ادبستان

شمیم حنفی کی یاد میں

شمیم حنفی کی تنقید کو پڑھنے کا ایک لطف یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی بات ہمیشہ دھیمے پن سے اور دلیل سے کی ہے۔وہ اختلاف کو تنقید کے لیے باعث رحمت کہتے ہیں کہ اس سے ہی نئے مباحث کے دریچے کھلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تاہم اس میں بھی ایک تہذیب کے قائل رہے ہیں۔

شمیم حنفی اور حمید شاہد، تصویر بہ شکریہ: حمید شاہد

شمیم حنفی اور حمید شاہد، تصویر بہ شکریہ: حمید شاہد

ثقافتی اور تہذیبی ہم آہنگی کی بصیرتیں عطا کرنے اور ساری اردو دنیا میں محترم ہو جانے والے شمیم حنفی وبا کے اس سفاک موسم میں ہم سے بچھڑ گئے۔ اُردو دنیا کی محبوب ہستیوں کے لیے وبا کا یہ موسم پت جھڑ کا موسم ہو گیا ہے۔ وہ جو جمال احسانی مرحوم نے کہا تھا؛

چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار

تو لگتا ہے وہ اسی موت موسم کے حوالے سے کہہ گئے تھے۔  میرے لیے صدمات کا یہ سلسلہ ذاتی نوعیت کا بھی ہے کہ آصف فرخی ہوں، یا مشرف عالم ذوقی، مسعود مفتی ہوں یا رشید امجد، شمس الرحمن فاروقی ہوں یا اب شمیم حنفی سب سے بہت قریبی تعلق رہا ہے۔

ایک طرف اگریہ لوگ فکشن اور تنقید کا دامن اپنی یاد رہ جانے والی تحریروں سے بھرنے والے تھے، تو دوسری طرف ان کے دم سے علم، ادب اور فن کی دنیا میں ایک ہنگامہ سا نظر آتا تھا۔اب یوں لگتا جیسے رواں منظرنامے میں ایک بڑا کھانچا بن گیا ہے،جی ایک ایسا خلاجسے شاید ہی پُر کیا جا سکے۔

اُردو تنقید کو جن لوگوں نے اعتباربخشااور اس تنقید کے سبب ہی وہ اپنی شناخت مستحکم کرکے بلند قامت ہوئے اور قریب ترین زمانے میں سرحد کے دونوں طرف احترام پایا اُن میں شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی بہت نمایاں ہیں۔25 دسمبر 2020 کو شمس الرحمن فاروقی کووڈ کا شکار بنے تو 6 مئی2021 کو شمیم حنفی۔ وہ ایک عرصے سے علیل تھے، کینسر جیسے موذی مرض کو بھی انہوں نے بھگتا مگر اس سے شکست نہ کھائی۔

طبیعت سنبھلی تو احمد شاہ کی دعوت پر عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی پہنچ گئے تھے کہ یہاں ان سے محبت کرنے والے بہت تھے۔ وہ اس کانفرنس کے لیے کئی برسوں سے آرہے تھے۔ گزشتہ برس بھی وہ آنا چاہتے تھے مگردونوں ملکوں کے تعلقات میں جو  سردمہری در آئی تھا اس سفر کو ناممکن بنادیا تھا۔ سب نے ان کی کمی محسوس کی۔

اگرچہ انہوں نے دہلی سے آن لائن خطاب کیا تھا مگر وہ جو مل بیٹھنا تھا اور مختلف موضوعات پر ہر پہلو سے بات کرنا تھا، اس کا موقع نہ نکل پایا تھا۔ ایک عالم ادیب سے ایسی ملاقاتوں میں گفتگو کا تو اپنا ہی لطف ہے۔

شمیم حنفی کی تنقید کو پڑھنے کا ایک لطف یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی بات ہمیشہ دھیمے پن سے اور دلیل سے کی ہے۔وہ اختلاف کو تنقید کے لیے باعث رحمت کہتے ہیں کہ اس سے ہی نئے مباحث کے دریچے کھلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تاہم اس میں بھی ایک تہذیب کے قائل رہے ہیں۔

ان میں ایک اور خاص بات، جو ان کے ہم عمر ہم عصروں میں نہ ہونے کے برابر تھی، وہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف عالمی ادبی رجحانات سے آگہی رکھتے تھے، برصغیر کی اپنی زبانوں کے ادب سے بھی آگاہ رہتے تھے۔نہ صرف ادب سے؛ موسیقی، ڈرامہ، فلم اور آرٹ بھی ان کی دلچسپیوں کے علاقے رہے ہیں۔

اُردو ادب کی یہ بلند پایہ شخصیت 1939 میں سلطان پور کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئی۔ ان کے والد محترم وکیل تھے مگر علم اور ادب سے بہت رغبت تھی جس نے شمیم حنفی صاحب کے مزاج کا ایک رُخ متعین کیا۔ انہوں نے مدھو سودن ودیالیہ سے انٹر کیا اور ڈی فل تک کی باقی تعلیم الہٰ اآباد سے حاصل کی۔ ڈی فل میں ان کے نگران پروفیسر احتشام حسین تھے۔


