فکر و نظر

دہلی میں افطار کی سیاست؛ جانے کہاں گئے وہ دن…

ہندوستان  اس وقت کورونا وبا کی بدترین گرفت میں ہے۔ اس سال تو شایدہی کسی افطار پارٹی میں جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ امید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کے لیےسلامتی لےکر آئے اور زندگی دوبارہ معمول پر آئے۔ اسی کے ساتھ دہلی میں حکمرانوں کو بھی اتنی سمجھ عطا کرکے کہ ہندوستان  کا مستقبل تنوع میں اتحاداور مختلف مذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی میں مضمر ہے،  نہ کہ پوری آبادی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی کلچر کو تھوپنے سے۔

علامتی تصویر : پی ٹی آئی

علامتی تصویر : پی ٹی آئی

مقد س مہینہ رمضان شروع ہو چکا ہے، جس میں مسلمان بھوکے پیاسے دن گزار کر ایک طرح سے اپنا سالانہ احتساب کرتے ہیں، مگر اس ماہ کی شامیں، جو افطاری یا روزہ کھولنے سے شروع ہوتی ہیں، خاصی روشن اور ولولہ انگیز ہوتی ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ اس ماہ کے آتے ہی ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں سیاسی بیٹ کور کرنے والے صحافیوں کی تو جیسے عید آ جاتی تھی۔ ہر رو ز کسی نہ کسی سیاستدان، وزیر یا سیاسی پارٹی کی طرف سے افطار پارٹی کا اہتمام، نیوز رومز میں ان کو کور کرنے کے لیے باضابطہ بیٹ لگتی تھی۔

صدر مملکت، وزیر اعظم اور کانگریس پارٹی کی طرف سے منعقدہ افطار پارٹی کے دعوت نامہ کے حصول کے لیے تو ایسی تگ و دو اور لابی کرنی پڑتی تھی، جیسے کوئی عہدہ یا اسمبلی یا پارلیامنٹ کی ممبری حاصل کرنی ہوتی تھی۔

مگر  2014 میں مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے برسراقتدار آنے کے بعد ان پارٹیوں کی رونق تو ویسے ہی پھیکی پڑ گئی تھی، کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پچھلے سال کی طرح اس بار بھی ان پارٹیوں کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا  ہے۔

افطار پارٹی کے بلاوے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ افطاری اور ڈنر کے درمیان راشٹرپتی بھون یا وزیر اعظم ہاؤس یا کسی اور وزیر یا سیاسی پارٹی کے بنگلہ کے لان میں یا کسی عالیشان ہوٹل کے ہال کے کونے میں روزہ دار جس طرح ایک ساتھ نماز کا اہتمام کرکے ایک ڈسپلن کے ساتھ سر بسجود ہوتے تھے، وہ سماں بھی قابل دید ہوتا تھا۔

سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی افطار پارٹیوں میں نامور باورچیوں کی طرف سے تیار کردہ بریانی، مرغ مسلم، قورمہ اور دیگر لوازمات سے پیٹ پوجا کا موقع تو ملتا ہی تھا، مگر یہ سیاسی گلیاروں میں چل رہی سرگرمیوں کی سن گن لینے کا ایک اہم ذریعہ ہوتی تھیں۔

چونکہ 1989سے 2014تک ہندوستان  میں مخلوط حکومتیں برسراقتدار ہوتی تھیں، افطار پارٹیاں سیاسی گپ شپ اور ایک دوسرے کو منانے اور خاموش پیغامات پہنچانے کا بھی ایک ذریعہ ہوتی تھیں۔ سیاسی رپورٹروں کے لیےیہ دیکھنا لازم ہوتا تھا کہ کس کس سیاستدان نے پارٹی میں شرکت کی، اور اگر کوئی آیا نہیں ہے، تو معلوم کرنا ہوتا تھا کہ اس کو مدعو کیا گیا تھا کہ نہیں۔

