فکر و نظر

کووڈ: کیا کسی ملک کا حکمراں اس قدر بے حس، بے مروت اور بے اعتناء ہو سکتا ہے؟

کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد گھر سے16 کیلومیٹر صفدرجنگ اسپتال میں ایک ڈاکٹر میری ساس کا معائنہ کرنے پر راضی ہوگیا۔ مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ شاید میری ساس کو  ہماری بھاگ دوڑ، کسمپرسی اور لاچاری دیکھی نہیں گئی۔ کب اس نے گاڑی میں ہی دم توڑ دیا تھا، ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکا۔ ڈاکٹر نے بس نبض دیکھ کر بتا یا کہ ان کو اب کسی علاج اور آکسیجن کی ضرورت نہیں ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

سنا ہے کہ ہندوستانی  دارالحکومت نئی دہلی ایک ایسا شہر ہے جو آٹھ بار اجڑا ہے۔ یہ شہر تیمور لنگ، نادر شاہ اور برطانوی افواج کی غارت گری  جھیل چکا ہے۔ 1984میں تو اس شہر کے شہریوں کے خون سے سڑکیں لال ہو گئی تھیں۔

مجھے خواب و خیال میں بھی کبھی ایسا اندیشہ نہ تھا کہ میں خود اس شہر کو ویران ہوتے ہوئے اور اس کے شہریوں کو بے بسی کی موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھوں گی ۔ تاریخ کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ 1665میں جب لندن کو طاعون کی وباء نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، تو رات کی تاریکی میں ایک گاڑی بان نمودار ہوتا تھا، جو گلی گلی گھوم کر آواز یں لگاتا تھا، ”اپنے گھروں کے مردے باہر نکالو”۔

اس کچرا نما گاڑی میں مردوں کو ٹھونس کر ان کے رشتہ دار اپنے پیاروں کو آخری سفر کے لیے رخصت کرتے تھے۔

میں دہلی کے جس رہائشی علاقے میں رہتی ہوں، پچھلے دس روز سے صبح و شام کسی نہ کسی فلیٹ یا بلڈنگ سے رونے دھونے کی آوازیں آنا تو تو معمول بن گیا ہے۔ ابھی یہ آوازیں تھمتی نہیں کہ کسی دوسرے فلیٹ سے ماتم کی آوازیں کلیجہ شق کر دیتی ہیں۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آپ تعزیت پرسی اور ان کے غم میں شریک ہونے بھی نہیں جاسکتے ہیں۔ کیونکہ افراد خانہ اکثر قرنطینہ میں ہوتے ہیں۔ سچ کہوں، صبح بیدار ہوتے ہی، میں پہلے اپنے آپ کو پھر شوہر اور بیٹے کو جھنجوڑ کر خود کو یقین دلاتی ہوں، کہ ہم سب ابھی سانس لے رہے ہیں اور پھر اوپر والے کا شکر ادا کرتی ہوں۔ یہ بلاگ میں انتہائی غمزدہ دل کے ساتھ تحریر کر رہی ہوں اور اس کو لکھتے ہوئے میں کئی بار رو پڑی ہوں۔

میں پچھلے ایک ہفتہ سے زندگی کی کشتی کو کورونا وائرس کے خوفناک بھنور سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہوں، جب سے میرے گھر پر اس وباء نے دستک دی۔ گزشتہ جمعرات کو میری ساس نے شکایت کی کہ وہ کئی روز سے ہلکے بخار میں مبتلا ہے۔ کورونا  کا ٹیسٹ کرایا۔ جانچ کی رپورٹ منفی تھی۔ لہذا تشخیص ہوئی کہ یہ معمولی بخار ہے۔ تاہم رات کے آٹھ بجے کے قریب ان کو سانس لینے میں تکلیف ہونا شروع ہوگئی۔

معلوم ہوا کہ  ان کے جسم میں آکسیجن کی سیچوریشن کا معیار54 تک گر گیا تھا۔ اگر یہ معیار 90 سے کم پہنچ جائے تو جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ایمبولینس کسی اسپتال سے منگوانا کارے دارد والا معاملہ تھا۔ اسی لیے وقت ضائع کیے بغیر ہم ان کو اپنی گاڑی میں لٹا کر اسپتال کی طرف روانہ ہوگئے۔

اسپتال میں ڈاکٹر تو دور کی بات، کوئی مدد گار بھی موجود نہیں تھا۔ ہم نے ایک اسٹریچر تلاش کرکے مریض کو لٹا کر ایمرجنسی کا راستہ تلاش کرنا شروع کردیا۔ کوئی ڈاکٹر ان کے پاس آکر معائنہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسپتال میں بیڈ نہ آکسیجن کا انتظا م تھا۔ایک ہجوم مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہا تھا۔

