خبریں

یوپی: کووڈ کے قہر سے زندگیاں بچانے کو جوجھ رہے کئی شہروں کے اسپتال میں بیکار پڑے ہیں وینٹی لیٹر

ملک  بھر میں کووڈ انفیکشن کے بڑھتے معاملوں کے بیچ مریضوں کووقت  پر وینٹی لیٹر نہ ملنے کی بات سامنے آ رہی ہے، وہیں اتر پردیش کے درجن بھر سے زیادہ ا ضلاع کے اسپتالوں میں ٹرینڈاسٹاف کی کمی یا آکسیجن کا صحیح دباؤ نہ ہونے جیسی کئی وجہوں سے دستیاب  وینٹی لیٹرز ہی کام میں نہیں آ رہے ہیں۔

بلیا کے اسپتال میں کمرے میں بند وینٹی لیٹرز۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

بلیا کے اسپتال میں کمرے میں بند وینٹی لیٹرز۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

ملک  بھر میں کووڈ 19 کی دوسری لہر میں، جہاں جگہ جگہ سے ہر روز آکسیجن و وینٹی لیٹر نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں کی جان جانے کی خبریں رہی ہیں، وہیں بلیا ضلع میں کووڈ اسپتال میں18وینٹی لیٹر بیکار رکھے پڑے ہیں کیونکہ انہیں چلانے کے لیے ٹیکنیشین نہیں ہیں۔

اس وجہ سے وینٹی لیٹر کی ضرورت والے مریضوں کو اعظم گڑھ یا دوسری جگہ ریفر کیا جا رہا ہے۔ سی ایم او کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں تمام  وینٹی لیٹر کو آپریشنل کر دیا جائےگا۔بلیا ضلع میں بسنت پور میں لیول2 کا کووڈ اسپتال بنایا گیا ہیں۔ یہاں پر آکسیجن بیڈ تو ہیں لیکن وینٹی لیٹر بیڈ نہیں ہیں کیونکہ یہاں دستیاب  18 وینٹی لیٹر ابھی شروع  نہیں ہو پائے ہیں۔

یہ وینٹی لیٹر پچھلے سال سے ہی رکھے ہیں، ان میں سے چار وینٹی لیٹر پی ایم کیئرفنڈ سے ملے ہوئے ہیں جبکہ دس وینٹی لیٹر ایک ادارے نے ڈونیٹ کیا تھا۔ چار اور وینٹی لیٹر ریاستی سرکار نے دیے تھے۔سی ایم او ڈاکٹر راجیندر پرساد نے قبول کیا کہ ابھی یہ وینٹی لیٹرآپریشنل نہیں ہو پائے ہیں کیونکہ اس کے لیے ٹیکنیشین اور کچھ آلات کا انتظام نہیں ہو پایا ہے۔

انہوں نے کہا،‘ٹرینڈ وینٹی لیٹر ٹیکنیشین کے لیے 15 دن پہلےاشتہار نکالا گیا تھا۔ ایک ٹیکنیشین کام کرنے کی خواہش  ظاہر کرتے ہوئے آیا لیکن پھر نہیں لوٹا۔تمام 18 وینٹی لیٹر آپریشنل  کرنے کے لیے چھ ٹیکنیشین کی ضرورت ہے۔ اسٹاف نرس و دیگرانسانی وسائل  کاانتظام  ہم موجودہ وسائل  میں سے کر لیں گے۔’

سی ایم او نے آگے کہا کہ سبھی وینٹی لیٹر کو آپریشنل کرنے کے لیےضروری انتظامات  کیے جا رہے ہیں اور امید ہے کہ ایک ہفتےمیں سبھی وینٹی لیٹر کام کرنے لگے۔ڈاکٹر پرساد نے کہا کہ وینٹی لیٹر کی ضرورت والے مریضوں کو اعظم گڑھ واقع میڈیکل کالج ریفر کیا جا رہا ہے۔

بلیا کے کووڈ اسپتال میں وینٹی لیٹرآپریشنل نہ ہونے کی خبر دینک جاگرن نے چھ اپریل کوشائع کی تھی، جس میں ٹراما سینٹر میں پانچ اور ایل ٹو کووڈ اسپتال میں 10 وینٹی لیٹر نہیں چلنے کی خبر دی گئی ہے۔

