فکر و نظر

کووڈ 19: یہ بتانے کی کوشش جاری ہے کہ لوگوں نے جس سانحے کا سامنا کیا اس میں سرکار کا کوئی قصور نہیں

وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے ذریعےیہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ عالمی وبا ہے اور ہر ملک متاثر ہے، اس لیے مودی جی بیچارے کیا کر سکتے ہیں۔ اس نیریٹو سے سرکار کی ناکامی پر پردہ  ڈالنے کی کوشش جاری ہے، جبکہ سچائی یہ ہے کہ دنیا میں کووڈ کی دوسری لہر کا سب سے زیادہ اثر ہندوستان پر ہی پڑا ہے۔ جس ملک  میں صحت عامہ کا نظام مضبوط  ہے، وہاں اس کا اثر نسبتاً کم ہوا۔

وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

کورونا وائرس مہاماری کے دورمیں بھلے ہی تمام یونیورسٹی  بند ہیں، لیکن وہاٹس ایپ یونیورسٹی کی فعالیت  بدستور جاری ہے۔ لوگ بھلے ہی مہاماری سے نمٹنے میں سرکار کی ناکامی اور لاپرواہی پر سوال کھڑے کر رہے ہوں لیکن وہاٹس ایپ یونیورسٹی کا ریسرچ ایک الگ ہی نیریٹو کھڑا کرنے کی کوشش میں ہے۔

پہلا نیریٹو لوگوں کو مثبت بنے رہنے کی سیکھ دینا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس وبا کا ایک نفسیاتی  پہلو بھی ہے، لیکن اس نفسیاتی پہلو کا استعمال سرکار کو بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

اس مہم میں آر ایس ایس چیف سے لےکر تمام خودساختہ باباؤں کو لگا دیا گیا ہے۔ اس مہم کا مقصد لوگوں میں یہ تصور پیدا کرنا ہے کہ کورونا مہاماری کا حل  روحانی  ہے اور جب حل روحانی ہے تو سرکار سے کیوں سوال وجواب کرنا؟

ویکسین اور آکسیجن کو کیوں بیرون ملک بھیجا گیا؟‘وشوگرو’کس طرح کورونا سے اپنے شہریوں کو بچا رہا؟ کیوں مہاماری کے بچاؤ سے متعلق آلات(وینٹی لیٹر،ٹیسٹ کٹ، پی پی ای، آکسیجن کنسنٹریٹر)وغیرہ پر جی ایس ٹی لگایا جا رہا ہے؟ کیوں نہیں اس مہاماری میں ان آلات کو مفت یا بالکل معمولی شرحوں  پردستیاب کرایا جا رہا؟ پی ایم کیئرس فنڈ کے پیسےکس مد میں خرچ کیے گئے؟

ایسے تمام سوال لوگ فیس بک اور ٹوئٹر جیسےسوشل میڈیا سائٹس پر سرکار سے پوچھ رہے ہیں۔ وہاٹس ایپ یونیورسٹی کو یہ امید ہے کہ پازیٹو ان لمٹیڈ جیسے پروگرام کے تحت زیادہ  سے زیادہ سےپیغام فارورڈ کر ایسے سوالوں سے بچا جا سکتا ہے۔

دوسرا نیریٹویہ بتانے کا ہے یہ عالمی  مہاماری ہے اور ہر ملک  متاثر ہے اس لیے مودی جی بیچارے کیا کر سکتے ہیں۔ اس نیریٹو سے سرکار کی ناکامی پر پردہ  ڈالنے کی  ہرممکن کوشش جاری ہے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ دنیا میں کووڈ کی دوسری  لہر کا سب سے زیادہ اثر ہندوستان  پر ہی پڑا ہے۔

اس کے صاف معنی ہیں کہ جس ملک کے صحت عامہ کا نظام مضبوط ہے، وہاں اس وائرس کا اثرنسبتاً کم ہوا۔ جن ممالک نے وقت رہتے اپنے شہریوں کو ویکسین لگوا دیا، وہاں پریشانیاں سنگین نہیں ہوئیں۔ دوسری طرف ہندوستان  میں موت اور انفیکشن  کے اعدادوشمار کو ہی چھپانے کی سرکاری کوشش جاری ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق، کووڈ 19 کی دوسری لہر سے ہندوستان  میں42 لاکھ لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور 70 کروڑ لوگ اس وائرس کی زد میں آچکے ہیں۔ دیش دنیا کی میڈیا وزیر اعظم  مودی کی ناکامی اور لاپرواہی پر سوال کھڑا کر رہا ہے۔ الگ الگ ہائی کورٹ  نے مودی سرکار کے کام کرنے کے طریقوں پر سوال بھی اٹھایا ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، فروری2020کے آخری ہفتے میں جب الیکشن کمیشن نےاسمبلی انتخاب کے لیے تاریخوں کا اعلان کیا تب مغربی بنگال میں کورونا کے روزانہ200 سےکم پازیٹو کیس آ رہے تھے،لیکن آخری مرحلے تک آتےآتے یہ اعدادوشمار ہردن تقریباً900 فیصد بڑھ کر 17500 کے اوپر پہنچ گیا۔ مغربی  بنگال میں 2 مارچ تک ایک بھی شخص کی موت اس وائرس کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی، لیکن 2 مئی یعنی ووٹوں کی گنتی کے دن یہ اعدادوشمار100 کے پار چلا گیا۔

