فکر و نظر

مرگِ انبوہ کا ذمہ دار کون؟

 کورونا وبا کے پھیلنے یا پھیلانے کا ذمہ دار اگر ہم ہندو مذہبی ٹھیکیداروں کو ٹھہراتے ہیں تو اس سے  کوئی سادھو، سنت، سوامی یا سنیاسی مراد نہیں لے سکتے بلکہ وہ حکمران طبقہ ہی ہے جو بیک وقت صاحب اقتدار بھی ہے اور مذہبی دکاندار بھی۔ پورا آوے کا آوا بہروپ و ہم رنگ ہے، حالت یہ ہے کہ ان کی سیاسی ٹھیکیداری اور مذہبی دکانداری کے درمیان خط امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا۔

علامتی تصویر،(فوٹو:رائٹرس)

علامتی تصویر،(فوٹو:رائٹرس)

اگر ہم زندہ ہیں اور جواب پانے کی ہمیں ضرورت ہے تو سوال کرنے کی عادت بھی ہونی چاہیے۔ مردے سوال نہیں کر سکتے کہ انہیں جواب کی ضرورت نہیں ہوتی۔

مرگِ انبوہ کا ذمہ دار کون ہے؟ اربابِ اقتدار؟ مذہبی ٹھیکیدار؟ کوئی نہیں؟یا ہر فردِ بشر؟

پہلی نظر میں اربابِ اقتدار اس کے ذمہ دار معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ عوامی خدمات اور فلاح وبہبود کے تمام اداروں کو چست درست رکھنے کی اولین ذمہ داری انہی کے کندھوں پر ہوتی ہے، جن میں صحتِ عامہ کے ادارے بھی شامل ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ وہ کرتے ہیں تو ہم کیوں تسلیم نہ کریں؟ ہم تو چار قدم آگے بڑھ کر یہ بھی مانتے ہیں کہ صرف وزیر اعظم ہی نہیں، بلکہ پوری کابینہ، یہاں تک کہ ریاستوں کے وزرائے اعلی بھی محنت ومشقت میں کچھ کم نہیں ہیں۔ اٹھارہ گھنٹے کم ہیں، چوبیس گھنٹے کام کا دعویٰ کریں تو شاید وہ بھی درست ہی ہو۔ لیکن یہ جاننا اہم ہے کہ وہ مذکورہ اٹھارہ گھنٹوں میں کرتے کیا ہیں؟

 وزیر خارجہ ایس جے شنکر چونکہ معروف معنی میں سیاسی شخصیت نہیں ہیں، لہذا ان کے علاوہ بشمول وزیر اعظم تمام چھوٹے، درمیانے اور بڑے سیاسی قائدین عام مشاہدے کے مطابق اٹھارہ گھنٹے نہیں بلکہ چوبیس گھنٹے ہوسِ ملک گیری کی آسودگی کی خاطر انتخابی مہمات، عوامی اجتماعات، سیاسی جوڑ توڑ اور صوبائی حکومتوں کے اکھاڑ پچھاڑ میں لگے رہتے ہیں۔

بھارت کی وہ ریاستیں جو ان کے زیرِ اقتدار ہیں ان کی نظر میں گویا ایسی مفتوحہ مملکت کا حصہ ہیں جو ہنوز نا مکمل ہے، اور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے پورا قبیلہ ہمہ تن ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے مختلف صوبوں میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں اور سال بھر مذکورہ قائدین لاؤ لشکر کے ساتھ یا تو میدان میں اور سڑکوں پر ہوتے ہیں یا خواص کے ساتھ درونِ خانہ منصوبہ بندی میں مشغول رہتے ہیں۔

ریاست/راشٹر، حکومت اور سیاسی جماعت کے مفہوم کو اس حد تک باہم پیوست کر دیا گیا ہے کہ ان کے درمیان تمیز مشکل ہو گئی ہے۔ عام تصور یہ ہو گیا ہے کہ جو سیاسی جماعت ہے وہی حکومت ہے اور جو حکومت ہے وہی ریاست/راشٹر ہے۔ یہاں تک کہ اہم ترین عہدوں پر بیٹھے پڑھے لکھے جہاں دیدہ قائدین بھی اپنی سیاسی جماعت کی سرگرمیوں اور حکومتی ذمہ داریوں میں فرق نہیں کرتے۔

بیشتر اوقات سیاسی سرگرمیوں کو حکومتی ذمہ داریوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ اور ان کا یہ رویہ لازمی طور پر ریاست کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ خدمات اور فلاح وبہبود کے منصوبوں کی طرف سے غفلت ہوتی ہے، یا شروع ہی نہیں ہوتے، یا تاخیر کا شکار ہو کر نا مکمل رہ جاتے ہیں۔

