فکر و نظر

کھوکھلے ترقیاتی ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی جزائر لکش دیپ نشانے پر

قابل ذکر ہے کہ36 جزائر پر مشتمل لکش دیپ میں2011کی مردم شماری کے مطابق  64429نفوس رہتے ہیں اور ان میں 96فیصد مسلمان ہیں۔ کیرالا کے ساحل سے تقریباً400کیلومیٹر دور سمندر میں پھیلے ہوئے یہ جزائر زبان، ثقافت اور رہن سہن کے اعتبار سے اسی ریاست کا حصہ لگتے ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

ہندوستان  کے جنوبی صوبہ کیرالا اور خلیج عدن کے درمیان بحیرہ عرب کے نقشے کو اگر زوم کرکے غور سے دیکھا جائے، تو موتیوں کی ایک مالا بکھری ہوئی نظر آئےگی، جو جزائر لکش دیپ ہیں۔ ان جزائر کے باسی آج کل انتہائی اضطراب میں ہیں۔

کشمیریوں کی طرح ان کا بھی قصور بس اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور ہندوستان  کے موجودہ ہندو قوم پرست حکمرانوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتے ہیں۔ جس طرح 5اگست 2019کو وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وہاں آبادیاتی تناسب کو بگاڑنے کی راہ ہموار کی۔

بالکل اسی طرح حال ہی میں مرکز کے زیر انتظا م والے جزائر لکش دیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل کھوڑا پٹیل نے ان جزائر کی ترقی کے نام پر کئی ایسے اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن سے ان کے آبادیاتی تناسب کو بگاڑنے اور مقامی آبادی کو اپنے ہی علاقے میں بیگانہ کرنے کی سازش کی بو آتی ہے۔

پٹیل کا سیاسی کیریئر متنازعہ رہا ہے۔ فروری2021 میں دادرا اور نگر حویلی سے سات بار ممبر آف پارلیامنٹ رہے موہن ڈیلکر نے ممبئی کے ایک ہوٹل میں خودکشی کرلی تھی۔ اپنے خودکشی نوٹ میں انہوں نے پرفل پٹیل کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔

موہن ڈیلکر کی موت کے بعد ان کے بیٹے ابھینو نے ممبئی میں پرفل پٹیل کے خلاف ایف آئی آر درج کراتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ پٹیل نے ان کے باپ سے پچیس کروڑ کی رشوت مانگی تھی، نہ دینے کی صورت میں جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی دھمکی دی تھی۔ اسی ذہنی دباؤ کی وجہ سے ڈیلکر نے خودکشی کرلی۔

قابل ذکر ہے کہ36 جزائر پر مشتمل لکش دیپ میں2011کی مردم شماری کے مطابق  64429نفوس رہتے ہیں اور ان میں 96فیصد مسلمان ہے۔ کیرالا کے ساحل سے تقریباً400کیلومیٹر دور سمندر میں پھیلے ہوئے یہ جزائر زبان، ثقافت اور رہن سہن کے اعتبار سے اسی ریاست کا حصہ لگتے ہیں۔ 1947تک برطانوی عملداری میں مدراس پریزیڈنسی ان کو کنٹرول کرتی تھی۔

یہ علاقہ ٹیپو سلطان کی مملکت میں شامل تھا اور ان کی موت کے بعد برطانیہ کے قبضے میں آ گیا تھا۔ آزادی کے بعداس خدشہ کے پیش نظر کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ کہیں پاکستان میں شامل نہ ہوجائے، ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے بحریہ کو فی الفور ان جزائر کا کنٹرول حاصل کرنے کا حکم دے دیا۔

بتایا جاتا ہے کہ چند روز بعد پاکستانی بحریہ اس علاقے میں پہنچی تھی، مگر تب تک ہندوستانی افواج نے اس کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ ان کی ثقافت،مذہبی و نسلی شناخت و ان کی زمین و جائیدادوں کی حفاظت کے لے جزائر کے باشندوں کو شیڈیولڈ ٹرائب یعنی درج فہرست قبائلیوں کے زمرے میں رکھا گیا۔ 1971تک پاکستانی بحری جہازوں کو مشرقی بازو (بنگلہ دیش)کی طرف سفر کرتے ہوئے ان ہی جزائر کے پاس سے ہوکر گزرنا پڑتا تھا۔

چونکہ یہ جزائر ہندوستان کے ساحلوں کی طرف آتے ہوئے عرب تاجروں کی راہ میں پڑتے تھے، اس لیے لگتا ہے کہ یہ ان کا پڑاؤ ہوتا تھا۔ ان جزائر میں بھی اسلام کی تبلیغ کیرالا ہی کی طرح پیغمبر محمدکے دور ہی میں ہوئی ہے۔