دہلی میں میرے پچھلے 15سال جرنلزم اور قومی میڈیا میں کام کرنے اور لاتعداد تعلقات کے باوجود کوئی مدد کرنے نہیں آیا۔ بے بسی اور لاچارگی کی حالت میں ہم نے ان کو دوبارہ اپنی کار میں لٹا کر دوسرے اسپتال کا رخ کیا۔ لیکن یہاں بھی وہی منظر تھا۔ وہاں تو گیٹ بھی نہیں کھولا گیا۔ ساس کا سر میری گود تھا او روہ سانس لینے کے لیےبری طرح ہانپ رہی تھی۔

میں بار بار ان کے سینے کو مسل کر ان کو سانس لینے میں مدددینے  کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر یہ کوششیں کتنی بار آور ہوسکتی تھیں۔ وہ اس دوران بے ہوش ہوگئی۔  اب ہم تیسرے اور پھر چوتھے اسپتال کے دروازہ پر دستک دینے پہنچ گئے۔ میں مسلسل فون پر اپنے تمام رابطوں کر بروئے کار لاکر مدد کی دہائی دے رہی تھی۔

آخر کار کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد گھر سے16 کیلومیٹر صفدرجنگ اسپتال میں ایک ڈاکٹر میری ساس کا معائنہ کرنے پر راضی ہوگیا۔ مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ شاید میری ساس کو  ہماری بھاگ دوڑ، کسمپرسی اور لاچاری دیکھی نہیں گئی۔ کب اس نے گاڑی میں ہی دم توڑ دیا تھا، ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکا۔ ڈاکٹر نے بس نبض دیکھ کر بتا یا کہ ان کو اب کسی علاج اور آکسیجن کی ضرورت نہیں ہے۔

اسپتال کے باہر اور اندر ہم نے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کی قطاریں دیکھی، جو مدد کے لیے دہائی دے رہے تھے۔پانچوں اسپتالوں میں ہمارے ارد گرد لوگ تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے۔ ایک قیامت برپا تھی۔ ایک افسردگی اور شکستگی کا ماحول تھا۔ لگتا تھا کہ عالم برزخ ہے۔

اس ایک ہفتہ کے دوران میں نے اپنے تین عزیزوں کو کھویا۔ یہ صرف میری کہانی نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی اس نئی لہر نے تقریباً پورے ہندوستان  کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ الیکشن کے انعقاد اور اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں کمبھ میلہ نے تو اس وائرس کو پرساد کے روپ میں گھر گھر پہنچا دیا ہے۔ تقریبا ً ہر کسی گھر میں کسی نہ کسی عزیر کی موت یا انفیکشن کا شکار ہو گیا ہے۔

پچھلے سال کورونا کی پہلی لہر اور لاک ڈاؤن کے دوران میں نے اپنے علاقے میں چند دوستوں کے ساتھ مائیگرنٹ مزدورں کی اعانت کے لیے ایک کیمپ کھول کر ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ چونکہ احباب کو معلو م ہے کہ میں نے پچھلے 15سال قومی میڈیا میں گزارے ہیں، اس لیے وہ توقع کرتے ہیں کہ میں ان کی کسی مشکل میں مدد کروں۔

دن میں کئی بار فو ن پر لوگ مدد کے لیے دہائی دیتے رہتے ہیں، کسی کو اسپتال کا بیڈ چاہیے، تو کسی کو آکسیجن کا سیلینڈر،پلازمایادوائی۔ اب میں کیسے ان کو بتاؤں کہ میں خود اپنے آپ کو کتنا بے بس اور لاچار محسوس کر رہی ہوں۔ کوئی وزیر یا افسر یا تو فون اٹھانے کی ہی زحمت نہیں کرتا ہے یا بس خالی وعدہ کرکے ٹال دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ خود بھی مدد کرنے سے معذور ہیں۔

اس ہاہا کار کے دوران پچھلی بار کی طرح، اس بار بھی سکھ برادری اپنے مذہبی مراکز اور گوردواروں کے دروازے کھول کر مفت کھانے کے ساتھ ساتھ،  بستر، آکسیجن اور دوائیوں کا انتظام کررہے ہیں۔ دہلی کے نواح غازی آباد میں ایک چھوٹے سے کمیونٹی گورو دوارے میں ایک رضاکار گروپ خالصہ انٹرنیشنل  دور دراز سے آکسیجن سلنڈر لا کر بے یار و مددگار افراد کے گھروں تک پہنچا رہے ہیں۔