ستم یہ ہے کہ یہ سیاسی شخصیات اپنے ذاتی وجود، اپنی سیاسی جماعت اور اس جماعت کی حکومت کو ریاست/راشٹر کے لیے ناگزیر سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس حد تک کہ بھارت کے چپے چپے، گوشے گوشے اور کونوں کھدروں پر ان کا اقتدار اس کے بقا واستحکام کا واحد ضامن ہے۔ گویا وہ اقتدار میں ہیں تو بھارت ہے اور نہیں رہیں گے تو نہیں رہے گا۔ موریہ، مغل، برطانوی سامراج اور شاید نہرو بھی ایسا ہی سوچتے ہوں گے۔

سوچ کی حد تک وہ آزاد ہیں، لیکن دورِ جمہوریت میں کام نہ کرنے والی حکومت کے لیے راوی چین نہیں لکھ سکتا۔ ریاست/راشٹر کے لیے ناگزیر نہ وہ ہیں، نہ ان کی حکومت اور نہ ہی ان کی سیاسی جماعت۔ وہ نہیں تھے تب بھی بھارت تھا، اور نہیں رہیں گے تب بھی رہے گا۔

محترم وزیر اعظم! پانچ سالہ انتخابات میں کامیاب ہو کر حکومت سازی کا مطلب ملک پر فتح حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ نہ آپ راجا ہیں اور نہ ہی عوام پرجا ہیں۔ عوام نے ریاست کی فلاح وبہبود کے لیے اور اپنی خدمت کے لیے آپ کو ایک موقع دیا ہے، یہ آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن صوبہ جات فتح کرنے کی دھن میں اس سچائی کو آپ بھول بیٹھے ہیں۔ اورنگ زیب نے اورنگ آباد کو آباد کر کے دلی کو کمزور کیا تھا اور آپ اندرون وبیرون ملک گھوم گھوم کر بھارت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

محترم وزیر اعظم! انتخابات میں حصہ لینا پارٹی کا کام ہے، حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ حکومت کے سربراہ ہیں، پارٹی کے نہیں۔ بہت ہی بہتر ہوتا اگر پارٹی کے کام کاج اور حکومتی ذمہ داریوں کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا۔ پرائم منسٹر آفس میں سیاست نہیں ہوتی اور پارٹی آفس سے حکومت نہیں چلائی جاتی۔ انتخابات کی ذمہ داریاں پارٹی صدر  کے کندھوں پر ڈالتے جو متعلقہ صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلاتا اور آپ اپنی کابینہ اور اراکین پارلیامان کے ساتھ دلی میں بیٹھ کر حکومت کے کام دھندھوں پر توجہ مرکوز رکھتے۔

اس سلسلہ میں ہم دوسرے درجہ میں مذہبی ٹھکیداروں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ وہ ہندو اور مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور کوئی تیسرا چوتھا بھی۔ ہندو چونکہ بڑی اکثریت ہیں، پہلا حق بھی ان ہی کا ہونا چاہیے لہذا ہم ان کو معرضِ بحث میں پہلے لاتے ہیں۔

حکومت خواہ لوک شاہی ہو، راج شاہی ہو یا تانا شاہی، اس کا سرچشمہ قوت عوام ہوتے ہیں۔ پہلی صورت میں عوام کا ووٹ اس کی طاقت ہوتی ہے اور آخر الذکر دونوں صورتوں میں عوام کی خاموشی میں اس کا بقا و دوام مضمر ہوتا ہے۔ اس لیے جب کوئی صاحبِ زبان وقلم سماجی وسیاسی معاملات پر بولتا یا لکھتا ہے تو بظاہر وہ حکمران طبقہ سے مخاطِب ہوتا ہے لیکن اس کا مخاطَب در حقیقت عوام ہوتے ہیں۔

وہ عوامی شعور کو بیدار کر رہا ہوتا ہے کہ ان کے حق میں ضروری طور پر کیا کیا جانا چاہیے تھا اور ہو کیا رہا ہے۔ حکمران کبھی آسانی سے سننے اور سمجھنے پر آمادہ نہیں ہوتے لیکن مسلسل تحریروں اور تقریروں کے نتیجہ میں ایک وقت آتا ہے جب عوام انہیں سننے، سمجھنے اور جھکنے یہاں تک کہ بعض وقت ٹوٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ موسی علیہ السلام سے شروع ہو کر یورپ، افریقہ، ایران، ہندوستان سے ہوتے ہوئے حالیہ بہارِ عرب تک اس کی سیکڑوں مثالیں تاریخ کے صفحات میں تابندہ وپائندہ ہیں۔