بلیا میں چھ مئی تک کووڈ 19 سے 184 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔پچھلے 20 دن میں 63 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق ضلع میں ابھی کل ایکٹو کیس 3012 ہیں، جہاں 2554 لوگ ہوم آئسولیشن میں ہیں۔

ضلع میں اپریل کے پہلے ہفتےسے انفیکشن کی رفتار لگاتار بڑھتی رہی ہے۔ دوسرے ہفتہ عشرے سے چھ مئی تک کچھ دنوں کو چھوڑ ہر روز 400 سے زیادہ  کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔بلیا میں کورونا مریضوں کے علاج کے لیے پھیپھنا میں ایل ون اور بسنت پور میں ایل ٹو کووڈ اسپتال بنایا گیا ہے۔ بسنت پورواقع کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کو ایل ٹو لیول کا کورونا اسپتال بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر پرساد کے مطابق، ایل ٹو کووڈ اسپتال میں 30 آکسیجن بیڈ ہیں۔ اس کے علاوہ 25 آکسیجن کانسینٹریٹر ہیں۔ اس کے علاوہ 15 ریگولیٹر بھی ہیں، جس سے مریضوں کو آکسیجن دی جا سکتی ہیں۔ضلع کے محکمہ صحت کے ذریعے پانچ مئی کو جاری بلیٹن کے مطابق ایل ون اسپتال میں13 اور ایل ٹو اسپتال میں 42 کووڈ 19متاثر مریض  بھرتی تھے۔

اے ٹو کووڈ اسپتال میں دستیاب18 وینٹی لیٹراگر اس وقت آپریشنل ہوتے تو کووڈ 19انفیکشن کے نازک  مریضوں کو یہاں بھرتی کر علاج کیا جا سکتا تھا۔تعجب  ہے کہ پچھلے سال ہی مل گئے وینٹی لیٹر کو اب تک کیوں نہیں شروع  کیا جا سکا اور ضروری ٹرینڈ ٹیکنیشین کی بھرتی کیوں نہیں کی جا سکی؟

کووڈ19مریضوں کے علاج سے جڑے ایک ڈاکٹر نے بتایا،‘پچھلے سال صوبے کے کئی اضلاع میں وینٹی لیٹر ملے۔ ان وینٹی لیٹر کو چلانے کے لیے ٹرینڈ ٹیکنیشین کی بھرتی اگروقت سے کر لی گئی ہوتی تو آج ایل ٹو اسپتال بھی نازک کو رونا مریضوں کا علاج کرنے کے قابل ہوتے۔ اس سے ایل تھری کے کووڈ اسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ بھی کم ہوتا۔’

انہوں نے کہا کہ وینٹی لیٹر آپریشنل کرنے کےسلسلے میں ڈاکٹروں  کو بھی ٹریننگ نہیں دی گئی۔

بلیا کے علاوہ بھی صوبے کے کئی اضلاع میں وینٹی لیٹر کے موجود رہنے کے باوجود ٹیکنیشین کے فقدان میں اس کے آپریشنل نہیں ہونے کی خبریں  مل رہی ہیں۔دیوریا ضلع میں بھی اس طرح کی خبر آئی تھی۔ دیوریا میں ضلع خاتون اسپتال واقع ایم سی ایچ ونگ میں لیول ٹو کا کووڈ اسپتال بنایا گیا ہے، جہاں پر 250 بیڈ ہیں۔

‘ہندوستان’ دینک میں ایک مئی کو شائع خبر کے مطابق، یہاں دستیاب14 وینٹی لیٹر اس لیےآپریشنل  نہیں ہو پا رہے ہیں کیونکہ اسے چلانے والا ٹیکنیشین نہیں ہے۔اس خبر کے بارے میں جب د ی وائر نے دیوریا کے سی ایم او ڈاکٹر آلوک پانڈے سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ کووڈ پازیٹو ہیں اور اس وقت ہوم آئسولیشن میں ہیں۔

