فکر و نظر

کیا عدالتیں اپنے اوپر عائد کی گئی غیر ضروری پابندیوں سے خود کو آزاد کر پائیں گی

انسان کی آزادی سب سے اوپر ہے۔ جو ضمانت ایک ٹی وی پروگرام کرنے والے کا حق ہے، وہ حق گوتم نولکھا یا فادرا سٹین کا کیوں نہیں، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ عدالت کہےگی ہم کیا کریں، الزام  یو اے پی اے قانون کے تحت ہیں۔ ضمانت کیسے دیں! لیکن اپنے او پر یہ بندش بھی خود سپریم کورٹ نے ہی لگائی ہے۔

عمر خالد، فادرا سٹین سوامی اور ہینی بابو ایم ٹی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/پی ٹی آئی/ٹوئٹر)

عمر خالد، فادرا سٹین سوامی اور ہینی بابو ایم ٹی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/پی ٹی آئی/ٹوئٹر)

مہاراشٹر کی ہائی کورٹ نے حکومت کو تلوجہ جیل کے حکام کو فادر اسٹین سوامی کو علاج کے لیے ممبئی کے ہولی فیملی ہاسپٹل بھیجنے کا حکم  دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر ہینی بابو کو بریچ کینڈی ہاسپٹل سے جیل واپس نہ بھیجنے کی ہدایت جیل حکام  کو دی گئی  ہے۔ یہ تب تک جب تک کہ ان کی ضمانت کی عرضیاں سنی نہیں جاتیں۔

دونوں کی عمر میں تقریباً 30 سال کا فرق ہے لیکن دونوں ہی الگ الگ بیماریوں  میں مبتلا ہیں۔ ہینی بابو توکووڈ انفیکشن  کی زد میں  ہیں ہی، ان کی آنکھ میں ایک انجان انفیکشن ہے، جس سے ان کی بینائی پر اثر پڑا ہے۔فادراسٹین سوامی کو عرصے سے پارکنسن کی شکایت ہے۔ اس میں اعضاء کے عمل پرقابو نہیں رہ جاتا۔ میں اسے پہچانتا ہوں۔ میرے والد کے ہاتھ میں پیالہ ہلتے دیکھ کر ہم سب بےچین ہو اٹھتے ہیں۔

اگر مجھے غلط یاد نہیں تو ڈاکٹری کی پڑھائی کے دوران اپنی مہارت  کا شعبہ چنتے ہوئے سرجری کی طرف نہ جانے کا فیصلہ میرے بھائی نے بابوجی کو دیکھتے ہوئے ہی لیا تھا۔ یہ کبھی بھی آپ پر حاوی ہو سکتا ہے۔

پہلی بار جب سنا تھا کہ فادر کو پینے کے لیے سِپر دینے میں جیل حکام آناکانی کر رہے ہیں تو مجھے اپنے والد کی یاد آئی۔ اس ایک سِپر کے لیےقومی ہی نہیں بین الاقوامی مہم چلانی پڑی تھی، اس سے ہماری جیلوں کی بنیاد میں جو سفاکی ہے اس کی ایک جھلک ملی تھی۔ جیل ٹارچرہوم ہیں اور وہاں قیدیوں کو انسان نہیں مانا جاتا اور ہمارا سماج بھی مانتا ہے کہ یہی ٹھیک ہے۔

ابھی ہم فادر یا ہینی بابو یا سدھا بھاردواج اور شوما سین کی گرفتاری کے جواز پر بات ہی نہیں کر رہے۔ جسے بھیما کورےگاؤں معاملہ کہا جاتا ہے، اس میں دلتوں پر حقیقت  میں تشددکرنے والوں پر کسی کارروائی کی جگہ ایک شیخ چلی  کی اڑان بھری گئی کہ بھیما کورےگاؤں  کےتشددکے پیچھے سدھا بھاردواج یا گوتم نولکھا یا آنند تیلتمبڑے جیسے لوگوں کی ایک بڑی بھیانک اور گہری سازش تھی جس میں وزیر اعظم کے قتل  تک کا ارادہ تھا۔

جنہوں نے اصل میں تشدد کیا اور اس کی سازش کی وہ تو آرام سے آگے بھی اپنی  نفرت اورتشدد کا پرچار کرنے کو آزاد ہیں۔ جیلوں میں ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی پوری زندگی غریبوں،دلتوں،آدی واسیوں اور اقلیتوں کے حقوق کے لیےآئینی  طریقوں کو کارگر بنانے کی جد وجہدکی ہے۔

وہ سدھا بھاردواج ہوں یا فادرا سٹین، انہوں نے عدالتوں کو ہی اپنا ذریعہ بنایا ہے کہ آدی واسیوں کے ساتھ سرکاری یا کارپوریٹ کی ناانصافی  کو روکا  جا سکے۔ ان کی زندگی  کھلی کتاب رہی ہے اور کبھی بھی انہوں نے اپنے خیالات  چھپائے نہیں ہیں۔