اس تمہید کے بعد بطور یاد دہانی عرض ہے کہ موجودہ سربراہانِ حکومت سابقہ حکومتوں کے خلاف صحیح یا غلط مسلسل یہ الزام تراشی کرتے ہیں آئے ہیں کہ ووٹ کے لیے وہ مسلمانوں کا “تشٹی کرن/خوشامد”کرتی رہی ہیں۔ مذکورہ الزام درست ہے یا نا درست یہ تجزیہ اور بحث مباحثے کا موضوع بن سکتا ہے یا جزوی طور پر درست بھی ہو سکتا ہے کہ تاریخ میں گاہے ایسے نازک حالات آ ئے ہیں جب سابقہ حکومتوں نے ایسی بعض غلطیاں کی ہی۔

تاہم اس سے قطع نظر، موجودہ حالات میں شاید یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ حالیہ حکومت رجعت پسند ہندو مذہبی طبقہ کے تشٹی کرن میں شب وروز ہلکان ہے بلکہ بجا طور پر تسلیم شدہ بات یہ ہونی چاہیے کہ ہندوؤں کا رجعت پسند وقدامت پرست طبقہ ہی بر سر اقتدار ہے۔ یہ عریاں حقیقت نہ صرف یہ کہ محتاجِ دلیل نہیں ہے بلکہ تحلیل وتجزیہ سے بے نیاز بھی ہے۔

اس کے بر عکس یہ لوگ ترقی پسندانہ نعروں اور خوش حالی کے وعدوں کے ذریعہ عام ہندوؤں اور مسلمانوں کا تشٹی کرن کر کے انہیں اپنے گروہ میں شامل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک طرف مذہبی جذبات وخدمات موجودہ حکومت کی جز وقتی کمزوری نہیں بلکہ کل وقتی مصروفیات ومشغولیات ہیں اور دوسری طرف سیاست ان کی بھوک بھی ہے، پیاس بھی، سانس بھی اور مستقبل کی آس بھی۔

فکر کے اس مرحلہ میں کورونا وبا کے پھیلنے یا پھیلانے کا ذمہ دار اگر ہم ہندو مذہبی ٹھیکیداروں کو ٹھہراتے ہیں تو اس سے  کوئی سادھو، سنت، سوامی یا سنیاسی مراد نہیں لے سکتے بلکہ وہ حکمران طبقہ ہی ہے جو بیک وقت صاحب اقتدار بھی ہے اور مذہبی دکاندار بھی۔ پورا آوے کا آوا بہروپ و ہم رنگ ہے، حالت یہ ہے کہ ان کی سیاسی ٹھیکیداری اور مذہبی دکانداری کے درمیان خط امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا۔

قصہ مختصر، کسی ایک نے سُر باندھا کہ ایشور رکچھا کرے گا تو دوسرے نے تال ملایا کہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے، اشنان ضرور ہوگا، چاہے بھارت کے سارے لوگ ہی کیوں نہ مر جائیں۔ پھر ہوا یوں کہ وزیر صورت سادھو یا سادھو صورت وزیر سے انتظام تو ہو نہیں سکا اور نہ ہی ہو سکتا تھا، لیکن ووٹ کے لیے”تشٹی کرن”ضروری تھا سو اس نے کمبھ اشنان کی عام اجازت دے دی۔

اور جب سب ہو ہوا گیا، جس قدر آلودگی اور امراض وآزار پھیلائے جا سکتے تھے، پھیلائے جا چکے تو آں جناب نے شنکر اچاریہ کی خدمت میں درخواست گزاری کہ شردھالووں کو گھروں کو لوٹ جانے کا حکم دیں۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب وبا ہوا کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ جو جہاں گیا پرشاد کی شکل میں وبا کی سوغات لیتا گیا۔ اس حکمران ٹولے کی بڑی مجبوری یہ تھی کہ ٹھیک اسی دوران پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات بھی تھے۔ کمبھ اشنان کو روکتے بھی تو کس منہ سے کہ انہیں ریلیاں بھی کرنی تھیں اور جلوس بھی  نکالنے تھے۔

کڑیلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ سیاست زدہ مذہبی اور مذہب گزیدہ سیاسی۔ بڑی مشکل ہے انہیں کیا کہیں اور کیا نہ کہیں، کیا سمجھیں اور کیا نا سمجھیں۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ پڑھیے اور مسکرائیے۔

ہاتھی کا بچہ بیمار پڑ گیا، اس کا مالک علاج کے لیے  اسے لے کر  جا رہا تھا۔ راستہ میں کسی نیم حکیم نے کہا کہ وہ اس کا علاج کر دے گا۔ مالک نے کہا ٹھیک ہے کردو۔  نیم حکیم دُم اور سونڈ میں تمیز نہیں کر سکا اور ہاتھی کے بچہ کے گرد چکر لگاتا رہا۔ مالک نے گھومنےاور  علاج شروع نہ کرنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا کہ”بھئی مجھے تو یہی پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اس کا منہ کدھر ہے اور…کدھر!