فکر و نظر

نریندر مودی ملک  کے وزیر اعظم ہونے کا اخلاقی حق کھو چکے ہیں…

کووڈ مہاماری کے اس شدید بحرانی دورمیں وزیر اعظم نریندر مودی جوابدہی  کا یہی ایک کام کر سکتے ہیں کہ وہ  اپنی کرسی چھوڑ دیں۔

نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

ہمیں سرکار کی ضرورت ہے۔ بہت بری طرح سے۔ جو ہمارے پاس ہے نہیں۔ سانس ہمارے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ ہم مر رہے ہیں۔ ہمارے پاس یہ جاننے کا بھی کوئی سسٹم نہیں ہے کہ جو مدد مل بھی رہی ہے، اس کا استعمال کیسے ہو پائےگا۔

کیا کیا جا سکتا ہے؟ ابھی، فوراً؟

ہم2024 آنے کا انتظار نہیں کر سکتے ہیں۔ میرے جیسے انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی کوئی دن آئےگا جب ہمیں وزیر اعظم سے کسی بھی چیز کے لیے منت کرنی ہوگی۔

ذاتی  طور پر میں ان سے کچھ بھی مانگنے سے پہلے جیل جانا پسند کرتی۔ لیکن آج، جب ہم اپنے گھروں میں، سڑکوں پر، اسپتالوں میں، کھڑی کاروں میں، بڑے مہانگروں میں، چھوٹے شہروں میں، گاؤں میں، جنگلوں اور کھیتوں میں مر رہے ہیں میں ایک عام شہری  کے طور پر، اپنے عزت نفس  کوطاق پر رکھ کر کروڑوں لوگوں کے ساتھ مل کر کہہ رہی ہوں، جناب! برائے مہربانی ، آپ کرسی  چھوڑ دیجیے۔ اب تو کم سے کم کرسی سے اتر جائیے۔

اس وقت میں آپ سے ہاتھ جوڑتی ہوں، آپ کرسی سے ہٹ جائیے۔ یہ بحران آپ کی ہی دین ہے۔ آپ اس کا حل نہیں نکال سکتے ۔ آپ اسے صرف بد سے بدتر کرتے جا رہے ہیں۔

یہ وائرس خوف  اورنفرت اورجہالت  اور کے ماحول میں پھلتا پھولتا ہے۔ یہ اس وقت پھلتا پھولتا ہے جب آپ بولنے والوں کو ہراساں  کرتے ہیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب آپ میڈیا کو اس طرح بین کر دیتے ہیں کہ اصل سچائی صرف بین الاقوامی  میڈیا میں ہی بتائی جاتی ہے۔

یہ تب ہوتا ہے جب آپ کا وزیر اعظم اپنی مدت کارکے دوران ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کرتا ہے، اس خوفناک لمحے میں بھی جو کسی بھی سوال کا جواب دینے میں اہل  نہیں ہے۔اگر آپ اپنےعہدےسے نہیں ہٹتے ہیں تو، ہم میں سے لاکھوں لوگ بنا کسی وجہ کے مارے جائیں گے۔ اس لیے اب آپ جائیے۔ جھولا اٹھا کے۔ اپنے وقار کو محفوظ  رکھتے ہوئے۔

تنہائی میں آپ اپنی آگے کی زندگی سکون سے جی سکتے ہیں۔ آپ نے خود کہا تھا کہ آپ ایسی ہی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اسی طرح مرتے رہے، تو ویسا ممکن نہیں ہو سکےگا۔آپ کی پارٹی میں ہی کئی ایسے لوگ ہیں جو اب آپ کی جگہ لے سکتے ہیں۔ وہ لوگ بحران  کی اس گھڑی میں سیاسی مخالفین سے مدد لینا جانتے ہیں۔

آر ایس ایس کی رضامندی سے، آپ کی پارٹی کا وہ شخص  سرکار کی قیادت کر سکتا ہے اور کرائسس مینجمنٹ کمیٹی  کاسربراہ  ہو سکتا ہے۔ صوبے کےوزرائے اعلیٰ تمام  پارٹیوں سے کچھ لوگوں کو چن سکتے ہیں جس سے کہ دوسری پارٹیوں کو لگے کہ ان کےنمائندے بھی اس میں شامل ہیں۔

قومی پارٹی ہونے کی وجہ سے کانگریس پارٹی کو اس کمیٹی میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اس میں سائنسدانوں، عوامی صحت  کے ماہرین، ڈاکٹرز اور تجربہ کارنوکرشاہ بھی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ سمجھ میں نہ آئے، لیکن اس کو ہی جمہوریت کہتے ہیں۔

آپ اپوزیشن سےپاک جمہوریت کا تصورنہیں کر سکتے ہیں۔ وہی آمریت  ہے۔ اس وائرس  کو آمریت  بھاتی بھی ہے۔ابھی اگرآپ ایسا نہیں کرتے ہیں، کیونکہ اس قہرکو تیزی سے ایک بین الاقوامی مسئلے کے طور پردیکھا جانے لگا ہے جو پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔

آپ کی نااہلی  دوسرے ممالک  کو ہمارے انٹرنل معاملے میں دخل اندازی  کرنے کا جوازدے رہی ہے کہ وہ کوشش کرکے اور معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔ یہ ہماری خودمختاریت کے لیے لڑی گئی سخت  لڑائی سے سمجھوتہ  ہوگا۔

ہم ایک بار پھر سے کالونی  بن جائیں گے۔ اس کا شدید امکان ہے۔ اس کی خلاف ورزی  بالکل نہ کریں۔

اس لیے برائے مہربانی  آپ کرسی  چھوڑ دیجیے۔ جوابدہی  کا یہی ایک کام آپ کر سکتے ہیں۔ آپ ہمارے وزیر اعظم ہونے کا اخلاقی حق کھو چکے ہیں۔