یہ بھی پڑھیں: شمیم حنفی: ایک ادبی اور تہذیبی بصیرت کا شخص


انہیں فراق گورکھپوری، ڈاکٹر اعجاز حسین اور پروفیسر ایس سی دیو جیسے اساتذہ کی سرپرستی حاصل رہی۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز انہوں نے 1965 میں اندور یونیورسٹی  سے بہ طورلیکچرار اردوکیا۔ 1969 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے جہاں کی علمی و ادبی فضا نے ان کی شخصیت کو اور نکھارا۔ یہیں سے انھوں نے 1976 میں ڈی لٹ کیا۔

اُن کے نگران پروفیسر آل احمد سرور تھے۔ پھر وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی چلے گئے اور 1984 میں پروفیسرہو گئے۔صدر شعبہ کے علاوہ ڈین فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز اور اردو کریسپانڈنس کورس کے ڈائریکٹر بھی رہے۔2007 میں وہ تدریسی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے لیکن انہیں تاحیات پروفیسرایمرٹس بنادیا گیا اوروہ علم وادب کی خدمت زندگی کی آخری سانسوں تک کرتے رہے۔

اُن کی علمی ادبی خدمات کی فہرست بہت طویل اور قابل رشک ہے۔ الہ آباد جاتے ہی جو فراق کی صحبت میسرآئی تھی اس نے انہیں فراق کی شاعری کے گہرے مطالعے کی طرف راغب کیا اور اس کا نتیجہ”ہزار داستان“یعنی فراق کے ایک ہزار اشعار کے انتخاب کی صورت میں نکلا۔انہوں نے”فراق: شاعر اور شخص“ کے عنوان سے فراق کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے مضامین کا انتخاب بھی کیا تھا جوبعد میں شائع ہوا۔

ان کا مرزا غالب کی سوانح پر کام 1965 میں شائع ہوا تھا جب کہ تنقید کے حوالے سے اہم کام”جدیدیت کی فلسفیانہ اساس“،”شعری روایت“،”کہانی کے پانچ رنگ“،ا”قبال کا حرف تمنا“،”قاری سے مکالمہ“،”تاریخ تہذیب اور تخلیقی تجربہ“،”جدیدیت اور نئی شاعری“، ”اردو کا تہذیبی تناظراور معاصر تہذیبی صورتحال“، ”اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ“،”منٹو حقیقت سے افسانے تک“،”میرا جی اور ان کا نگار خانہ“،”ادب ادیب اور معاشرتی تشدد“ اور”خیال کی مسافت“ جیسی کتب ہیں۔ انہوں نے بہت سارے ریڈیائی ڈرامے لکھے جو”مٹی کا بلاوا“،”مجھے گھر یادآتا ہے“،”بازار میں نیند“ کی صورت میں شائع ہوئے۔

ان کی دیگر فنون میں دلچسپی کا اندازہ ان کی کتب”غزل اور غزل گائیکی“،”جواہرلال نہرو۔سوانح“،”شہر خوں اآشام“(بنگالی شاعری کے تراجم)،”سیاہ فام ادب“ اور بچوں کے ادب کی کئی کتب سے لگایا جاسکتا ہے۔ شمیم حنفی نے انگریزی، ہندی اور بنگالی کی کئی اہم کتابوں کو اردو میں منتقل کیا۔

معاصرادیبوں اور شاعروں پر نہ صرف مضامین لکھے ان پر اپنی گفتگوئیں بھی ریکارڈ کروائیں۔ تخلیقی سطح پر شاعری اُن کی ایک اور پہچان ہے۔جب آخری بار وہ پاکستان آئے تھے توریختہ سے شائع ہونے والا شعری مجموعہ”آخری پہر کی دستک“ مجھے بھی عطا کیا تھا۔ ان کا ایک شعر ہے ؛

میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو

خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے

شمیم حنفی سے میری ساری ملاقاتیں تین شہروں میں رہیں:نئی دہلی، کراچی اور لاہور۔ جب ہم نئی دہلی گئے تھے تو انہوں نے بھابی صبا سے اور بچیوں سے ملوایا تھا۔ میری بیگم کے پاس اُن کے عطا کیے ہوئے تحائف ابھی تک محبت کی نشانی کے طور پر محفوظ ہیں۔

تب یہ وعدہ ہوا تھا کہ شمیم صاحب اسلام آباد اپنی بیوی بچیوں سمیت آئیں گے اور ہمارے مہمان بنیں گے۔ انہوں نے لاہور اور کراچی والی ملاقاتوں میں اس عزم کو دہرایا کہ صبا اور بچیوں کو جب بھی ویزہ ملا وہ ضرور اسلام آباد آئیں گے۔ وہ ایک بار پہلے بھی اسلام آباد آچکے تھے اور پھر آنا چاہتے تھے۔

ہم نے یہاں کی ایک یونیورسٹی میں بات کرکے ان کا پروگرام طے بھی کروا دیا تھا مگر حالات ایسے بنے کہ افسوس ایسا ممکن نہ ہو پایا۔ تاہم مجھے جو ان کی توجہ اور محبتیں حاصل رہی ہیں وہ میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔

(مضمون نگار برصغیر کے معروف فکشن رائٹر ہیں)