ہندوستان کے ایک معمر سیاستدان پی ایم سعید ان ہی جزائر سے تعلق رکھتے تھے اور 1962سے 2004تک لگاتار دس مرتبہ لوک سبھا یعنی ایوان زیریں کے لیے منتخب ہوتے آرہے تھے۔ ان کی اس کامیابی پر 2004میں بریک لگ گئے، جب ایک مقامی ڈاکٹر نے ان کو 74ووٹوں کے فرق سے ہرایا۔ چونکہ کانگریس مرکز میں برسراقتدار آگئی تھی، اس لیےان کو راجیہ سبھا یا ایوان بالا میں نامزد کرکے مرکزی وزیر مقرر کیا گیا۔مگر ایک سال بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔

سال 1998سے 2004تک وہ لوک سبھا کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے کئی بار دہلی کے صحافیوں کو ان جزائر کا دورہ کرایا اور ان کو سیاحتی نقشہ پر لانے کی جستجو کی۔ کئی بار انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ ان جزائرپر لے جانے کی پیشکش کی۔

مگر ہر بار کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آتی تھی۔ 2006میں جب پینگوئن نے میری جیل کی سرگزشت My Days in Prison کے نام سے شائع کی، تو اس کا پہلا ترجمہ ملیالم زبان میں منظر عام پر آیا۔

ملیالم زبان کے ناشر نے اس کی رونمائی کے لیےکیرالا مدعو کیا اور تقریباً ہر ضلع اور شہر میں پروگراموں کا انعقاد کیا تھا۔ صوبہ کے اقتصادی دارالحکومت کوچی کی تقریب میں میرے تہاڑ جیل کے زمانے کے سپرنٹنڈنٹ  اے کے کوشل بھی موجود تھے۔

معلوم ہوا کہ وہ اس وقت لکش دیپ جزائر کے ایڈمنسٹریٹر مقرر ہو گئے تھے اور وہاں جانے کے لیے ہی کوچی آئے تھے، کیونکہ ان جزائر کو جانے کے لیے فلائٹ یا بحری جہاز کوچی سے ہی روانہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے لکش دیپ آنے کے لیے خاصا اصرار کیا اور میرے ہاتھ میں اجازت نامہ بھی تھما دیا۔ شاید ان کی جیل سپرنٹنڈنٹی کے زمانے میں میرے ساتھ جو کچھ بیتی تھی، وہ اس کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔

خیر کئی رو ز کے بعد کوچی سے فلائٹ لےکر میں ان جزائر کی طرف روانہ ہوگیا۔ 60سیٹوں والا چھوٹا سا جہاز بحیرہ عرب کے پانیوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آگاتی جزیرہ پر موجود واحد ایئر پورٹ پر اترا۔صاف و شفاف پانیوں، سفید نرم ریتیلے ساحل اور  ناریل کے درختوں سے گھرے یہ جزائر موتی کے دانے لگتے تھے۔

معلوم ہوا کہ باقی دنیا سے رابطہ کے لیے بس یہ واحد فلائٹ روز لینڈ کرتی ہے اور ہفتے میں ایک بار کوچی سے بحری جہاز مسافروں کو لانے لےجانے اور ساز و سامان کے ساتھ وارد ہوتا ہے۔ 36جزائر میں بس 10میں ہی آبادی ہے۔ پانچ جزائر تو سیاحوں کے لیے بند ہیں، کیونکہ ان میں بحریہ کے اڈے ہیں۔ ایک غیر آباد جزیرے بانگارام میں غیر ملکی سیاحوں کے لیے ریزورٹس کا انتظام ہے۔ یہ واحد جزیرہ ہے جہان شراب نوشی کی اجازت ہے۔

گرم موسم مگر خوشگوار ہوا ماحول کو محسور کن بنا دیتی ہے۔ ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں یہ واحد جگہ ہے، جہاں تہہ در تہہ رنگا رنگ مونگے یعنی مرجان کے چٹانوں کے سلسلہ موجود ہیں۔ سمندر کا پانی اتنا شفاف کہ مٹر کا دانہ بھی گر جائے تو تہہ میں نظر آجائےگا۔ جزیرہ پر بڑے ریستوراں یا ہوٹل موجود تو نہیں ہیں، مگر کوٹیج اور خیموں میں رہنے کے انتظامات ہیں اور مقامی آبادی بھی سیاحوں کے لیے گھروں کے دروازے کھول کر ان کی میزبانی کرتے ہیں۔

 بحری جہاز  ایم وی ٹیپو سلطان میں بھی رہائش کا انتظام ہے اور وہ دیگر جزائر کی سیر بھی کراتا ہے۔ مقامی آبادی میں بہت زیادہ امارت تو نہیں ہے، مگر غربت بھی نہیں ہے۔ دیگر علاقوں کی طرح ہی سماج میں طبقاتی نظا م ہے، جس میں کویا، زمیندار یا ناریل کے باغات کے مالکان ہیں، مالمی جہازوں پر ملاح اور کشتی بانی کا کام کرتے ہیں۔

