فکر و نظر

کووڈ ٹیکہ کاری: حکومت ہند کی نظر میں عام آدمی کی زندگی کی اہمیت اتنی کم کیوں ہے

ٹیکہ کاری کواگر کامیاب ہونا ہے تو اسے مفت ہونا ہی ہوگا، یہ ہر ٹیکہ کاری مہم کا تجربہ ہے، توہندوستان  میں ہی کیوں لوگوں کو ٹیکے کے لیے پیسہ دینا پڑےگا؟ مہاماری کی روک تھام کے لیے ٹیکہ لائف سپورٹ  ہے، پھر حکومت ہند کے لیے ایک ٹیکس دہندہ  کی  زندگی  کی اہمیت  اتنی کم کیوں ہے کہ وہ اس کے لیے خرچ نہیں کرنا چاہتی؟

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

‘کووی شیلڈ اور کو ویکسین کو بنانے والوں سے بات کرنے پرمعلوم ہوا کہ وہ ہمیں 18 سال کے اوپر کے لوگوں کے لیے ٹیکہ نہیں دے پائیں گے۔ اس وجہ سے ہم 1 مئی سے سب کے لیےٹیکہ کاری شروع نہیں کر پائیں گے۔ ’مدھیہ  پردیش کے وزیراعلیٰ  نے 29 اپریل کی شام کو یہ بیان جاری کیا۔

گجرات کے وزیراعلیٰ  نے بھی بتایا کہ 18سال سے اوپر کے لوگوں کی ٹیکہ کاری شروع کرناممکن نہیں ہے کیونکہ ٹیکے کی سپلائی  نہیں ہے۔مہاراشٹر کے وزیرصحت نے بھی ٹیکے کی سپلائی  نہ ہونے کی حالت میں خودمختارٹیکہ کاری شروع  کرنے  میں عذر پیش کیا۔ انہیں سیرم انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ وہ صرف 3 لاکھ ٹیکہ  ہی دے پائےگا۔

اسی مجبوری کا اظہاردہلی کے وزیر صحت نے بھی کیا۔ کیرل کے وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ 1 مئی سے سب کے لیے ٹیکہ کاری شروع کرنا ممکن نہیں ہے۔ ترجیح ابھی بھی 45 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کرنے پر ہوگی اور ٹیکے کی سپلائی  ہوتے ہی سب کے ٹیکے کی مہم شروع کی جائےگی۔

پنجاب کے وزیر صحت نے کہا کہ دونوں ٹیکہ کمپنیوں نے ٹیکے کی قیمت صوبوں  کے لیے بہت زیادہ رکھ دی ہے اور وہ  اپنی مالی حالت  کا اندازہ  کر رہے ہیں۔اتر پردیش نے سرکاری طور پر صاف بیان نہیں دیا ہے لیکن انڈیا ٹو ڈے نے الگ الگ میڈیکل ڈپارٹمنٹ کے حکام  سے جو بات کی اس سے صاف ہوا کہ ٹیکے کی بلاتعطل فراہمی  کے چیلنج کا ذکر سب نے کیا۔

اتر پردیش میں چونکہ سرکاری طور پر کسی بھی کمی کی بات کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا ہے، حکام  کے ان بیانات کا مطلب یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ 18 سال سے زیادہ  کی آبادی کی ٹیکہ کاری آسان نہیں ہونے والی ہے۔صوبوں  کی تشویش اپنی جگہ، ہندوستان کے وزیرصحت نے ٹیکے کے لیے آن لائن رجسٹریشن کے پہلے دن ہی ریکارڈ تعداد کے رجسٹریشن  کیے جانے پر خوشی کا اظہار کیا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ رجسٹریشن کرنا تو ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن وہ ٹیکہ لگنے کی گارنٹی نہیں ہے۔وزیرصحت کی خوشی دیکھ کر آئی آئی ٹی کے انٹرنس اگزام کےپیچیدہ  فارم کو بھر دینے پر مجھے جو خوشی ہوئی تھی، اس کی یاد آئی۔فارم بھر لینے کے بعد لگا تھا مانو آئی آئی ٹی میں داخلہ ہی مل گیا ہو!ٹیکے کارجسٹریشن نمبر ملنے اور ٹیکہ لگنے میں کافی فاصلہ ہے۔ تب تک بہتوں کی سانس ٹوٹ جائےگی۔