اگر دعوت کے بعد بھی شریک نہیں ہوا ہے، تو نتیجہ اخذ کیا جاتا تھا کہ مذکورہ سیاستدان حکومت سے ناراض چل رہا ہے اور حکومت تو بس اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ کسی سوال کے جواب میں کسی  وقت کوئی اہم اعلان بھی افطار پارٹی کے دوران ہوتا تھا۔ چونکہ افطار پارٹیوں کی سیٹنگ ایک طرح سے غیر رسمی ہوتی تھی، اسی لیےسیاستدانوں کا رویہ بھی روایتی پریس کانفرنسوں سے ہٹ کر دوستانہ ہوتا تھا۔


یہ بھی پڑھیں: قصہ دہلی کی افطار پارٹیوں کا


صحافیوں اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ گھل مل کر ہنسی مذاق کا دور چلتا تھا۔ کسی بھی پالیٹکل رپورٹر یا نئے منتخب شدہ ممبر پارلیامنٹ کے لیے دہلی کے سیاسی گلیاروں میں افطار پارٹیاں نیٹ ورکنگ کا نایاب موقع فراہم کرتی تھیں۔

مجھے یاد ہے ایک دہائی قبل پہلی بار مجھے کانگریس پارٹی کی طرف سے دی گئی افطار پارٹی کو کور کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ ان دنوں کانگریس حکومت میں تھی، اور اس کی صدر سونیا گاندھی سے ملنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ دہلی شہر میں بھی ان دنوں کانگریس پارٹی کی ہی حکومت تھی۔

دہلی کے ایک عالیشان ہوٹل میں اس پارٹی کی چکا چوند نے تو مجھے حیرت زدہ کردیا۔سونیا گاندھی اور ان کے فرزند راہل گاندھی اپنی پلیٹ لےکر ہر میز پر باری باری بیٹھ کر صحافیوں اور دیگر افراد کے ساتھ تبادلہ خیال کررہے تھے اور ہر کسی کے سوالات کے جوابات بھی دے رہے تھے اور ملک بھر سے آئے اپنے پارٹی لیڈروں کے مشوروں کو بھی نوٹ کرتے جاتے تھے۔ عام حالات میں ان تک رسائی ہی ممکن نہیں تھی۔

دہلی میں ان سیاسی افطار پارٹیوں کو  شروع کرنے کا سہر ا 70 اور 80 کی دہائیوں کے قد آور لیڈر ہیم وتی نندن بہوگناکے سر جاتا ہے۔ بہوگنا مسلم سماج کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو مین اسٹریم کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کا یہ فارمولہ اس قدر کامیاب رہا کہ تمام سیاسی پارٹیوں بشمول بی جے پی نے ابھی اس کو اپنایا۔

بی جے پی نے تو 2014میں اقتدار میں آنے کے بعد ہی اس  سے کنارہ کشی کی۔ اندرا گاندھی سے لےکر من موہن سنگھ تک بشمول اٹل بہاری واجپائی سبھی وزرائےاعظم اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہر سال افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح پرنب مکھرجی کے عہدہ صدارت تک بھی راشٹر پتی بھون میں ہرسال افطار پارٹیاں ہوتی تھیں۔

جن میں مسلم ممالک کے سفراءبھی شامل ہوتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی امریکی، برطانوی، پاکستانی اور دیگر سفارت خانے بھی افطار پارٹیوں کا نظم کرتے تھے، جو سفارتی بیٹ کور کرنے والے صحافیوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوتی تھی۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

 گو کہ بی جے پی نے افطار پارٹیوں کے کلچر کو بند کرادیا، مگر ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کی شاخ راشٹریہ مسلم منچ ابھی بھی ہر سال افطار پارٹی منعقد کرتی ہے، جس کی صدارت آر ایس ایس کے لیڈر اندریش کمار کرتے ہیں۔