انہوں نے کووڈ اسپتال کے نوڈل افسر ڈاکٹر سنجے چند سے بات چیت کرنے کو کہا۔ ڈاکٹر سنجے چند نے بات چیت میں صاف انکار کیا کہ کووڈ اسپتال میں دستیاب 14 وینٹی لیٹر نہیں چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبھی وینٹی لیٹر چل رہے ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگردیوریا کے ایل ٹو کووڈ اسپتال میں سبھی14وینٹی لیٹر چل رہے ہیں تو وینٹی لیٹر کی ضرورت والے نازک مریضوں کو بستی کے میڈیکل کالج کیوں ریفر کیا جا رہا ہے؟چھ اپریل کو ضلع محکمہ صحت کی بلیٹن میں بتایا گیا ہے کہ ایل ٹو کووڈ اسپتال میں 128مریض بھرتی ہیں جبکہ 89 مریضوں کو دوسرے ضلعوں میں ریفر کیا گیا ہے۔

ایسی ہی خبرمغربی یوپی کے شاملی سے بھی ملی ہے، جہاں ایک کووڈ اسپتال میں14وینٹی لیٹر ہیں، لیکن ایک بھی نہیں چل سکا کیونکہ محکمہ صحت  کے پاس ٹیکنیشین ہی نہیں ہے۔دینک جاگرن نے چار مئی کی خبر میں بتایا تھا کہ کانٹریکٹ  پر تقرری کی کوشش جاری ہے، لیکن کوئی امیدوار انٹرویو کے لیے نہیں پہنچا ہے۔

سی ایم او ڈاکٹر سنجے اگروال نے بتایا تھا کہ وینٹی لیٹر کے لیے تجربہ کار ٹیکنیشین کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے میں جیسے ہی اس کا انتظام  ہوگا، ویسے ہی مذکورہ سہولت کافائدہ  مریضوں کو ملنے لگےگا۔ان کا کہنا تھاتقرری کی پوری  کوشش کی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی دستیاب وسائل  سے مریضوں کو بہتر علاج دیا جا رہا ہے۔

اسی اخبار کے وارانسی ایڈیشن میں چھ مئی کو شائع ایک رپورٹ کےمطابق، بی ایچ یو کے سر سندرلال اسپتال اور ٹراما سینٹر میں کئی کورونا متاثر وینٹی لیٹر نہ ملنے کی وجہ سے بچ نہیں سکے تھے، وہیں ٹراما سینٹر میں14 وینٹی لیٹر چودہ دنوں سے ایک کمرے خالی پڑے ہیں۔

بتایا گیا تھا کہ ضلع مجسٹریٹ  کی ہدایت پر پنڈت دین دیال اپادھیائے اسٹیٹ  ہاسپٹل کے چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر وی شکلا نے ٹراما سینٹر کو یہ سبھی وینٹی لیٹر 22 اپریل کو بھیجے تھے اور پر تب سے یہ ٹراما سینٹر کے ایک اسٹور روم میں ہی رکھے ہیں۔

دینک جاگرن نے اس بارے میں ٹراما سینٹر کے انچارج پروفیسر ایس کے گپتا سے بات کی تھی، جنہوں نے بتایا کہ انہیں ملے وینٹی لیٹر کے فلو سینسر اور سرکٹ خراب ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ہمیں شاید دین دیال اسپتال میں استعمال کیے ہوئے یا رکھے ہوئے وینٹی لیٹر دے دیےگئے۔ وینٹی لیٹر آنے کے ایک دن بعد فلو سینسر اور سرکٹ خراب ملا اور انہیں جب لگاکر چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ چلا ہی نہیں۔ مرمت کے لیے ہم نے کسٹمر سپورٹ نمبر پر کال اور میل دونوں کیا، مگر ابھی تک ان کا  کوئی انجینئر نہیں آیا ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ اسی میل کی کاپی ضلع اسپتال کے سی ایم او کو بھی بھیجی، لیکن وہاں سے بھی کوئی نہیں آیا۔ ریمائنڈر دینے پر کہا گیا کہ ان کے انجینئر ابھی مصروف ہیں۔

سدھارتھ نگر ضلع میں بھی وینٹی لیٹر کے ہونے پر انہیں آپریٹ کرنے کے لیے ٹرینڈاسٹاف نہ ہونے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ اسی طرح قنوج کے تروا میں راج کیہ میڈیکل کالج میں اسٹاف کی کمی کی وجہ سے وینٹی لیٹر کی پیکنگ تک نہیں کھلی۔