ڈبلیو ایچ او نے تو بڑے مذہبی اورسیاسی انعقاد کو کورونا پھیلانے والے سپراسپریڈر کا نام  تک دے دیا۔ اتنا ہی نہیں بے شمار تیرتی لاشوں نے گنگا کو شوواہنی گنگا میں تبدیل کر دیا۔تیسرا نیریٹو یہ کہ مرکزی حکومت کی کوئی غلطی نہیں، سارا قصور ریاستی سرکاروں کا ہے، جبکہ سچائی یہ ہے کہ مہاماری ایکٹ کے تحت ریاستی  سرکار کا کام نافذ کرنا ہے۔

مودی سرکار کے ذریعےاختیارات کےسینٹرلائزیشن اور صوبوں کو قصور دینا ایک ساتھ نہیں چل سکتا۔ ایک طرف تو مرکزی حکومت ویکسین سرٹیفیکٹ پر وزیر اعظم کی تصویر لگا رہی ہے، وہیں دوسری طرف ویکسین کی دستیابی بڑھانے کے لیے صوبوں کو کھلے بازاروں کے حوالے کر دیا ہے۔

چوتھے نیریٹو کا پروپیگنڈہ یہ ہے کہ یہ دوسری لہر ہے ہی نہیں،یہ تو ہندوستان  پربایولاجیکل حملہ ہے، جبکہ سچائی بالکل الگ ہے۔ حکومت ہند نے کسی بھی سطح پر ایسے کسی بھی حملے کی بات نہیں کی ہے۔ را ءاور انٹلی جنس بیورو سمیت کسی بھی سرکاری ادارے نے اب تک ایسے کسی بھی حملے کے خدشےکا اظہار نہیں کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور ہندوستان سمیت دنیا کے ہیلتھ ایکسپرٹ نے بھی اس طرح کےحملے کے امکانات سے انکار کیا ہے۔

ان سارے جھوٹے اور فرضی پروپیگنڈہ  کے علاوہ  لوگوں کا دھیان بھٹکانے کے لیے ٹوئٹر پر ٹول کٹ کا سہارا بھی لیا گیا۔ ایک ٹول کٹ سے یہ بتانے کی ناکام کوشش کی گئی  کہ کیسے کانگریس پارٹی بی جے پی اور مودی سرکار کو بدنام کر رہی ہے۔

جب ٹوئٹر نے بی جے پی ترجمان سمبت پاترا کے ٹول کٹ والے ٹوئٹ کو مینی پولیٹیڈ میڈیا کا ٹیگ دے دیا یعنی جان بوجھ کرگمراہ کن  ٹوئٹ کے خانے میں رکھ دیا تو مودی سرکار نے ٹوئٹر کو ہی دھمکاتے ہوئے اس کے دفترمیں چھاپہ تک مار دیا۔

ان سب سے بھی رائے عامہ  بدلتا نہ دیکھ ایک نیا شگوفہ چھوڑتے ہوئے آیوروید بنام ایلوپیتھی کا بحث ملک میں کھڑا کر دیا گیا ہے اور اس کام میں رام دیو کو لگا دیا گیا۔

جہاں الزام یہ لگ رہا تھا کہ لوگ بنا علاج کے مر رہے ہیں، وہیں اب بحث یہ کھڑا کرنے کی کوشش ہے کہ لوگ تو ایلوپیتھی علاج کی وجہ سےمر رہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی  اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس وبا میں جہاں سینکڑوں ڈاکٹر نے اپنی جان گنوائی آج انہی ڈاکٹروں کواحتجاجی مظاہرہ کرنا پڑ رہا ہے۔

اتنا ہی نہیں علاج کے الگ الگ طریقوں کو الگ الگ مذاہب سے جوڑکر دکھایا جا رہا ہے جس سے کہ اس مہاماری میں بھی فرقہ وارانہ سیاست  کی جا سکے۔

اس وبا میں مرکز کی مودی سرکار کو اپنے شہریوں  کے سوال کا جواب دینا چاہیے تھا۔صحت کے نظام کو ٹھیک کرنا چاہیے تھا، لیکن سرکار ان سب کے بجائے کسی بھی قیمت پر اپنی امیج بچانے کے کام میں زیادہ سنجیدہ  جان پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سانحے کے بعد بھی عوام سمجھ پائےگی کہ اس کی جان کی قیمت ووٹ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی  کے شری وینکٹیشور کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)