خبریں

بہار: سات لاکھ کی ایمبولینس مبینہ طور پر 21 لاکھ میں خریدی گئی، بنا استعمال پارکنگ میں کھڑی

بہار سرکار کے سابق وزیر وکرم کنور نے وزیر اعلیٰ  نتیش کمار اور محکمہ نگرانی کے پرنسپل سکریٹری  سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداروں  کو خط لکھ کر ایمبولینس کی خریداری میں عہدے کاغلط استعمال کرتے ہوئے منصوبہ بند سازش  کے تحت سرکاری پیسوں  کےنقصان کا الزام  لگایا ہے۔ ان کا الزام  ہے کہ بلنگ کی رقم  بڑھانے کے لیے انشورنش اور آرٹی او کا خرچ بڑھا کر دکھایا گیا۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: بہار میں کووڈ 19 مہاماری کی دوسری لہر کے بیچ ایک مبینہ  ایمبولینس گھوٹالہ سامنے آیا ہے۔ پچھلے سال جب کووڈ 19 کے پہلے دور کا قہر جاری تھا تب بہار کے سوان ضلع میں7 ایمبولینس کو مبینہ  طور پر ان کی اصل  قیمت سے تین گنا زیادہ  دام میں  خریدا گیا تھا، وہ  سب بنا استعمال کےپارکنگ میں کھڑی ہیں۔

دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق، بہار سرکار کے سابق وزیر وکرم کنور نے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور نگرانی محکمہ  کے پرنسپل سکریٹری  سمیت دیگراعلیٰ عہدیداروں کو خط لکھ کر ایمبولینس کی خریداری میں عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے منصوبہ بند سازش کے تحت سرکاری پیسے کے نقصان کا الزام لگایا ہے۔

نتیش کمار سرکار میں سڑک تعمیرات کے وزیر رہے وکرم کنور نے الزام لگایا ہے کہ سات لاکھ کی ایمبولینس2184623 روپے میں خریدی گئی۔ ساتھ ہی بلنگ کی رقم کو بڑھانے کے لیے انشورنش کا خرچ اور آرٹی او کا خرچ بڑھا کردکھایا گیا۔ اس کے علاوہ 124160 روپے کی اضافی  ادائیگی  آلات کے لیے کی گئی۔

سابق وزیر نے الزام لگایا ہے کہ مالی سال2020-21 میں علاقائی ترقی کے لیےمختص وزیر اعلیٰ ترقیاتی فنڈکے تحت ڈسٹرکٹ پلاننگ آفیسرکے ذریعے ایمبولینس خریدی  گئی تھی، جبکہ پلاننگ اورڈیولپمنٹ  محکمہ  کے سکریٹری  کے تحت ایمبولینس کی خریداری نہیں کی گئی تھی۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، وکرم کنور نے لکھا ہے کہ ایک ای کامرس کمپنی انڈیا مارٹ پر 60 ہزار کی قیمت والے وینٹی لیٹروں کو 3.41 لاکھ روپے میں خریدا گیا۔ 31 ہزار روپے کے طبی آلات کو 1.18 روپے میں خریدا گیا۔ 8500 روپے کے سکشن مشین کو 33 ہزار روپے میں خریدا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمبولینس میں سیٹ پارٹیشن پر 1.24 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔

مبینہ  طور پر سات میں سے پانچ ایمبولینس وزیر اعلیٰ کے ترقیاتی فنڈ کےتحت خریدے گئے تھے۔ یہ خریداری سرکار کے ای مارکیٹ پلیس(جی ای ایم)کے توسط  سے بھی نہیں کی گئی جو کہ پانچ لاکھ سے زیادہ  کے سامان کی خریداری  کے لیےلازمی ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ وینٹی لیٹر، سیٹ پارٹیشن اور دیگر طبی آلات جیسی مختلف سہولیات کے بعد ایمبولینس کی قیمت بڑھ گئی۔ حالانکہ ان سہولیات کو اوپن ٹینڈر کے توسط  سے آسمان چھوتی قیمتوں  پر خریدا گیا تھا۔

سیوان کے ضلع مجسٹریٹ امت پانڈے نے کہا ہے کہ معاملے میں جانچ کے حکم  دے دیےگئے ہیں۔

مبینہ  گھوٹالے کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد انہوں نے کہا، ‘ایمبولینس میں کووڈ کے لیے کچھ مخصوص آلات بھی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی قیمتیں  زیادہ تھیں۔ معاملے کی جانچ کے لیے کمیٹی بنائی  گئی ہے۔’

وہیں، سیوان سے قانون ساز کونسل رکن ٹنا پانڈے نے کہا، ‘ہمیں نہیں پتہ کہ ایمبولینس کس قیمت پر خریدی گئیں۔ معاملے کی جانچ کے لیےضلع مجسٹریٹ نے کمیٹی بنا دی ہے۔’

ویڈیو میں ایک پارکنگ میں ایمبولینس کو بےداغ حالت  میں اور ایم ایل اےاور ایم پی کے ناموں کے ساتھ دیکھا گیا۔

پچھلے سال ملک میں کووڈ 19 کے قہر کے دوران بھی بہار میں ایمبولینس کی کمی کو لےکر کافی تنازعہ ہوا تھا۔ اس بار زیادہ مہلک  صورت میں سامنے آئے کووڈ 19 کی دوسری لہر کے دوران بھی متعدد ایمبولینس کا استعمال ہی نہیں کیا گیا۔

پچھلے مہینے بہار میں جن ادھیکاری پارٹی چیف اورسابق ایم پی راجیش رنجن عرف پپو یادو نے سارن کے بی جے پی ایم پی راجیو پرتاپ روڈی کے کیمپس میں کورونا مہاماری کے باوجود بنا استعمال ہوئے چھپاکر رکھی گئی بڑی تعداد میں ایمبولینس کے معاملے کو اجاگر کیا تھا۔

ایم پی روڈی نے اس کو لےکر پپوکو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے صفائی دی تھی کہ کووڈ 19کی وجہ سےڈرائیور کے بغیر ان سب گاڑیوں  کو چلانا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے جس کے لیے انہوں نے مقامی  سطح پر اشتہار بھی نکالا تھا اور سارن کے ضلع مجسٹریٹ  کو خط  لکھ کرگزارش کی تھی کہ ضلع میں جتنے بھی ایسے ڈرائیور ہیں، جو گاڑی  کی کمی کی وجہ سے اس کام کو نہیں کر پا رہے ہیں، ان کی فہرست  بناکر بلاتاخیردستیاب کراتے ہوئے انہیں ایمبولینس کے ڈرائیور کے طور پرمقرر کیا جائے۔

روڈی کے پارلیامانی حلقہ واقع  ایک ٹریننگ سینٹر میں کھڑی ان ایمبولینس معاملے میں ان سے ملے چیلنج کا کرارا جواب دیتے ہوئے پپو یادو نے 40 لائسنس ہولڈر ڈرائیور کھڑے کر دیےاور کہا کہ بہار سرکار کوجہاں بھی ایمبولینس ڈرائیور کی ضرورت ہو وہ  لے جائیں۔

اس کے بعد یادو نے ایک اور ویڈیو جاری کر دعویٰ کیا تھا کہ راجیو پرتاپ روڈی کے کے ذریعےایم پی فنڈ سے خریدے گئے ایمبولینس سے بالو ڈھویا جا رہا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس ڈرائیور بھی موجود ہیں۔

حالانکہ اس کے بعد پپو یادو کو پٹنہ میں پولیس نے  پولیس نے مہاماری ایکٹ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے معاملے میں حراست میں لے لیاتھا۔ بعد میں سال1989 کے ایک پرانے زیر التوامعاملے میں جاری وارنٹ پر انہیں عدالتی  حراست میں مدھے پورہ ضلع  بھیج دیا گیاتھا۔

پپویادو کی لاک ڈاؤن کے معاملے میں گرفتاری کی اپوزیشن  ہی نہیں، بلکہ بہار میں مقتدرہ این ڈی اے کے رہنماؤں کے ساتھ صوبے کےوزیروں  نے بھی سخت تنقید کی تھی۔