خبریں

موجودہ اور سبکدوش اساتذہ سمیت 34 لوگوں کی موت کووڈ سے ہوئی: اے ایم یو

علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی کے وی سی نے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کوخط لکھ کر یہاں کے ماحول  میں وائرس کےویرینٹ کی جانچ کرانے کی گزار ش کی ہے۔ اس کے علاوہ دہلی یونیورسٹی  کےتقریباً24اساتذہ ، جامعہ ملیہ کے چار پروفیسروں سمیت 20 سے زیادہ ملازمین اور کروڑی مل کالج کے دو پروفیسروں کی موت کووڈ 19 سے ہو چکی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(فوٹو: پی ٹی آئی)

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)میں اساتذہ، سبکدوش اساتذہ اوردیگر ملازمین کی کووڈ 19 اور اس کے آثار سے ہونے والی اموات سےفکرمند وی سی پروفیسرطارق  منصور نے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ(آئی سی ایم آر) کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھ کر یونیورسٹی اور اس کے آس پاس کے ماحول  میں وائرس کے اقسام  کی جانچ کرانے کی گزارش کی ہے۔

علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی میں34 لوگوں کی موت ہوئی ہے، جن میں اس وقت ورکنگ اساتذہ  اور ریٹائر ہو چکے ملازمین بھی شامل ہیں۔

گزشتہ اتوار کو آئی سی ایم آر کےڈائریکٹر جنرل کو بھیجے گئے خط میں وی سی پروفیسر منصور نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اے ایم یو کیمپس اور آس پاس کے علاقوں میں کورونا وائرس کے ایک اسپیشل ویرینٹ سے ہونے والے انفیکشن کی وجہ سے موتیں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جواہرلعل نہرو میڈیکل کالج میں مائیکروبیالوجی لیب جو کہ کووڈ کو معنون لیب ہے، اس شہر میں پائے جانے والے ویرینٹ کے وائرل جینوم تسلسل  کو ٹریس کرنے کے لیےانسٹی ٹیوٹ آف جینومک اینڈ انٹیگریٹڈ بیالوجی لیبارٹری، نئی دہلی کو نمونے بھیج رہا ہے۔

وی سی  نے کہا کہ وائرس کے پھیلاؤکو کنٹرول  کرنے میں یہ کارآمد ہوگا۔ انہوں نے خط میں یہ بھی کہا کہ پچھلے 18 دنوں میں کووڈ سے علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی کے 16ورکنگ  اور 18 ریٹائراساتذہ سمیت دیگر ملازمین کی موت ہوئی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کےشعبہ  میڈیسن کے سربراہ  پروفیسر شاداب خان کی کورونا وائرس انفیکشن  کی وجہ سےگزشتہ سات مئی کو موت ہو گئی تھی۔خان  اے ایم یو کے 15ویں ٹیچر تھے، جن کی کورونا وائرس انفیکشن کی وجہ سے موت ہوئی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، آٹھ مئی کو اے ایم یو کی لاء فیکلٹی کے ڈین محمد شکیل احمد کا انتقال ہو گیا، جنہوں نے وہاں 12 سال پڑھایا تھا اور انہوں نے دو کتابیں بھی لکھی تھیں۔ اس میں سے ایک یونیفارم سو ل کوڈ پر تھی تو دوسری مسلم طلاق شدہ کے رکھ رکھاؤ پر تھی۔

پچھلے کچھ دنوں میں اپنی جان گنوانے والے سینئر پروفیسروں میں شعبہ نفسیات  کےچیئرمین  ساجد علی خان بھی شامل تھے۔اے ایم یو کے ایک افسر نے بتایا کہ جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج اس وقت آکسیجن کے بحران سے جوجھ رہا ہے اور پچھلے 12دنوں سے اسپتال کو لگاتار کوشش کے باوجود باہر سے آکسیجن کا ایک بھی سلینڈر نہیں ملا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کےمطابق، وہیں، دہلی یونیورسٹی کے تقریباً24 اساتذہ کی اس لہر میں جان جا چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کروڑی مل کالج کے دو اساتذہ کی جان جا چکی ہے۔دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ تو اب ٹیچرس ویلفیئر فنڈ کو پھر سے شروع کرنے پر کام کر رہے ہیں، تاکہ مہلوکین کے لواحقین کی مدد کی جا سکے اور اس میں اب ایڈہاک  اساتذہ کو بھی شامل کیا جائےگا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مطابق،انفیکشن کی وجہ سے چار پروفیسروں سمیت اس کے 20 سے زیادہ ملازمین کی موت ہوئی ہے۔ ادارے نے کہا ہے کہ وہ کووڈ 19کی وجہ سےجان  گنوانے والے ملازمین کے اہل خانہ  کو جلداز جلد مالی امداد مہیا کرائےگا۔

بتا دیں کہ اس سے پہلے اتر پردیش پرائمری اساتذہ ایسوسی ایشن نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ریاستی الیکشن کمیشن کو خط  بھیج کر پنچایت انتخاب میں ڈیوٹی کے دوران 706پرائمری اساتذہ  اور بیسک ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ  کے ملازمین کی موت کی جانکاری دیتے ہوئے مانگ کی تھی کہ پنچایت انتخاب  کی دو مئی کو ہونے والی رائے شماری  ٹال دی جائے۔ حالانکہ، اس کوٹالا نہیں گیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)