دینک جاگرن کے مطابق، اسپتال کے آئی سی یو میں 10نارمل  وینٹیی لیٹرا ور دو ڈیجیٹل وینٹی لیٹر ہیں۔سال 2020 میں کورونا کا انفیکشن بڑھنے پر جب اسے لیول دو کا آئسولیشن وارڈ بنایا گیا، تب پی ایم کیئرس فنڈ سے 80 وینٹی لیٹر بھیجے گئے تھے، حالانکہ ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے یہ شروع نہیں ہو سکے۔

بتایا گیا ہے کہ قریب دو مہینے پہلے بند پڑے 50 وینٹی لیٹرحکومت کی ہدایت سے لکھنؤ کے کینسر اسپتال کووڈ 19 کے آئسولیشن وارڈ میں بھیجے گئے، جس کے بعد بچے 40 وینٹی لیٹر میں سے بھی 10 چل رہے اور 30 کمرے میں پیک رکھے ہیں۔

وینٹی لیٹر کی یہی حالت کم وبیش کانپور کے اسپتالوں کی بھی ہے۔ امر اجالا میں چھ مئی کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ شہر کے ارسلا اسپتال کے آئی سی یو کے چار وینٹی لیٹر آکسیجن کی کمی کی وجہ سےصحیح پریشر نہ ملنے سے ٹھیک  سے کام نہیں کر سکے۔

یہی حالت شہر کے سب سے بڑے ہیلٹ اسپتال کی بھی ہے۔ آج تک کی ایک تفصیلی رپورٹ بتاتی ہے کہ اسپتال کو 2020 کے آخر تک 120 وینٹی لیٹر ملے تھے،اس وقت  جس میں سے صرف 86 ہی چلنے کی حالت میں ہیں۔

34 وینٹی لیٹر تکنیکی خرابی کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی جو 86 وینٹی لیٹر چل رہے ہیں، ان میں سے بھی قریب دو درجن میں جب تب خراب ہو جا رہے ہیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ کے سرکاری اسپتالوں کا حال بھی وینٹی لیٹر کے معاملے میں بدحال ہے۔ صوبے میں صوبائی میڈیکل سروس کے زیرانتظام چلنے والے سب سے بڑے بلرام پور اسپتال میں 28 وینٹی لیٹر بند پڑے ہیں۔

یہاں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر آر کے گپتا کے مطابق آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ان کا استعمال نہیں ہو پا رہا ہے۔ جیسے ہی آکسیجن کا انتظام  ہوتا جائےگاا، انہیں شروع کیا جائےگا۔

قابل ذکر ہے کہ اپریل کے اواخر میں موہن لال گنج سے بی جے پی ایم پی کوشل کشور نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو لکھے گئے ایک خط میں الزام  لگایا تھا کہ بلرام پور اسپتال میں زندگی  بچانے کے لیے ضروری  وینٹی لیٹر اسپتالوں میں پڑے پڑے دھول کھا رہے ہیں۔

اسی طرح لکھنؤ کے ہی لوک بندھو اسپتال میں18 وینٹی لیٹر بند ہیں اور ان کی جگہ بائی پیپ مشینوں سے ہی کام ہو رہا ہے۔ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اجئے شنکر ترپاٹھی کے مطابق ایسا ہونے کی وجہ مطلوبہ  اسٹاف کانہ ہونا ہے۔

آج تک کی اس رپورٹ میں صوبے کے آٹھ دیگر شہروں کے بھی نام ہیں، جہاں وینٹی لیٹر کا کوئی ڈھنگ کا انتظام  نہیں ہے۔ کہیں پرٹرینڈاسٹاف نہیں ہے تو کہیں کسی اور وجہ  سے وینٹی لیٹر استعمال میں نہیں ہیں۔

ان شہروں  میں بریلی، رام پور، قنوج، بدایوں، لکھیم پر کھیری، کانپور دیہی، گونڈہ  اور علی گڑھ شامل ہیں۔

(منوج سنگھ  گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیرہیں۔)