خبریں

ہائی کورٹ کی مرکزی حکومت کوسرزنش، کہا-بھیک مانگیں، ادھار لیں یا چوری کریں، آکسیجن لانا آپ کی ذمہ داری

دہلی ہائی کورٹ نے آکسیجن کی فوری ضرورت پر عرضی سنتے ہوئے مرکزی حکومت کی سخت سرزنش کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ جب تک آکسیجن کا امپورٹ نہیں ہوتا تب تک اگر اسپات پٹرولیم جیسے پلانٹ کم صلاحیت کے ساتھ کام کریں تو کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑےگا۔ لیکن اسپتالوں کو آکسیجن نہیں ملی تو تباہی مچ جائےگی۔ ہم لوگوں کو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ  نے بدھ کو مرکز کو یہ کہتے ہوئے کہ اسپتالوں کو آکسیجن کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا مرکز کی ذمہ داری ہے، عدالت نے ہدایت دی کہ کووڈ 19 کے نازک مریضوں  کا علاج کر رہے قومی راجدھانی کے ان اسپتالوں کو فوراً کسی بھی طریقے سے آکسیجن مہیا کرائی جائے جو اس گیس کی کمی سے جوجھ رہے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، جسٹس وپن سانگھی اور جسٹس ریکھا پلی کی بنچ نے شنوائی کرتے ہوئے مرکزکی سخت سرزنش کی  اور کہا کہ یہ قومی  ایمرجنسی ہے اور دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ کے لیےگویا زندگی  کوئی معنی نہیں رکھتی۔

عدالت نے کہا، ‘ہم حیران ہیں کہ حکومت کو سچائی نظر ہی نہیں آ رہی ہے… چل کیا رہا ہے؟ حکومت کو اصلیت دکھائی کیوں نہیں دے رہی ہے؟’

عدالت بالاجی میڈیکل اینڈ ریسرچ سینٹر کی عرضی پر شنوائی کر رہی ہے۔ یہ ادارہ میکس نام سے متعدداسپتال چلا رہا ہے اور انہوں نے اسپتالوں کے بےحد کم آکسیجن کے ساتھ کام کرنے کو لےکر عدالت سےمداخلت کرنے کی عرضی  دائر کی تھی۔

بنچ نے کہا، ‘ہر دس دن پر کووڈ کے معاملے دوگنے ہو رہے ہیں اور زمین پر حالت یہ ہے کہ آکسیجن کی کمی ہے اور یہ سب کے سامنے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی جھوٹی بات ہے یا صرف ایسا دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسا ہو رہا ہے اور ہم اس کی طرف سے آنکھیں نہیں بند کر سکتے۔’

بنچ نے آگے کہا، ‘آپ سرکار ہونے کے بطور یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیکھیے ہم اتنا دے سکتے ہیں، اتنا نہیں دے سکتے تو اگر لوگ مرتے ہیں، تو مرنے دیجیے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے اور کسی خومختار ملک میں یہ جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں لوگوں کے بنیادی حق کو یقینی  بنایا ہوگا۔

عدالت نے کہا کہ لوگ مر رہے ہیں، اور ہم لوگوں کو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ آپ آکسیجن کی سپلائی  بڑھانے کے لیے تمام متبادل کی تلاش نہیں کر رہے۔ بھیک مانگیں، ادھار لیں یا چوری کریں۔ لیکن آکسیجن لانا آپ کی ذمہ داری ہے۔

مرکزی حکومت کے کچھ پلانٹ کو آکسیجن کے استعمال کرنے کی چھوٹ کو لےکر عدالت نے کہا، ‘مرکزحالات کی سنگینی کو کیوں نہیں سمجھ رہا؟ ہم اس بات سے حیران  اور مایوس ہیں کہ اسپتالوں میں آکسیجن ختم ہو رہی ہے لیکن اسپات کے پلانٹ چل رہے ہیں۔’

عدلیہ  نے کہا کہ جب تک آکسیجن کا امپورٹ  نہیں ہوتا تب تک اگر اسپات اور پٹرولیم جیسی انڈسٹری کم صلاحیت  کے ساتھ کام کریں تو کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑےگا۔ لیکن اسپتالوں کو آکسیجن نہیں ملا تو تباہی مچ جائےگی۔

بنچ نے کہا کہ آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری پوری طرح سے مرکزی حکومت کے کندھوں پر ہے اور ضرورت پڑی تو اسپات اور پٹرولیم سمیت تمام انڈسٹری  کی ساری آکسیجن کی سپلائی  میدیکل کے لیے کی جا سکتی ہے۔

