خبریں

یوپی: ’تڑپ رہے مریضوں کو آکسیجن دینا جرم  کیسے ہوگیا‘

گزشتہ 29 اپریل کو جون پور کے ضلع اسپتال کے باہر ایک ایمبولینس آپریٹر نے آکسیجن اور بیڈ نہ پا سکے کئی مریضوں کو ایمبولینس کے سلینڈر سے آکسیجن دی تھی۔ ضلع اسپتال کے چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی طرف سےمینجمنٹ اور انتظامیہ  کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور مریضوں کو غلط ڈھنگ سے آکسیجن دینے جیسے الزامات کے بعد ان پر معاملہ درج کیا گیا ہے۔

ایک مریض کے ساتھ وکی۔ (لال قمیص میں،فوٹوبہ شکریہ: ویڈیوگریب)

ایک مریض کے ساتھ وکی۔ (لال قمیص میں،فوٹوبہ شکریہ: ویڈیوگریب)

‘میں ضلع اسپتال جون پور کے باہر آکسیجن کے فقدان  میں مریضوں کو تڑپتا ہوا دیکھ نہیں پایا۔ میں نے اپنی ایمبولینس کا جمبو سلینڈر باہر نکال کر مریضوں کو باری باری تب تک آکسیجن دی، جب تک وہ  ضلع  اسپتال یا کسی نجی اسپتال میں بھرتی نہیں ہو گئے۔ میرے اسی کام پر پولیس نے کیس درج کر لیا ہے اور میں گرفتاری سے بچنے کے لیے بھاگا پھر رہا ہوں۔ میں اس واقعہ سے ہدس گیا ہوں، دو دن مجھ سے کھایا نہیں گیا ہے۔ یہی سوچتا ہوں کہ تڑپ رہے مریضوں کو آکسیجن دینا کیسے جرم  ہو گیا؟’

یہ کہنا ہے جون پور کے ایمبولینس آپریٹر وکی اگرہری کا۔ ضلع اسپتال کے چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ(سی ایم ایس)نے وکی اگرہری کے خلاف غلط ڈھنگ سے مریضوں کو آکسیجن دینے، آکسیجن دینے کے کام کو مشتہرکرنے، مینجمنٹ اور انتظامیہ کے خلاف پروپیگنڈہ  کرنے، کوروناانفیکشن  پھیلانے کا الزام  لگاتے ہوئے جون پور کوتوالی پولیس کو تحریر دی۔

جون پور پولیس نے وکی اگرہری کے خلاف آئی پی سی 1860 کی دفعہ ا 188، 269 اور مہاماری ایکٹ1891 کی دفعہ 3 کے تحت کیس درج کیا ہے۔ کیس درج کرنے کے فوراً بعد جون پور کوتوالی پولیس نے وکی کے گھر چھاپہ مارا۔ ان کے نہ ملنے پر پولیس ان کے بڑے بھائی درگیش اگرہری کے گھر پہنچ گئی اور انہیں پکڑ لیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی ایمبولینس میں لگے دو جمبو سلینڈر بھی ضبط کر لیے، حالانکہ اس کارروائی کی مذمت کے بعد دو گھنٹے بعد ہی پولیس نے وکی کے بھائی کو چھوڑ دیا اور آکسیجن سلینڈر بھی واپس کر دیا۔

بتادیں کہ 37سالہ وکی جون پور کے چوکیا میر پور محلے میں اپنے والدین، چھوٹے بھائی، بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ سال  2004 سے ایمبولینس چلاکر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس وقت  ان کے پاس دو ایمبولینس ہے۔

وکی اگرہری نے بتایا،‘میں 29 اپریل کی دوپہر ضلع اسپتال کے باہر اپنے ایمبولینس کے ساتھ موجود تھا، تبھی میں نے 16-17 سال کے لڑکے کو وہاں دیکھا جس کا دم پھول رہا تھا۔ لڑکے کو لےکر آئے لوگ رو رہے تھے۔ اسپتال میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ لوگ باہر بیٹھے تھے۔لڑکا کہہ رہا تھا کہ اسے سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔ مجھ سے یہ سب دیکھا نہیں گیا اور میں نے ایمبولینس سے جمبو سلینڈر نکال کر لڑکےکو آکسیجن دے دیا۔’

انہوں نے بتایا کہ تب ضلع  اسپتال کے باہر بہت سے مریض تھے اور سب کی حالت خراب تھی اور وہ لوگ آکسیجن کی مانگ کر رہے تھے۔ ضلع اسپتال کے سبھی بیڈ بھرے ہوئے تھے۔ اس لیے انہیں بھرتی نہیں کیا جا رہا تھا۔

وکی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے دو ایمبولینس کے جمبو سلینڈر کو باہر نکال لیا اور جتنا ممکن ہو سکا، مریضوں کو آکسیجن دینے کی کوشش کی۔ وہ قریب چار بجے تک اس کام میں مصروف رہے۔

ایک مریض کے ساتھ وکی۔ (لال قمیص میں) (فوٹو: Special Arrangement)

ایک مریض کے ساتھ وکی۔ (لال قمیص میں) (فوٹو: Special Arrangement)

