خبریں

میں نے مودی اور شاہ کو بتانے کی کوشش کی تھی کہ وہ  غلط راستے پر ہیں: ستیہ پال ملک

تین زرعی قوانین کے معاملے پر چل رہے کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں ہریانہ کی بی جی پی کی قیادت والی سرکار سے اپنی حمایت واپس لینے والے آزاد ایم ایل اے سوم بیر سانگوان نے ان قوانین  کے خلاف میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک کو خط لکھا تھا۔ اسی خط کا جواب دیتے ہوئے ملک نے ان کو لکھے ایک خط میں یہ باتیں کہی ہیں۔

میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کسان کے احتجاج کو لےکر ہریانہ کے ایک آزاد ایم ایل اے سوم بیر سانگوان کو لکھے گئے ایک خط میں میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا ہے کہ ، ‘میں نے وزیر اعظم  اور وزیر داخلہ کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ  غلط راستے پر ہیں اور کسانوں کو دبانے اور ڈرانے کی کوشش نہ کریں۔’

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،تین زرعی قوانین کے معاملے پرجاری  کسانوں کے احتجاج کی حمایت  میں بی جے پی حکومت سے اپنی  حمایت  واپس لینے والے سانگوان نے اسی سلسلے میں ملک کو خط لکھا تھا۔ملک نے جوابی خط لکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی وزیر اعظم  اور وزیر داخلہ  کو بتایا کہ کسان دہلی سے خالی ہاتھ واپس نہیں جانے چاہیے۔

گورنر نے ذکرکیا،‘میں نے کسانوں کے اس احتجاج  کے معاملے پر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ  سے ملاقات کی اور کسانوں کے ساتھ انصاف کرنے اور ان کے حقیقی مطالبات کو قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ میں نے بیٹھک میں یہ بھی صاف کیا ہے کہ کسانوں کے احتجاج  کو دبایا نہیں جا سکتا ہے۔مرکز کو اس کو حل کرتے ہوئے ان کے مطالبات کو قبول کرنا چاہیے۔ میں مستقبل میں بھی ایسی کوشش جاری رکھوں گا۔ اس کے لیے جو بھی ممکن ہوگا میں وہ کروں گا۔’

ملک نے آگے لکھا، ‘میں آپ کو اور آپ کے کھاپ کو یہ یقین  دلانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ میں مئی کے پہلے ہفتے میں دہلی آ رہا ہوں اور متعلق  تمام رہنماؤں سے مل کر کسانوں کے حق  میں عام رضامندی  بنانے کی کوشش کروں گا۔’

انہوں نے آگے لکھا، ‘مجھے آپ کا خط ملا ہے، جس میں آپ نے پارلیامنٹ کے ذریعے پاس تین زرعی قوانین کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔ملک  کے کسانوں نے ایک پرامن  طریقے سے ایک حیرت انگیز لڑائی لڑی ہے اور اس جدوجہد میں اپنے 300 ساتھیوں کو کھو دیا ہے۔ یہ باعث تشویش  ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی مرکزی حکومت  نے ایک بار بھی افسوس کا اظہار نہیں کیا ہے۔’

ملک نے لکھا، ‘اس طرح کا رویہ لائق  مذمت اور سفاکیت سے بھرا ہے۔ دوسری طرف سرکار کی جانب سے کسانوں کے ساتھ بات چیت کیے بنا تحریک کو توڑنے اور بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں تمام کسانوں کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ وہ سرکار کے جال میں نہ پڑیں اور اپنی ایکتا بنائے رکھیں۔ میں نے اس معاملے میں اپنی  سطح  پر بہت کوشش کی ہیں، جس میں آپ اور آپ کے کھاپ کو مجھ سے امیدیں ہیں۔’

بتا دیں کہ اس سے پہلے مارچ میں ملک نے آبائی ضلع اتر پردیش کے باغ پت میں اپنی استقبالیہ تقریب میں نئے زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے کسانوں کا ساتھ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس ملک  کا کسان اور جوان مطمئن نہ ہو، وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگرمرکزی حکومت ایم ایس پی کو قانونی منظوری  دے دیتی ہے، تو کسان مان جائیں گے۔

معلوم ہو کہ مظاہرہ کررہے کسانوں اور سرکار کے بیچ پچھلی بات چیت گزشتہ22 جنوری کو ہوئی تھی، لیکن تعطل برقرار تھا۔ 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پرکسانوں کے ذریعے نکالے گئے ٹریکٹر پریڈ کے دوران دہلی میں ہوئے تشدد کے بعد سے اب تک کوئی بات چیت نہیں ہو سکی ہے۔

مرکزی حکومت کے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ سال 26 نومبر سے دہلی چلو مارچ کے تحت کسانوں نے اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ پنجاب اور ہریانہ میں دو دنوں کی جدوجہد کے بعد کسانوں کو دہلی کی سعرحدمیں داخلے کی منظوری مل گئی تھی۔

مرکزی حکومت نے انہیں دہلی کے براڑی میدان میں احتجاج کرنےکی اجازت دی تھی، لیکن کسانوں نے اس میدان کو کھلی جیل بتاتے ہوئے یہاں آنے سے انکار کرتے ہوئے دہلی کی تینوں سرحدوں  سنگھو، ٹکری اور غازی پور بارڈر پر احتجاج  شروع کیا تھا، جو آج بھی جاری ہے۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں  کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)