ان 36جزائر کا آپس میں رابطہ اسی کمیونٹی کی مرہون منت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بہترین ملاح ہوتے ہیں اور سمندر کے نبض شناس ہیں۔ ملاچاری کمیونٹی تو بے زمین مزدور ہیں، مگر ناریل کے اونچے پیڑوں سے ناریل توڑ کر لانے میں ان کو مہارت حاصل ہے، نیز ان جزائر کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی یعنی ناریل کے ریشوں سے بنائے جانے والی اشیاء ان کے ہی کاریگر ہاتھوں سے تیار ہوتی ہیں۔

مسجدیں بھی خاصی آباد رہتی ہیں، مگر خواتین مردوں کے دوش بدوش کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔بتایا گیا کہ منی کوائے جزیرہ پر ایک کمیونٹی میں خاتون یعنی دلہن ہی بارات لےکر دلہے کے گھر پہنچتی ہے اور مرد کو اپنے گھر لاتی ہے۔

نئے  ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل جو گجرات میں مودی کے وزارت اعلیٰ کے دوران وزیر داخلہ رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ ان جزائر میں پچھلی کئی دہائیوں سے ترقی نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے سیاحوں کو کھینچنے کے لیےسبھی جزائر میں شراب نوشی کی اجازت ہوگی۔ اب ان سےکوئی پوچھے ان کے اپنے صوبہ گجرات اور صوبہ بہار میں شراب نوشی کی کیوں ممانعت ہے؟

ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل،فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل،فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

  ترقی اگر شراب سے ہی ہوتی ہےتو گجرات اور بہار میں بھی شراب بندی ختم کرنی چاہیے۔

اس کے علاوہ گائے کے گوشت کی خرید و فروخت اور کہیں لانے لے جانے پر پابندی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں، دو سے زائد بچوں کے والدین کے پنچایت الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی، غنڈہ ایکٹ کا نفا ذ اور ترقی کے نام پر کسی کی بھی زمین حاصل کر لینے سے متعلق اعلانات شامل ہیں۔

درج فہرست قبائلی علاقہ کا درجہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک باہر کے لوگ ان جزائر پر زمینوں کی خرید و فرخت نہیں کر سکتے تھے۔ لکش دیپ کے رکن پارلیامان محمد فیصل کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون میں مقامی نمائندوں کوکسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہو گا بلکہ سارے اختیارات صرف ایک شخص کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔

ایڈمنسٹریٹر کے فیصلوں کی کوئی مخالفت نہ ہو، اس کے لیے عام لوگوں کو گرفتار کر لینے کے ایک نئے سخت قانون کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے تحت کسی بھی شخص کو اس کے خلاف عدالتی سماعت کے بغیر ایک برس تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

ایسی جگہ جہاں خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جرائم برائے نام ہیں،جیل خالی ہے،  وہاں ایسے سخت قانون کی کیا ضرورت ہے؟پڑوس کے صوبہ کیرالہ کی طرح ہی گائے کا گوشت یہاں کی آبادی کی اہم خوراک ہے۔ اگر گائے اتنی ہی مقدس ہے، تو کیرالا، اور شمال مشرقی ریاستوں، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی خود حکمران ہے، گائے کے گوشت پر پابندی کیوں نہیں لگاتی ہے؟

نئے قانون لکش دیپ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن کی رو سے مقامی مسلمانوں کی زمینیں ہتھیانے اور سرکاری انتظامیہ کو گاؤں بسانے یا دیگر ترقیاتی کاموں کے نام پر یہ اختیار ہوگا کہ، وہ زمین کے اصلی مالکان کو ان کی زمین سے بے دخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں۔

اس طرح باہری لوگوں کو لکش دیپ میں قابض ہونے اور ان کو بسانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔  نباتات اور حیوانات سے مالا مال اور اپنی مخصوص ثقافت اور ورثہ رکھنے والے ان جزائر کو ایک کھوکھلے ترقیاتی ایجنڈے کے تحت زیر کیا جا رہا ہے۔کشمیر ہی کی طرح ان جزائر کی مسلم اکثریتی شناخت پر وار کرکے اس کو ہندو استھان کے بطور پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

اور بتایا جاتا ہے کہ ان جزائر کا نام ہندو اساطیری کہانی رامائن کے ہیرو بھگوان رام کے چھوٹے بھائی لکشمن کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جبکہ لکش دیپ لاکھ اور دیپ یعنی جزیرہ کا مخفف ہے۔ کشمیر اور آسام کے بعد اب لکش دیپ میں مسلم آبادی کو  ہدف کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ ہندو قوم پرست منظم انداز میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کررہے ہیں، تاکہ راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے فاشزم کے فلسفہ کو عملی جامہ پہنا کر ہندوستان  کو ایک ہندو ریاست بنانے کے ایجنڈے کو تیز کیا جاسکے۔