مگر حالات اتنے شدید ہیں کہ وہ ایک محدود حد تک ہی مدد کرسکتے ہیں۔مجھے معلوم ہے کہ بس ایک آکسیجن سیلینڈر کی خاطر کئی خاندانوں کو اپنے زیور اور اثاثہ بیچنے پڑے ہیں۔ جو سیلینڈر چند سو یا ہزار میں دستیاب ہوتا ہے اس کی قیمت 60ہزار سے ایک لاکھ تک ہو گئی ہے اور بس چند گھنٹوں تک ساتھ دیتا ہے۔

فیس بک اپنوں اور غیروں کی تعزیت اور خبر مرگ سے بھرا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا  اسپتالوں کے اندر اور باہر، سڑکوں پر لوگوں کی پرسان حالی کے ویڈیوز سے پر ہے۔ قبرستان اور شمشان لاشوں سے اٹے پڑے ہیں۔ ارتھیوں پر برا جمان مردوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔آخری رسوم کے لیےدو یا تین دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حالات سے پریشان اکثر افراد لاشوں کوشمشان یا قبرستان کے باہرہی  چھوڑکر بھاگ رہے ہیں۔

مارچ 1739 میں نادر شاہ نے جب دہلی پر حملہ کیا تو بتایا جاتا ہے کہ کئی ہزار افراد کی لاشیں قبرستان کے باہر پھینکی گئیں تھیں اور پھر انہیں باندھ کر جلایا گیا تھا۔دہلی کے فرمانروا محمد شاہ رنگیلا نے شہریوں کی بچانے کے بجائے اپنی جان اور مال کو بچانے پر ترجیح دی۔ یہی حال موجودہ حکمرانوں کا بھی ہے۔ عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔

آہ و فغان کی آوازیں ساؤتھ بلاک کے دفاتر یا لوک کلیان مارگ کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ آوازیں سنگین دیوارں کو شگاف کرنے اور حکام کے کانوں تک پہنچے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ کیا کسی ملک کا حاکم اس قدر بے حس، بے مروت اور بے اعتنا ء ہوسکتا ہے؟

ستم ظریفی دیکھیے،چندسال قبل اتر پردیش میں انتخابی مہم کے دوران ووٹ مانگنے اور ہندو ووٹوں کو لام بند کرنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مود ی نے پچھلی حکومتوں پر طنز کیا تھا کہ وہ صرف قبرستانوں پر توجہ دیتے ہیں، گاؤں دیہات میں شمشان نہیں بناتے ہیں۔ اب تو ہندوستان کے ہر گاؤں و بستی میں شمشان آباد ہو رہے ہیں۔

لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مودی جی نے تو مندر، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے  پاکستان کو سبق سکھانے اور شہریت قانون کو لاگو کرنے کے لیے ووٹ مانگے تھے اور ان اقدامات کو انہوں نے ایمانداری کے ساتھ نافذ کرادیا۔ انہوں نے صحت عامہ اور عوامی بہبود سے متعلق کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔

آخر اس کو کیا کہیں گے، کہ دنیا میں ویکسین بنانے والے سب سے بڑے ملک ہندوستان  نے جنوری تک کوئی ویکسین ہی بک نہیں کیا تھا۔ جب برطانیہ، امریکہ، یورپی یونین، آسٹریلیا، برازیل، جرمنی اورجاپان ایڈوانس میں پچھلے سال ہی فی کس 50 ملین سے 300 ملین ویکسین ڈوز تک بک کرہے تھے، ہندوستان نے جنوری میں سیریم انسٹی ٹیوٹ سے 11ملین اور بھارت بایو ٹیک سے 5.5ملین ڈوز کا  پہلاآرڈر دے دیا۔

شاید مودی حکومت کو یقین نہیں تھا کہ ان کے سائنسدان ویکسین بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ پھر وشو گرو یا عالمی پیشوا بننے اور چین کے ساتھ صحت سفارت کار ی میں مقابلہ کرنے کے لیے95ممالک کو 66ملین ڈوز روانہ کر دیے۔ اور اس دوڑ میں ہندوستان  کا ہی سانس اس قدر پھول گیا ہے کہ دم نکل سکتا ہے۔اس سانس کو بحال کرنے کے لیے اپنی طرم خانی بھلا کر اب ہم دنیا کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہے ہیں۔

میر تقی میر اگر آج زندہ ہوتے، تو ایک بار پھر کہتے۔

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)