خبریں

کووڈ 19: کیا دوائیوں کی قلت کے بیچ بی جے پی ایم پی گوتم گمبھیر کا دوا تقسیم کرنا غیرقانونی ہے

دہلی میں کو رونا کے علاج میں کام آنے والی دوافیبی فلو کی کمی کے بیچ مشرقی  دہلی سے بی جے پی ایم پی گوتم گمبھیر نے اعلان  کیا کہ ان کے پارلیامانی حلقہ کے لوگ ان کے دفتر سے مفت میں یہ دوا لے سکتے ہیں۔ جانکاروں کے مطابق، بنا ڈرگ لائسنس کے رہنماؤں کا اس طرح دوا تقسیم کرنا غیر قانونی ہے۔

گوتم گمبھیر کے دفتر کے باہر دوا لینے کے لیے کھڑے لوگ۔ (فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)

گوتم گمبھیر کے دفتر کے باہر دوا لینے کے لیے کھڑے لوگ۔ (فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)

نئی دہلی: ملک بھر میں کورونا کے بڑھتے قہرکے بیچ کئی صوبوں میں فیبی فلو نام کی دوا کی شدید قلت دیکھنے کو ملی ہے۔ لگاتار سوشل میڈیا کے مختلف گروپوں میں الگ الگ صوبے کے لوگ اس دوا کو اپنے کورونا مریضوں کے لیے ڈھونڈتے نظر آئے۔

دہلی بھی ان سے اچھوتا نہیں ہے۔گزشتہ پانچ دنوں میں فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارم پر کورونا متاثرین  اور ان کے اہل خانہ ، لواحقین کی مدد کر رہے رضاکاروں کے کے ذریعےلگاتار فیبی فلو نہ ملنے یا بہ مشکل ملنے کی بات کہی گئی۔ کچھ نے بتایا کہ انہوں نے اس کے لیے ایم آرپی سے کافی زیادہ  قیمت بھی دی ہے۔

فیبی فلو ایک اینٹی وائرل دوا ہے، جس کا استعمال کورونا متاثرین کے ہلکے اوراوسط  آثار والے مریضوں کے علاج  میں کیا جا رہا ہے۔

عام لوگوں کی دوائی پانے کی مشقت کے بیچ21اپریل کو مشرقی  دہلی سے بی جے پی  کے ایم پی گوتم گمبھیر نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اعلان کیاکہ ان کے پارلیامانی حلقہ کے لوگ ان کے جاگرتی انکلیو کے دفتر پر پرسکرپشن اور آدھار کارڈ دکھاکر مفت یہ دوائی لے سکتے ہیں۔

گمبھیر کے ایسا لکھنے کے فوراً بعد رہنماؤں اور صحافیوں  سمیت ڈھیروں لوگوں نے اسے لےکر سوال کھڑے کیے۔ کانگریس ترجمان  پون کھیڑا نے دہلی کےوزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ٹیگ کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا دوا کی کمی اسی لیےہو رہی ہے کہ اس طرح کے لوگوں نے غیر قانونی طور پر اسے لیا یا تقسیم کیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا گمبھیر کا ایسا کرنا قانونی ہے۔ انہوں نے گمبھیر سے پوچھا کہ ان کے پاس کتنی فیبی فلو ہیں اور انہوں نے اسے کیسے حاصل کیا۔

کانگریس رہنما سلمان انیس سوزنے لکھا، ‘انتشار ایسے ہی پھیلتا ہے۔ مقتدرہ پارٹی کے ایم پی  کا دفتر اب فارمیسی بن گیا ہے۔ بازار کو کنارے کرکے وہ  اب ضرورت مند لوگوں کو اپنے دفتر بلائیں گے اور اس کا سیاسی  ایونٹ بنائیں گے۔

