اور بچوں کے پاس ہوٹل جانا چاہتے تھے مگر جب بتایا گیا کہ بیس باڈی کے بعد نمبر آئےگا تو انہوں نے برقی شمشان  کی مدد لی اور وہیں سے نکلی دھوئیں کی لمبی لکیر کو دیکھ کر دویا کو اپنی ماں کی یاد آتی رہی۔

یہ ساری اذیت ناک کہانی سنانے کے بعد دیپک کے من کا اصل درد اب باہر آتا ہے بولتے ہیں، ‘سر، آپ کو بتاؤں جہنم  کہیں نہیں ہے۔کووڈ کے یہ اسپتال اور ان کی صورتحال، اس کے بعد شمشان کی یہ لمبی قطاریں لگاتار جلتی چتائیں ہی اصلی  جہنم  ہیں، جن کے بیچ ان دنوں ہم سب رہ رہے ہیں۔’

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور اے بی پی نیوز سے وابستہ  ہیں۔ یہ مضمون  اےبی پی نیٹ ورک کے بلاگ پر شائع  ہوا ہے۔)