بنچ نے کہا، ‘اسپات اور پٹروکیمکل انڈسٹری آکسیجن کی بہت کھپت کرتے ہیں اور وہاں سے آکسیجن لینے سے اسپتالوں کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔’

عدالت نے کہا، ‘جب ٹاٹا اپنے اسپات انڈسٹری  کے لیے بنائی جا رہی آکسیجن کومیڈیکل کے لیے دے سکتے ہیں تو دوسرے ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ لالچ کی حد ہے۔ ذرا سی بھی انسانیت بچی ہے یا نہیں۔ ہم کیا دیکھ رہے ہیں…یہ بےحد خراب ہے۔ جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر رہے ہیں تب آپ انڈسٹری  کے لیے فکرمند ہیں۔ ایک دو ہفتے آپ کی انڈسٹری انتظار کر سکتی ہیں۔ یہ شدید ایمرجنسی  ہے۔ اس کا مطلب  یہ ہے کہ حکومت کے لیے انسانی زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں؟’

عدلیہ  نے کہا کہ وہ آکسیجن کا پروڈکشن  کرنے والے اسپات پلانٹ کوچلانے کی اجازت دینے کی مرکزکی پالیسی سے خوش نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ مرکزی حکومت اسپتالوں کو آکسیجن کی سپلائی  کے لیے طریقوں اور وسائل  پر غور کرےگی، چاہے خصوصی راہداری  بناکر یا پھر ہوائی راستےسے پہنچاکر۔

عدالت نے کہا کہ یہ بےحد‘سنگین’حالات ہیں اور ‘ہزاروں’ لوگ اس لیے جان گنوا سکتے ہیں کیونکہ ‘ہم ان کے لیے آکسیجن مہیا نہیں کر سکے۔’ کورٹ نے کہا، ‘ہم آپ کو بتا رہے ہے کہ ایک آئینی ملک  ہونے کے ناطے مریض کی ضرورت کے مطابق، جتنے میٹرک ٹن آکسیجن چاہیے ہوں، وہ مہیا کروانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ اس سے منھ پھیرکر نہیں کہہ سکتے کہ ‘معاف کیجیے، ہمارے پاس آکسیجن نہیں ہے، آپ جان گنوا دیجیے۔ ہم یہ قبول نہیں کر سکتے، آپ کو ایک قدم آگے جانا ہی ہوگا۔’

عدالت نے کہا جو انڈسٹری اپنا سپلائی کرتی ہیں، ان سے آکسیجن لی جا سکتی ہے۔ کورٹ کا کہنا تھا، ‘اگر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے ان صنعتوں کو کچھ وقت بند رکھنا ہوگا، جب تک کوئی اور انتظام  نہیں ہو جاتا تو ایسا ہی کیجیے کیونکہ ہم جان نہیں جانےدے سکتے۔ یہ آخری  بات ہے۔’

عرضی میں کہا گیا ہے کہ اگر آکسیجن کی فراہمی فوراً درست نہیں کی جاتی ہے تو نازک  اور آکسیجن سپورٹ والے مریضوں کی جان خطرے میں پڑ جائےگی۔بنچ نے کہا، ‘ہم مرکزی کو یہ ہدایت  دینے کے لیے مجبور ہیں کہ اس حکم  پر فوراًعمل کیا جائے اور اسپتالوں کو فراہمی  کے لیے اسپات پلانٹ کی اورضرورت پڑنے پر پٹرولیم پلانٹ کی آکسیجن لی جائے۔’

اس نے کہا کہ ایسےصنعتوں کو اسپتالوں میں حالات سدھرنے تک اپنا پروڈکشن روکنا ہوگا۔ عدالت نے ان سے کہا کہ وہ جس آکسیجن کا پروڈکشن کرتے ہیں، اسے بڑھائیں اوردوسرے صوبے کومیڈیکل استعمال  کے لیے مرکز کو دیں۔

ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل چیتن شرما کی گزارش پر عدلیہ نے کچھ وقت  کے وقفہ کے بعد رات 9:20 بجے شنوائی جاری رکھنے پر رضامندی  ظاہر کی۔بنچ نے کہا،‘ہماری تشویش صرف دہلی کے لیے نہیں ہے۔ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں آکسیجن سپلائی  کے لیے مرکزی حکومت کیا کر رہی ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘مرکزی حکومت کیا کر رہی ہے۔ اگر دہلی میں یہ حالات ہیں تو یقیناًدوسرے صوبوں  میں بھی ایسے ہی ہوں گے۔’

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)