بی جے پی کے لیڈر شاہنواز حسین کی افطار پارٹی دہلی میں بڑی مشہور ہوتی تھی، مگر 2014کے بعد انہوں نے بھی اس کو موقوف کر دیا۔پرنب مکھرجی نے گو کہ 2017تک اپنے عہدہ صدارت کی مدت تک افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا، مگر وزیر اعظم نے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر ان میں شرکت نہیں کی۔

حکومت کی طرف سے عموماً راج ناتھ سنگھ علامتی شرکت کرتے تھے، مگر سفارت کاروں وغیرہ کی آمد اور ان سے علیک سلیک کے بعد فوراً ہی روزہ کھولنے کا انتظار کیے بغیر ہی لوٹ جاتے تھے۔ ورنہ لکھنؤمیں وہ خود بھی افطار پارٹیوں کا خاصہ اہتمام کرتے تھے۔ مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد وزیروں اور بی جے پی کے لیڈروں نے اہتمام کرنا اور پارٹیوں میں آنا بند کردیا۔ انہیں خوف لاحق ہوگیا کہ ایسی محفلوں میں شرکت سے ان کی شبیہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور پارٹی میں ان کا پرفائل کم ہونے کے امکانات ہیں۔

کئی افراد افطار پارٹیوں کو وقت اور پیسے کا زیاں سمجھتے ہیں، مگر میرے خیال میں ہندوستان جیسے کثیر جہتی ملک میں یہ فرقوں اور مذاہب کے درمیان میل جول، ایک دوسر ے کو جاننے اور مکالمہ کا ذریعہ تھیں۔ میں جس میڈیا ہاوس میں کام کرتی تھی، وہاں نیوز روم میں بس ایک یادو ہی مسلمان تھے، مگر ہم افطار کا بھر پو ر اہتمام کرتے تھے۔


یہ بھی پڑھیں:مسلمانوں سے دور بھاگتی سیکولر جماعتیں اور آر ایس ایس کی افطار پارٹیاں


پورے ماہ گویا ہر شام ایک عید کی طرح ہوتی تھی۔ ہمارے ایک سینئرایڈیٹر پارسا وینکٹیشور راؤتو دن میں پرانی دہلی جاکر وہاں سے انواع قسم کے کھانے لاکر اپنی جیب سے افطاری کا انتظام کرواتے تھے۔ اکثرافطاری کی میزبانی کرنے کی ڈیوٹی لگتی تھی، جو باری باری ہنسی خوشی انجام دی جاتی تھی۔

کئی ساتھی، جو شام کو آفس آنے سے گریز کرتے تھے، رمضان کے دنوں میں وہ بھی بلا ناغہ حاضر ہوتے تھے۔ گو کہ دفتر کا افطار سیاسی افطاروں کی طرح شاہانہ نہیں ہوتا تھا، مگر اس میں شامل ہونا اور اپنے مسلمان ساتھیوں کے ساتھ روزہ کھولنے کی خوشی کی یادیں ہمیشہ ہی ذہن میں پیوست رہیں گی۔

میں چونکہ جھارکھنڈ کے شہر رانچی سے دہلی شفٹ ہوگئی تھی، مجھے افطار کے اس قدر اہتمام کا پتہ نہیں تھا۔ رانچی میں مسلمان چھوٹے تاجروں اور دکانداروں پر مشتمل تھے اور افطاری کے وقت وہ دکانوں کے شٹر گراتے تھے اور روزہ کھول کر پھر دوبارہ کاروبار شروع کرتے تھے۔

ہندوستان  اس وقت کورونا وبا کی بدترین گرفت میں ہے۔ اس سال تو شایدہی کسی افطار پارٹی میں جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ امید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کے لیےسلامتی لےکر آئے اور زندگی دوبارہ معمول پر آئے۔ اسی کے ساتھ دہلی میں حکمرانوں کو بھی اتنی سمجھ عطا کرکے کہ ہندوستان  کا مستقبل تنوع میں اتحاداور مختلف مذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی میں مضمر ہے،  نہ کہ پوری آبادی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی کلچر کو تھوپنے سے۔ میر ی تو بس یہی استدعا ہے۔

انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری با

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)