دھیان دیجیے، جن صوبوں  نے ٹیکے کی سپلائی  ناکافی ہونے کی وجہ سے خودمختاری کے ساتھ ٹیکہ کاری کا کام شروع کرنے میں عذر پیش کیا ہے،وہ  اپوزیشن پارٹیوں کی مقتدرہ ریاستیں ہی نہیں ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی مقتدرہ صوبوں کی حالت  وہی ہے جو غیر بی جے پی  مقتدرہ صوبوں  کی۔ کئی معاملوں میں ان سے بری کیونکہ وہ اپنی کمی پر پردا بھی دال رہے ہیں۔ لیکن یہ ان کی نالائقی نہیں ہے۔

ہندوستان  کی دو ٹیکہ بنانے والی کمپنیوں  نے خود ہی مئی وسط کے پہلے تک ٹیکہ دستیاب کرانے میں عذر پیش کیا ہے۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کس بنیاد پر 1 مئی سے ٹیکہ کاری کا اعلان کر دیا گیا تھا؟کیا مرکزی حکومت کو ٹیکہ فراہمی کی ان دونوں کمپنیوں کی صلاحیت کی جانکاری نہیں تھی؟ کیا اسے نہیں معلوم تھا کہ کتنی تعداد میں ٹیکے کی ضرورت پڑےگی؟ اگر نہیں تو کیوں؟

کیا اس نے 1 مئی کی تاریخ کا اعلان بھی بنا ریاستی حکومتوں  سے چرچہ کیے کر دیا؟ بنا جانے کہ ان کے پاس ابھی ٹیکے کے اسٹاک  کی کیا حالت ہے؟

اس چرچہ کے پہلے ہم ایک بار پھر یہ یاد کر لیں کہ 18سال سے اوپر کی آبادی کی ٹیکہ کاری کی ذمہ داری لینے سے مرکز نے انکار کر دیا ہے۔ اس نے یہ ذمہ صوبوں  پر ڈال دیا ہے۔ اس پر چرچہ ہم بعد میں کریں گے۔ اس کے پہلے سمجھ لیں کہ ٹیکہ کاری میں ہندوستان  دوسرے ملکوں کے مقابلے کہاں ہے۔

اشوکا یونیورسٹی کے ‘سینٹر فار اکانومک ڈیٹا اینڈ اینالسس’ کے مطالعہ کےمطابق ہندوستان  نے 16 جنوری کو ٹیکہ  مہم شروع کی۔ تب سے اپریل کے آخری ہفتے تک ہندوستان  کی کل آبادی کے صرف 8.47فیصد لوگوں کو ٹیکہ لگ سکا تھا۔

اسے دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ اس کا بڑا حصہ وہ ہے جسے دو لازمی ٹیکوں میں سے صرف ایک ٹیکہ  لگ سکا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ 8.47فیصد کی اس خوش قسمت  آبادی کی ٹیکہ کاری بھی مکمل نہیں ہے۔ جب تک دوسرا ٹیکہ نہیں لگ جاتا آپ غیرمحفوظ  ہیں۔

جن کو دوسرا ٹیکہ لگنا ہے ان کے لیے کیا ٹیکہ  دستیاب ہے؟ کل ایک نوجوان دوست نے بتایا کہ کس طرح وہ  اپنےبزرگ والدین کو لےکر مارے مارے پھرتے رہے اور دوسرے دن ایک جگہ انہیں کسی طرح ٹیکہ ملا۔ اس بیچ کڑی دھوپ اور تھکان سے ہی وہ ادھ مرے ہو چکے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلےمرحلے میں جنہیں مرکز کے حصہ سے ٹیکہ ملنا تھا،ان کے لیے بھی ہر ٹیکہ  مرکز پر ٹیکہ نہیں ہے۔ یہ تو صوبوں کی کوتاہی نہیں ہے۔ مرکز ہی انہیں ٹیکے کی سپلائی  نہیں کر سکا ہے۔