دہلی کے ڈرگس کنٹرول محکمہ کو فوراً کارروائی کرنی چاہیے۔

دی ہندو میں کام کرنے والی سینئر صحافی سہاسنی حیدر نے سوال اٹھایا کہ جو دوا بازاروں میں دستیاب نہیں ہے وہ ایک ایم پی کیسے تقسیم  کر سکتا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے سینئر صحافی  وشنو سوم نے بھی اس کے  قانونی جوازکو لےکر شبہ کا ا ظہار کیا۔ وشنو نے لکھا کہ دوائیاں تو بنیادی طور پر کیمسٹ اور اسپتالوں کے ذریعے اسٹاک اور مختص ہوتی ہیں، تو ایسے میں کیا ایسا کرناممکن بھی ہے۔

عام آدمی پارٹی(عآپ)کےرہنما درگیش پاٹھک نے گجرات اور مہاراشٹر میں ہوئے ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ‘گجرات میں بی جے پی صدرزندگی بچانے والا انجکشن اکٹھا کرتے ہیں، مہاراشٹر میں بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ  ریمڈیسور اور دہلی میں بی جے پی  کے پارٹ ٹائم بی جے پی ایم پی اور فل ٹائم کرکٹ کمنٹٹر جان بچانے والی  دوا۔عوامی نمائندہ  یا مجرم ؟ آپ فیصلہ کیجیے۔’

پارٹی کے ایک اور رہنماراجیش شرما نے بھی گمبھیر کے  دوائی تقسیم کرنے پر سوال اٹھایا اور کہا، ‘یہی وجہ ہے کہ ریموڈیسور، فیبی فلو اور ایسی ہی کئی دوائیاں بازار سے غائب ہیں۔ بی جے پی رہنماانہیں اکٹھا کر رہے ہیں۔ ہم نے ایسا گجرات میں بھی دیکھا تھا۔ ایسے رہنماؤں کے خلاف معاملہ درج کیا جانا چاہیے۔

گمبھیر نے کہا جمع خوری نہیں، مدد کر رہا ہوں

سوشل میڈیا سمیت سیاسی حلقوں میں ہوئی  مخالفت اور دوا کی جمع خوری کے الزامات کے بعد 22 اپریل کو گوتم گمبھیر نے بیان دیا کہ دوا کی کچھ سوا سٹرپس لےکر غریبوں کی مدد کرنے کو جمع خوری نہیں کہتے ہیں۔

خبررساں ایجنسی  اے این آئی کو دیے بیان میں گمبھیر نے کہا،‘آپ جاگرتی جاکر دیکھ لیں ہم کس طرح سے فیبی فلو بانٹ رہے ہیں۔ لوگ اپنا آدھار اور دوا کی پرچی لےکر آئیں۔ جتنی ٹبلیٹ کی ضرورت ہے، ہم مفت میں دستیاب کراتے ہیں۔ جتنے دن ہم چلا پائیں گے چلائیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ غریبوں کی زندگی بچ جائے، ان کوفیبی فلو مل جائے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘کچھ سو اسٹرپس اپنی جیب سے لےکر غریبوں کی مدد کی جائے تو کیا اسے جمع خوری کہتے ہیں؟ وہ  لوگ کہہ رہے ہیں جنہوں نے ریمڈیسور کو 30-40 ہزار روپے میں اور ایک بیڈ کو 5-10 لاکھ روپے میں بکنے دیا۔ آپ اپنی جیب سے غریبوں کی زندگی بچاتے ہیں تووہ اس پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔’

خبروں کے مطابق، گمبھیر کے اعلان کے بعد کئی لوگ اس دوا کو لینے ان کےدفتر پہنچے تھے۔

قانون کے مطابق جو گوتم گمبھیر نے کیا وہ غیرقانونی ہے

گوتم گمبھیرکے ذریعے دوائیاں تقسیم کرنے کو لےکر سب سے اہم سوال اس کا م کے قانونی جواز کا ہے۔ د ی وائر نے اس بارے میں ایمس دہلی کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرزایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر ہرجیت سنگھ بھٹی سے بات کی۔