کوئی مجرم اور خود سازشی ذہن ہی ایسے لوگوں کو کسی خفیہ سازش میں شامل بتانے کی کہانی بنا سکتا ہے۔ ابھی  ہم اس مسئلے پر چرچہ نہیں کرنا چاہتے۔

دوسالوں میں کئی طرح  سے اور بالکل آزاداداروں اور افرادنے اس معاملے کی جانچ  کرکے پایا ہے کہ بھیما کورےگاؤں  معاملے میں گرفتار 16 لوگوں پر بنایا گیا پورا مقدمہ ہی فرضی ہے اور اگر ثبوتوں پر بحث شروع ہو جائے تو وہ منھ کے بل گر پڑےگا۔

اس لیےجانچ ایجنسی کی کوئی دلچسپی مقدمہ شروع کرنے میں نہیں ہے۔ وہ ان سارے لوگوں کو بنا مقدمے کے سالوں سال جیل میں بند رکھنا چاہتی ہے۔ اسے بنا مقدمے کے اور بنا سزا کے سزاکہہ سکتے ہیں۔

ہمارے جج اتنا نہیں سمجھتے یہ ماننا بڑا مشکل ہوگا۔ وہ اپنی لاچاری بتلاتے نہیں لیکن ان کے فیصلے اس کا ثبوت ہیں کہ اگر پولیس نے یو اے پی اے کی دفعات لگا دیں تو ہماری عدالتیں انصاف کا سب سے بنیادی اصول نافذ نہیں کر سکتیں۔ وہ اصول ہے جیل نہیں ضمانت۔

انسان کی آزادی سب سے اوپر ہے۔ جو ضمانت ایک ٹیلی ویژن پروگرام کرنے والے کا حق ہے، جسے اسے بنادیر کیے فراہم کرانے کو سرپم کورٹ غیرمعمولی تیزی سے کام کر سکتا ہے، وہ حق گوتم نولکھا یا آنند تیلتمبڑے یا فادرا سٹین کا کیوں نہیں،یہ سمجھ سے بالاترہے۔

یا شاید اتنا بھی سمجھ کے باہر نہیں۔ عدالت آپ کو کہےگی ہم کیا کریں،الزام یو اے پی اے قانون کے تحت لگائے گئے ہیں۔ ہم ضمانت کیسے دے دیں!لیکن اپنے اوپر یہ بندش بھی خود سرپم کورٹ نے لگائی ہے۔ قانون کہتا ہے کہ ملزم کو ضمانت نہیں دی جا سکتی اگر اس کی واجب یا ٹھوس وجہ یا بنیاد موجود ہو جس سے کہا جا سکے پہلی نگاہ میں ان پر الزام صحیح لگتے ہیں۔

لیکن ظہور علی شاہ وٹالی کے معاملے میں سپریم کورٹ نے اس کی عجیب و غریب تشریح  کی۔ اس نے کہا کہ عدالت یہ مان کر چلےگی کہ پولیس کے دستاویز صحیح ہیں۔ اتنا ہی نہیں،وہ اس کی جانچ بھی نہیں کر سکتی کہ وہ ثبوت کے طور پرقابل قبول ہیں یا نہیں۔ انہیں ماننا ہی ہوگا کہ وہ درست ہیں۔

فرض کیجیے کہ پولیس کے پاس ثبوت کے طور پر صرف ملزم کا ایک اقبالیہ بیان ہے جو پولیس کے سامنے لیا گیا بتاتے ہیں۔ قانوناً یہ بیان ثبوت کے طورپر قابل قبول ہی نہیں ہوگا۔ لیکن وٹالی والے فیصلے کے مطابق ضمانت کی بحث کے وقت عدالت اس پر غور ہی نہیں کر سکتی۔

پھر ضمانت کی دلیل ہی کیا ہوگی؟ اس طرح سرپم کورٹ نے ہی ایک طرح سے جانچ ایجنسیوں اور سرکار کو اشارہ کیا کہ وہ بنا کسی ٹھوس وجہ  کے اپنے مخالف کو اس قانون کے تحت جیل میں تباہ کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلےکی مدد سے یا اسی کے زور پر اب بھیما کورےگاؤں معاملے میں اور دہلی کے تشدد کی جانچ کے نام پر 16 اور 22 لوگوں کو 3 سال اور 1 سال سے بھی زیادہ سے جیل میں رکھا گیا ہے۔ انہیں ضمانت ملنے کے آثار نہیں ہیں۔ صرف اس لیےکہ سرکار کی ایجنسی نے ان پر یو اے پی اے کے تحت الزام لگائے ہیں۔

خود سرپم کورٹ نے ہی حال میں ایک دوسرے معاملے میں کہا کہ اگر ایسا لگے کہ ایجنسی مقدمہ شروع کرنے کی جلدی میں نہیں ہے تو آپ ابد تک کسی کو صرف اس وجہ سے ضمانت سےمنع نہیں کر سکتے کہ اس پر یو اے پی اے کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔

یہ فیصلہ ایک نذیر بن سکتا ہے لیکن اب تک عدالتوں میں اسے لےکرہچکچاہت قائم  ہے۔

ہندوستانی شہری  کے بنیادی حق، یعنی اس کی آزادی  کےتحفط کو لےکر عدالتوں میں جو ہچکچاہٹ اور لاچاری دکھائی پڑتی ہے، اسے دیکھتے ہوئے فادر اسٹین سوامی کو کم از کم صحت کا حق حاصل ہو، اس پر بمبئی ہائی کورٹ کی مضبوطی پر اسے شکریہ ادا کریں اور راحت کی سانس لیں، ابھی ہمارے بس میں اتنا ہی ہے۔

پچھلے ہفتے جو انہیں یہ سہولیت دلانے کو لےکر عجب عدالت بیٹھی، تو اس نے فادر سے سیدھے بات کی۔ ہر کوئی دیکھ پا رہا تھا کہ بات کرتے وقت فادر کا پوراجسم  بری طرح کانپ رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی صحت جیل میں تیزی سے گر رہی ہے لیکن وہ اسپتال کے رحم وکرم کے مقابلے جیل میں ہی مر جانا پسند کریں گے۔ وہ اپنے، یعنی ہندستانی شہری  کے بنیادی حق کی جانب توجہ مبذول کرا رہے تھے جو نہ اسٹیٹ ، نہ پولیس اور نہ عدالت کے عمل پر منحصر ہے۔

وہ پیدائشی ہے اور عدالت اور اسٹیٹ کی بھی پہلی  مقدس ذمہ داری  اس کو ہی یقینی بنانے کی ہے۔ فادر کو اسپتال کے لیے تیار کیا جا سکا ہے کیونکہ اب ہم اسٹیٹ کےاداروں کی ان حدوں  سے واقف ہیں جن میں قید رہنے کی کوئی مجبوری ان کی نہیں لیکن اپنی خواہش سے انہوں نے ان کی زنجیریں پہن لی ہیں اور اس طرح اپنا اقبال کھو دیا ہے۔

شاید عدالت کبھی سوچ پائے یاجج جب وہ سبکدوش ہوکر کچھ آزاد ہوں کہ نتاشا نروال کو ضمانت نہ دےکر انہوں نے انصاف کیا تھا، انسانیت کے اصول کی حفاظت کی تھی یا کچھ اور!عمر خالد نے اپنے دوستوں بنوجیوتسنا اور انربان کے توسط سے جو کہا کیا اسے وہ کبھی پڑھ کر سمجھ پائیں گے؟ عمر نے کہا کہ وہ روزانہ بےچینی میں رات گزارتا ہے۔

آپ چاہیں تو عمر کا مذاق اڑا سکتے ہیں کہ آخر وہ  ڈر گئے ہیں لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھیے کہ کیا جس خدشے اور بےچینی کا ذکر عمر کر رہے ہیں، وہ ہم سب کو ستا رہی ہے یا نہیں!

وہ سارے جانچ افسر، جنہوں نے بھیما کورےگاؤں اور دہلی تشدد کی سازش کے قصہ گڑھے ہیں، کیا وہ ابھی جیت کے احساس کے جشن میں ہیں؟ یا وہ ان قصوں کو بھول چکے ہیں جو انہوں نے گڑھے اور جن کے کردار کے طور پر عمر خالد جیسے لوگوں کو چن کر انہوں نے جیل میں ڈال دیا؟

آج جب لعل قلعے کو قبضہ کرنے کی سازش کا پتہ کرنے کے دعوے کے بارے میں پڑھا تو پھر یہ سب کچھ یاد آ گیا۔ تو یہ راحت ہے کہ فادر اسپتال میں رہیں گے اور ہینی بابو بھی۔

ہم امید کریں کہ مہاراشٹر یا دہلی یا اتر پردیش کی جیلوں میں جنہیں یو اے پی اے کی وجہ سے اب تک ضمانت نہیں ملی ہے، عدالتیں ایک بار دوبارہ اپنی ہی لگائی غیر ضروری بندش سے خود کو آزاد کرکے انہیں ضمانت دے پائیں گی۔

سوال آخرکار عدالتوں کو خود کو آزاد کرنے کا ہی ہے۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی  میں پڑھاتے ہیں۔)