جس مدت میں حکومت ہند اپنی عوام کے محض8.47 فیصدکی  ادھوری ٹیکہ کاری کر سکی تھی، اسی مدت میں امریکہ نے 25فیصد آبادی کو ٹیکہ لگوا دیا تھا۔ انگلینڈ نے اس وقت  تک 41فیصد آبادی  کو ٹیکہ لگوا دیا تھا۔ پھر ٹیکہ کاری شروع  ہونے کے 3 مہینے بعد بھی ہندوستان  کی یہ حالت کیوں ہے؟

حکام  کے مطابق شروعات میں جان بوجھ کر رفتار دھیمی رکھی گئی تھی کیونکہ اس کے سسٹم کی جانچ کی ضرورت سمجھی گئی۔ لیکن یہ رفتار آج بھی دھیمی کیوں ہے؟

اس کی ایک بڑی وجہ ٹیکے کی کم فراہمی  ہے۔ لگ بھگ ہر طرف سے ٹیکہ مراکز میں ٹیکہ کاری ملتوی  کرنے کی خبر آنے لگی کیوں ٹیکے ختم ہو گئے تھے۔ مرکزی وزیروں  نے پھراپوزیشن  پر سازش کا الزام  لگایا۔ لیکن صاف ہو گیا کہ فراہمی نہیں ہے۔آخر کیا ہوا؟

اب یہ صاف ہو چکا ہے کہ اس کے لیےحکومت ہندکی انانیت والی ٹیکہ  پالیسی  ہی ذمہ دار ہے۔ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ہندوستان  کی ساری آبادی کو ٹیکہ  لگانے کی صلاحیت ہمارے پاس ہے۔بھارت بایوٹیک اور سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا پرائیویٹ لمٹیڈ کو ہی ٹیکہ  بنانے کی اجازت دی گئی۔ لیکن دونوں کو ہی ٹیکہ بنانے کے لیے ضروری مالی ا مداد سرکار نے نہیں کی۔

ان کا الزام  ہے کہ ان سے کافی کم قیمت پر خریداری  کی گئی۔ مرکزی حکومت کو وہ 150 روپے پر ایک ٹیکہ دے رہی تھیں۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ کے مالک نے باربار قبول کیا کہ اس شرح پر بھی انہیں منافع ہو رہا تھا۔ مطلب وہ گھاٹے کا سودا نہیں کر رہے تھے اور نہ ہندوستان کی عوام پر کوئی رحم کر رہے تھے۔

لیکن ساتھ ہی انہوں نے ‘زیادہ منافع’نہ کما پانے پر افسوس کا اظہار کیا اور اس کی خواہش کا اظہار کیا۔ لگتا ہے سرکار نے اسی وجہ سے ٹیکے کی تین طرح کی قیمت طے کی۔ 150 روپے مرکز کے لیے،450 روپے صوبے کے لیے اور 600 روپے نجی اسپتالوں کے لیے؟

بایوٹیک نے اپنی شرح اس سے بھی زیادہ رکھی ہے، لیکن یہ تصویر تب اور صاف ہو جاتی ہے جب ہم سیرم انسٹی ٹیوٹ کے مالک ادار پوناوالا کا یہ بیان پڑھتے ہیں کہ مرکز سے ان کا قرار مجموعی تعداد کا 50فیصد ہی مرکز کو دینے کا ہے۔باقی  50فیصد میں صوبوں کو نجی سیکٹر سے مقابلہ کرنا پڑےگا۔

یعنی اگر نجی اسپتالوں نے زیادہ قیمت دےکر ٹیکہ لے لیا تو صوبوں  کو نہیں بھی مل سکتا ہے۔ پوناوالا نے جذبات  سےعاری ہوکر کہا کہ لوگ پرائیویٹ سیکٹر میں ٹیکہ لگوا لیں!اٹھارہ  سال سے اوپر کی ٹیکہ کاری کی ذمہ داری صوبوں  کی ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ انہیں اپنے پہلے سے ہی محدود فنڈمیں سے ٹیکے کے لیےمرکز کے مقابلے زیادہ خرچ کرنا پڑےگا؟