ڈاکٹر بھٹی نے بتایا،‘سب سے پہلی بات تو یہ کہ بنا پرسکرپشن کے اگر وہ دوا لا رہے ہیں تو یہ بالکل غیر قانونی ہے۔ ان پر اس بات کو لےکر معاملہ درج ہو سکتا ہے۔ دوسری بات کہ اگر ان کے پاس پرسکرپشن ہے بھی تو رہنما کے پاس ایسا کوئی لائسنس نہیں ہے کہ وہ دوا جمع کرے یا اسے بانٹے۔ ڈرگ ڈسٹری بیوشن کا الگ لائسنس ہوتا ہے، فارما اپروول ہوتا ہے۔ ڈرگ بانٹنے کی بھی ڈگری ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی ڈگری ہونی چاہیے،لائسنس ہونا چاہیے تب آپ دوا بانٹ سکتے ہو۔ بھلے آپ رہنما ہوں، لیکن آپ اس طرح سے دوا اکٹھا کرکے اپنے گھر یا کہیں اور نہیں رکھ سکتے۔ یہ قابل قبول  ہی نہیں، پوری طرح غیرقانونی ہے یہ۔

انہوں نے آگے کہا، ‘آپ اگر بین الاقوامی قوانین کو مانیں تو کسی بھی کیٹیگری کی دوا ہو، بھلے ہی پیراسیٹامول ہو آپ بنا مہارت کے اسے بھی اس طرح جمع کرکے رکھ ہی نہیں سکتے۔آپ لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں، جیسے اسپتال تک آنے جانے میں، بیڈ آکسیجن وغیرہ دلانے میں مدد کر دیں،کہنے کا مقصودیہ ہے کہ آپ سپورٹو ٹریٹمنٹ دے سکتے ہیں لیکن ڈائریکٹ کسی کو دوا نہیں دے سکتے۔’

کیا اسے بلیک مارکیٹنگ کہا جا سکتا ہے، ڈاکٹربھٹی کہتے ہیں،‘نہیں۔ اسے کالابازاری نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس سے کوئی اقتصادی فائدہ نہیں لیا جا رہا ہے لیکن یہ قانوناًصحیح تو نہیں ہے۔ جہاں تک بات پروڈکشن کمپنی کا تقسیم کاروں یا اسپتالوں کو دوا نہ دےکر رہنماؤں کو دینے کا سوال ہے تو اسے ایک طرح سے بدعنوانی کی طرح مانا جا سکتا ہے کہ جہاں رہنماؤں نے اپنےعہدے اوراختیارات  کا غلط استعمال کر میڈیکل اور عام لوگوں تک پہنچنے والی دوا کو اپنے پاس جمع کروا لیا۔ اور ایسا کرنے کا نہ ان کے پاس لائسنس ہے، نہ ہی اتھارٹی، نہ ہی ان کی تعلیمی صلاحیت۔

گمبھیر کی وضاحت کو لےکر انہوں نے کہا، ‘اور بات سو اسٹرپ یا ایک گولی کی نہیں ہے، وہ گولی اپنے لیے رکھ سکتے ہیں لیکن دوسروں کو اس طرح دینا غیرقانونی ہی ہے۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایک عوامی نمائندہ ،جس نے آئین کی قسم کھائی ہو، اگر وہ آئین  پر عمل  نہیں کرےگا تو ہم عام لوگوں سے کیسے امید کر سکتے ہیں کہ وہ قاعدہ  قانون مانیں۔ وہ بھی مہاماری کے وقت میں۔ ایسے تو ہر شخص دوائیاں اکٹھا کرنا شروع کر دےگا۔ اس بات کا کسی طرح بچاؤ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ  ایک اچھے کرکٹر ہیں، میں انہیں ایک ذمہ دار شخص مانتا اگر وہ  کہتے کہ انہیں جانکاری نہیں تھی اس بارے میں لیکن ان کا اس طرح بچاؤ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔’