خبریں

اتر پردیش: یونیورسٹی کے نصاب میں رام دیو اور یوگی آدتیہ ناتھ کی کتابیں شامل

میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے فلاسفی کےنصاب میں رام دیو کی یوگ چکتسا رہسیہ سمیت چنندہ کتابوں کو شامل کیا گیا ہے۔یہ کتاب بیماری سے لڑنے میں یوگ کی اہمیت پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی کتاب ہٹھ یوگ سوروپ ایوں سادھنا بھی نصاب میں شامل کی گئی ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ اور یوگ گرو رام دیو۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

یوگی آدتیہ ناتھ اور یوگ گرو رام دیو۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

نئی دہلی: اتر پردیش کی میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی نے فلاسفی   کے نصاب میں یوگ گرو رام دیو اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی کتابوں کو شامل کیا ہے۔دی  ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، ایسا مانا جا رہا ہے کہ مبینہ  طور پر ریاستی  سرکار کی سفارش کے بعد ان کتابوں کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔

وہیں یونیورسٹی انتظامیہ  نے رام دیو اور یوگی آدتیہ ناتھ کی کتابوں کو یونیورسٹی کے فلاسفی کےنصاب میں شامل کرنے کی تصدیق کی ہے۔

بتا دیں کہ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ریاستی  سرکارکے تحت آتی  ہے۔ یونیورسٹی کے نصاب میں رام دیو کی‘یوگ چکتسا رہسیہ’ سمیت چنندہ کتابوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بیماری سے لڑنے میں یوگ کی اہمیت پر ہے۔

بتا دیں کہ موجودہ وقت میں رام دیو ایلوپیتھی پر دیے گئے اپنے بیان کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ ان کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا جس میں وہ ایلوپیتھی کو اسٹپڈ اور دیوالیہ سائنس بتا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ڈی سی جی آئی کے ذریعے منظور شدہ ریمڈیسور،فیبی فلو جیسی دوائیاں کورونا مریضوں کا علاج کرنے میں ناکام  رہی ہیں۔

ایلوپیتھی کو اسٹپڈ اور دیوالیہ سائنس بتانے پر رام دیو کے خلاف وبائی امراض سے متعلق قانون کے تحت کارروائی کرنے کی ڈاکٹروں کے اعلیٰ ادارے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن(آئی ایم اے)و ڈاکٹروں کے دیگر اداروں کی مانگ کے بعد وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے رام دیو کو ایک خط لکھ کر ان سے گزارش  کی تھی کہ وہ  اپنےلفظ  واپس لے لیں، جس کے بعد رام دیو نے اپنا بیان واپس لے لیا تھا۔

وہیں یوگی آدتیہ ناتھ کی کتاب ‘ہٹھیوگ سوروپ ایوں سادھنا’کو بھی نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی یوگ پر مبنی ہے۔رپورٹ کے مطابق، ان کتابوں کو پلوٹو اور ارسطو کے فلسفہ  کے ساتھ پڑھایا جائےگا۔ یونیورسٹی کے یوگا اسکول آف فلاسفی  میں کئی گرنتھ ہیں، جنہیں کئی قدیم ہندوستانی محققین نے لکھا ہے۔

حالانکہ ابھی یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ کیا سرکار نے ان کتابوں کو نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کی یا نہیں۔یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر وائی وملا نے کہا، ‘ہم نے خود سے یہ فیصلہ نہیں لیا۔ ہمیں ریاستی سرکار سے یہ سفارش ملی تھی، جس کے بعد ہم نے اسے فلاسفی  کے گریجویشن کےنصاب میں شامل کیا۔’

ڈین آف آرٹس نے بتایا کہ وقت کی ضرورت کے مطابق  انہیں نصاب میں شامل کیا گیا۔

شعبہ لسانیات کے ایک پروفیسر نے بتایا کہ ان کےذریعے بشیر بدر، کنور بے چین اور دشینت کمار جیسےترقی پسندشاعروں کو نصاب میں شامل کرنے کافیصلہ ایک طرح سے اس بات کے عوض  میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘انہیں فوراً منظوری دی گئی کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ ہم آدتیہ ناتھ اور رام دیو کی کتابوں کو منظوری نہیں دیں گے۔’

قبل میں مرکز اور اور کئی صوبوں  میں بی جے پی  کی حکومتوں کے ذریعے تعلیم سے متعلق  لیے گئے فیصلوں کی تنقید  ہو چکی ہے۔

سی بی ایس ای نے کووڈ 19 بحران  کے بیچ تعلیمی سال2020-21 کے لیے 11ویں جماعت  کے سیاسیات کے نصاب سے  فیڈرل ازم (وفاقیت)،شہریت، قوم پرستی اور سیکولرازم کے اسباق کو ہٹادیا تھا۔ اس کے علاوہ نصاب سے ‘ہمیں مقامی حکومتوں  کی ضرورت کیوں ہے؟’ اور ‘ہندوستان میں مقامی حکومت کا ارتقا ’جیسے موضوعات  کو بھی ہٹا دیا گیا تھا۔

سال 2019 میں این سی ای آر ٹی نے نصابی  کتاب کے جائزہ  کے تحت9ویں جماعت کی تاریخی  کتابوں  سے تین ابواب  ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ابواب لباس،ذات، کھیل میں غلبہ  اور کسانوں سےمتعلق تھے۔

وہیں2017 میں دی  وائر نے بتایا تھا کہ این سی ای آر ٹی پر 12ویں کی سیاسیات کی کتاب میں گجرات میں مسلم مخالف  فسادات  کے سیاق و سباق  کو بدل کر گجرات فسادات کرنے کا دباؤ تھا۔