کیا صوبے ہندوستان  کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا 18 سال  سے 45 سال  کے بیچ کے لوگ ہندوستان  کے یکساں شہری نہیں ہیں؟ پھر انہیں اسی ٹیکے کے لیےزیادہ قیمت کیوں دینی پڑے؟ ان کے ساتھ یہ غیر برابری کیوں؟ امتیاز یہیں تک نہیں ہے۔

مرکز اور صوبے کے بیچ غیر برابری کے علاوہ صوبے اورصوبے میں امتیاز کیا جا رہا ہے۔زیادہ  آبادی والے مہاراشٹر کو مرکزی حکومت  نے سب سے کم ٹیکے کی فراہمی  کی اور گجرات کو سب سے زیادہ۔سب سے کم فراہمی  والے صوبوں  میں کیرل کے ساتھ دہلی بھی شامل ہے۔ کیا اس کی وجہ سیاسی نہیں ہے؟ کیا یہ ماضی  میں قدرتی آفات کے وقت راحت دینے کے معاملے میں اس پر جو امتیاز کا الزام  لگا تھا، اسی کی کڑی میں ہے؟

لیکن یہ دوسرے صبوں  کے لیے بھی مہلک ہے۔ممبئی ہو یا کیرل یا دہلی،انفیکشن اورمتاثر لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہیں گے۔ انفیکشن کے پھیلنے کی گنجائش اس پالیسی  کی وجہ سے بنی رہےگی۔ تو انفیکشن  کا خطرہ اس صوبے کے لیے بھی بنا رہےگا، جس پر مرکزی حکومت  نے دریا دلی دکھائی  ہے۔

اس ٹیکہ پالیسی  کی پوری دنیا میں مذمت ہوئی ہے۔ امریکہ ہو یا یورپ اور کوئی ملک، ہر جگہ مفت ٹیکہ لگ رہا ہے۔ ٹیکہ کاری کواگر کامیاب ہونا ہے تو اسے مفت ہونا ہی ہوگا، یہ ہر ٹیکہ کاری مہم  کا تجربہ ہے۔ پھر ہندوستان  میں ہی کیوں لوگوں کو ٹیکے کے لیے پیسہ دینا پڑےگا؟

دھیان رہے مہاماری کی روک تھام کے لیے اور عوام کے لیے ابھی یہ ٹیکہ ہی محافظ ہے۔ پھر ایک ٹیکس دہندہ  کی زندگی کی  حکومت ہند کے لیے اہمیت اتنی کم کیوں ہے کہ وہ اس لازمی لائف سپورٹ کے لیے اس پر خرچ نہیں کرنا چاہتی؟

سرکار باربار یہ کہہ رہی ہے کہ اس قہر کا اندازہ  ہم نے نہیں کیا تھا۔ کیوں؟ ملک اور بیرون ملک کے ماہرین  فروری کے پہلے سے کہہ رہے تھے کہ اگر انفیکشن  کو کنٹرول کرنا ہے تو ٹیکہ  ہی اب تک کی سب سےمفید تدبیر ہے۔ پھر مرکزی حکومت نے صرف دو ٹیکہ کمپنیوں پر ہی بھروسہ کیوں کیا؟

اس پر ٹیکہ بنانے کے پہلے ہی دور میں اس نے واہ واہی  بٹورنے کے لیے تقریباً 6.5 کروڑ ٹیکے ہندوستان  سے باہر کیوں بھیج دیے؟ راہل گاندھی نے، جن کا مذاق اڑانے کا حق  ہر ہندوستانی  کو ہے، بہت پہلے سرکار کو کہا تھا کہ یہ دو کمپنیاں ساری ضرورت پورا نہیں کر پائیں گی۔