اس دوران ایک درجن سے زیادہ مریضوں کو انہوں نے آکسیجن دیا۔ بعد میں کچھ مریضوں کو ضلع اسپتال میں بھرتی مل گئی۔ کچھ پرائیویٹ میں چلے گئے۔ وکی کے مطابق، اگلے دن 30 اپریل کی دوپہر ان کے پاس جون پور کوتوالی سے فون آیا کہ ان کے خلاف کیس درج ہو گیا ہے۔ وہ کوتوالی آئے۔ یہ سن کر وہ ڈر گئے اور اپنے گھر سے ہٹ گئے۔ آدھے گھنٹے کے اندر پولیس ان کے گھر پہنچ گئی۔

انہوں نے بتایا،‘پولیس گھر کے اندر گھسنے لگی لیکن میری ماں نے مخالفت کی اور کہا کہ صرف خاتون  پولیس ہی گھر کے اندر آ سکتی ہے۔ پولیس اس کے بعد ان کے ایمبولینس کے دو جمبو سلینڈر اٹھا لے گئی۔ کچھ دیر بعد انہیں خبر ملی کہ میرے بڑے بھائی کو پولیس نے پکڑ لیا ہے۔’

دو گھنٹے بعد پولیس نے ان کے بھائی کو چھوڑا، ساتھ ہی سلینڈر بھی دیا۔ وکی کا ماننا ہے کہ یہ سب میڈیا کے دباؤ سے ہوا۔

وکی نے کہا،‘میڈیا نے میرے کام کو اچھا مانا اور اسے حمایت دی۔ میڈیا کی حمایت کی وجہ سے ہی میں اب تک محفوظ  ہوں، نہیں تو پولیس اور انتظامیہ نے اتنا دباؤ بنایا ہے کہ میں بری طرح گھبرا گیا۔’

ضلع  اسپتال کے سی ایم ایس نے جون پور کوتوالی پولیس کو دی گئی تحریر میں وکی و دیگر لوگوں پر غلط ڈھنگ سے مریضوں کو آکسیجن دینے، آکسیجن دینے کے کام کومشتہر کرنے، مینجمنٹ اور انتظامیہ  کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے، کوروناانفیکشن پھیلانے کاالزام  لگایا ہے۔ اس تحریر میں وکی کو صحافی  بتایا گیا ہے اور ان کا نام وکی پترکار لکھا گیا ہے۔

تحریر میں کہا گیا ہے کہ ‘وکی پترکار اوردیگر لوگ 29 اپریل کو دوپہر 1.15 بجے ضلع  اسپتال کے پرچہ کاؤنٹر کے پاس سانس پھولنے والے مریضوں کو پرائیویٹ آکسیجن گیس سلینڈر کے ذریعے آکسیجن دے رہے تھے اور اس کا ویڈیو بنا رہے تھے اور لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ دیکھو ہم مریضوں کو بچانے کا انتظام  کر رہے ہیں اور مینجمنٹ اور انتظامیہ کی جانب سے بیڈ بڑھاکر انتظام نہیں کیا جا رہا ہے۔’

آگے لکھا ہے، ‘ان لوگوں کو مریضوں کو او پی ڈی میں لاکر بھرتی کرنا چاہیے تھا۔ معاملے کے نوٹس میں آتے ہی مریضوں کو فوراً بھرتی کرایا گیا۔ یہ لوگ اس طرح کووڈ انفیکشن مہاماری میں غلط ڈھنگ سے مریضوں کو آکسیجن لگاکر پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اپنی  تشہیر کر رہے تھے اورکورونا انفیکشن پھیلانے میں مدد کر رہے تھے۔ ان کے پاس سینٹائزیشن کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ کورونا انفیکشن  مہاماری میں غلط ڈھنگ سے مریضوں کا علاج کرنےاورانفیکشن  پھیلانے کے کام  میں ملوث  ہیں۔’

وکی اگرہری نے دی وائر کو بتایا کہ وہ  فیس بک پر ضرور ہیں لیکن انہوں نے مریضوں کو آکسیجن دینے کی تصویریاو ویڈیو نشر نہیں کیا۔ میڈیا نے خبر چھاپی۔ آکسیجن دینے کے بدلے مریض کے اہل خانہ انہیں پیسے دے رہے تھے لیکن انہوں نے کسی سے پیسے نہیں لیے۔

وکی کا کہنا تھا، ‘میں نے ان سے کہا کہ جب تک مریض اسپتال میں بھرتی نہیں ہو جاتا، میں آکسیجن دوں گا اور کوئی پیسہ نہیں لوں گا۔ مجھے اس مہاماری میں پیسہ نہیں بنانا ہے، ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنی ہے۔ میں نے پچھلے سال بھی کورونا مہاماری کے دوران لنگر چلاکر لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔’

وکی جون پور پولیس کے ذریعے معاملہ درج کیے جانے سے بےحدرنجیدہ  ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ‘میں نے تڑپتے ہوئے لوگوں کی مدد کی تو انتظامیہ مجھ پر لاک ڈاؤن کے ضابطوں  کو نہ ماننے، سوشل ڈسٹیسنگ نہ کرنے کا الزام  لگا رہا ہے۔ کیا ہم آکسیجن رکھتے ہوئے بھی مریضوں کو تڑپ کر مر جانے دیتے؟’

وہ آگے جوڑتے ہیں،‘مجھے جیل جانے کا ڈر نہیں، پر ٹارچر کیے جانے کا ڈر ہے۔ مجھے جیل بھیج دیں، پر جیل سے چھوٹ کر آیا اور پھر ایسی حالت دکھی تو میں پھر مدد کروں گا۔’

(منوج سنگھ گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)