خبریں

گزشتہ سال پارلیامانی کمیٹی اور حکام نے سرکار سے کہا تھا، آکسیجن کی پیداوار کو بڑھایا جائے

پارلیامنٹ کی صحت سےمتعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے گزشتہ سال نومبر میں اپنی رپورٹ میں یہ پیروی بھی کی تھی کہ نیشنل فارما سیوٹیکل پرائزنگ اتھارٹی کو آکسیجن سلینڈر کا قیمت طےکرنا چاہیے، تاکہ اس کی کفایتی شرح پر دستیابی  یقینی  ہو سکے۔ کمیٹی نے اسپتالوں میں بستروں کی تعداد بڑھانے کا بھی مشورہ  دیا تھا۔

(فوٹو:پی ٹی آئی)

(فوٹو:پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پارلیامنٹ کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی نے کورونا وائرس انفیکشن  کی دوسری لہر آنے سے کچھ مہینے پہلے ہی سرکار کومشورہ  دیا تھا کہ اسپتالوں میں بستروں کی تعداداور آکسیجن کی پیداوار بڑھائی جائے۔صحت سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے پچھلے سال نومبر میں اپنی رپورٹ میں یہ پیروی بھی کی تھی کہ نیشنل فارما سیوٹیکل پرائزنگ اتھارٹی کو آکسیجن سلینڈر کی قیمت کا تعین کرنا چاہیے، تاکہ اس کی کفایتی شرح  پر دستیابی یقینی ہو سکے۔

اس کمیٹی کے سربراہ  سماجوادی پارٹی کے سینئررہنما رام گوپال یادو ہیں اور اس میں بی جے پی  کے 16رکن شامل ہیں۔کمیٹی نے کہا تھا،‘کمیٹی سرکار سے یہ سفارش  کرتی ہے کہ آکسیجن کی خاطرخواہ پیداوارکی حوصلہ افزائی کرے، تاکہ اسپتالوں میں اس کی فراہمی یقینی  ہو سکے۔’

اس نے یہ بھی کہا ہے کہ کورونا کے معاملوں میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے ملک کے سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد کافی نہیں  ہے۔کمیٹی نے اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ اسپتالوں میں بستروں اور وینٹی لیٹر کی کمی کی وجہ سے اس وبا پر روک  لگانے کی کوشش  پر اثر پڑ رہا ہے۔

ہیلتھ سسٹم کی بدتر حالت کاذکر کرتے ہوئے کمیٹی نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ صحت کے شعبے میں سرمایہ  کاری کو بڑھایا جائے اور ملک  میں صحت کی خدمات کو ڈی سینٹر لائزکیا جائے۔

پارلیامانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ہیلتھ سکریٹری  راجیش بھوشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے (سکریٹری بتایا ہے کہ پہلے ہردن تقریباً1000ٹن میڈیکل آکسیجن کا استعمال ہوتا تھا اور باقی کے 6000ٹن آکسیجن کو صنعتوں میں لگایا جاتا ہے۔ اس لیے آکسیجن کی پیداوار بڑھانے اور اس کی قیمت کو کنٹرول  کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا،‘یہ کمیٹی بے حد سختی  سے نیشنل فارما سیوٹیکل پرائزنگ اتھارٹی کو یہ ہدایت  دیتی ہے کہ وہ آکسیجن سلینڈر کی  قیمتوں  کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری قدم اٹھائیں، تاکہ سب کو یہ آسانی سے دستیاب ہو سکے۔’

اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ سرکار آکسیجن کی پیداواری صلاحیت بڑھائے تاکہ اسپتالوں کی مانگ پوری کی جا سکے۔

اتنا ہی نہیں آکسیجن کی کمی کو لےکر پچھلے سال مہاماری کی شروعات میں ہی حکام  نے سرکار کو آگاہ کیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، کوروناانفیکشن  کو روکنے کے لیے بنے 11ایمپاورڈ گروپس میں سے ایک نے ایک اپریل 2020 کو ہوئی بیٹھک میں آکسیجن کی کمی کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی  اور کہا تھا کہ اس کے حل کے لیے انڈین گیس ایسوسی ایشن کے ساتھ کوآرڈنیٹ کیا جانا چاہیے۔

اس بیٹھک کی صدارت نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت نے کی تھی اور اس میں ہندوستان  کے چیف  سائنسی  صلاح کار کے وجئے راگھون، ڈپارٹمنٹ آف پرموشن آف انڈسٹری اینڈ انٹرنل ٹریڈ(ڈی پی آئی آئی ٹی)کےسکریٹری ، این ڈی ایم اے ممبر کمل کشور اور پی ایم او،وزارت داخلہ، وزارت خارجہ، کابینہ سکریٹریٹ سے درجنوں افسرشامل تھے۔

آکسیجن کی سپلائی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ڈی پی آئی آئی ٹی محکمہ کو دی گئی تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ جس وقت  یہ فیصلہ لیا گیا تھا اس وقت  ملک میں کورونا انفیکشن  کے محض 2000 معاملے تھے، جبکہ اس وقت  ہردن  تقریباً ساڑھے تین لاکھ معاملے آ رہے ہیں۔

حالانکہ سرکار کی جانب  سے مؤثر قدم نہیں اٹھائے جانے کی وجہ سے ملک  میں اس وقت آکسیجن کی شدید قلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔جب کوروناانفیکشن  کے معاملوں نے سارے ریکارڈ توڑ دیے، اس کے بعد پچھلے ہفتے سرکار نے صنعتوں  کو آکسیجن کی سپلائی 22 اپریل،2021 سے روکنے کا آرڈر جاری کیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)