اس وقت مرکزی حکومت نے راہل گاندھی پر حملہ کیا اور الزام  لگایا کہ وہ  ملکی  کمپنیوں کو سہرا نہیں دے رہے بلکہ غیر ملکی کمپنیوں کی دلالی کر رہے ہیں۔ لیکن راہل گاندھی پر یہ فحش حملہ کرنے کے ہفتے بھر بعد ہی مرکزی حکومت  کو باہر کی ٹیکہ کمپنیوں کو اجازت دینی پڑی۔

لیکن دیر ہو چکی ہے۔ ان سب کے پاس پہلے سے ہی دوسرے ممالک سے مانگ آ چکی ہے۔ ہندوستان  کی مانگ ان سب کے بعد ہی پوری ہوگی۔

کیا یہ راشٹروادی گھمنڈ تھا جس کی وجہ سےحکومت ہند نے عوام  کی زندگی  کو پیچھے کر دیا؟ یا اس کا نکماپن اور بے پرواہی؟ پھر ملک میں ہی دوسری دوا کمپنیوں کو ٹیکے کا وہ فارمولا کیوں نہیں دیا گیا جو ہندوستان کی عوام  کے پیسے سے بھارت بایوٹیک نے بنایا ہے؟

مقصود یہ کہ مرکزی حکومت نےہندوستان  کے لوگوں کی زندگی  خطرے میں ڈال دی ہے۔ ابھی میں جب لکھ رہا ہوں، سپریم کورٹ  میں کووڈ پر سرکاری انتظام پر شنوائی چل رہی ہے۔ جج سرکار کی تنبیہ کر رہے ہیں کہ وہ ٹیکے کی قیمت طے کرنے کی چھوٹ ٹیکہ  کمپنیوں کو دے ہی کیسے سکتی ہے!وہ پوچھ رہے ہیں کہ منافع کی فکر کرنےوالی کمپنیاں آخر کیوں کر برابری کی فکر کریں گی؟

عدالت پوچھ رہی ہے کہ کیوں نہیں قومی ٹیکہ کاری پالیسی  اپنائی جا رہی۔ کیوں دوا کا لائسنس  اس وبا کو دیکھتے ہوئے سرکار کے پاس ہے؟ کیوں وہ منافع  کا ذریعہ ہے؟جب ہندوستان  دوسرے ممالک سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ  ٹیکہ  بنانے میں لگی اکیڈمک صلاحیت کو شیئر کریں تو اپنے ہی ملک میں وہ صرف دو کمپنیوں کے حق میں کیوں؟

ٹیکے کی قیمت کی وجہ خاص کر ایس سی ایس ٹی  اور دوسرے بے سہارا لوگ کیسے ٹیکا لیں گے؟ کیا یہ ان کی زندگی  کےحق  کی خلاف ورزی  نہیں؟ عوامی مفاد اوربرابری  کی یاد عوام  کے ذریعے چنی گئی سرکار کو عدالت دلائے، اس سے بڑے بحران  کی گھڑی کیا ہو سکتی ہے۔

پوناوالا نے ہندوستان  کی عوام پر ‘رحم’ دکھلاتے ہوئے صوبوں  کے لیے قیمت گھٹاکر 300 روپے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مہربانی کے بدلے مرکزی حکومت  نے انہیں وائی زمرے کی سکیورٹی دینے کا اعلان کیا!کورونا مہاماری کے اس دور میں ہندوستان  کے لوگوں کی زندگی کے لیے جو بے توجہی یا لاپرواہی حکومت نے دکھلائی ہے جس میں اس کے وزیر صحت، وزیر داخلہ  اور وزیر اعظم  شامل ہیں، اس کو مجرمانہ  ہی کہا جا سکتا ہے۔

اس جرم  کے لیے اس پر مقدمہ چلے، یہ شاید کوئی عدالت ہی کہہ سکتی ہے، ہندوستان کا شہری یہ کہنے پر ویسے ہی غیرمحفوظ  ہو جائےگا جیسے وہ کورونا وائرس کے سامنے ہے بلکہ کہیں اس سے زیادہ!

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)