فکر و نظر

سینٹرل وسٹا: مودی کی ضد نے ملک کی تہذیب و ثقافت کو ملبے میں تبدیل کر دیا

دہلی کی ثقافت و تہذیب ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہوکر ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح ملیا میٹ ہو رہی ہے، جو شاید نادر شاہ یاتیمور لنگ کے حملوں کے وقت بھی نہ ہوئی ہو۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

 ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں فنون لطیفہ اوردستاویزات کے شیدائیوں کے لیے اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار آرٹ، نیشنل آرکائیوزاور نیشنل میوزیم کی شاندار عمارات و اس کے وسیع و عریض احاطے کسی جنت سے کم نہیں تھے۔ ان کا وجود میرے لیے بھی ایک نعمت تھی۔

یہ تینوں عمارتیں دہلی کے وقار میں اضافہ کرتی تھیں اور ان ہی کی وجہ سے میں بھی بطور دہلی کے مکین ہونے کے ناطے فخرمحسوس کرتی تھی۔ نیشنل آرکائیوز میں تو پورے جنوبی ایشیاء کی تاریخ سمیٹی ہوئی ہے۔خلجی، تغلق، پٹھان، مغل اور برطانوی دور حکومت کے تمام تر دستاویزات اور فرامین یہاں محفوظ ہیں اور محققین کی راہ دیکھتے رہتے ہیں۔

مگر اس وقت جب دہلی میں کوروناوائرس کی وبا  نے پوری آبادی کو ہراساں کیا ہوا ہے اور اموات کی وجہ سے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، بالکل اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے نیادارالحکومت اور نئے سرکاری دفاتر و رہائش گاہیں بنانے کی ضد نے اس شہر کی روح کوزخمی کرکے رکھ دیا ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

دہلی کا وسطی علاقہ، یعنی پارلیامنٹ ہاؤس سے انڈیا گیٹ تک اس وقت جیسے کوئی جنگ زدہ علاقہ لگتا ہے۔ ہر طرف کھدائی، اور بڑے بڑے گڈھے۔ نیا شہربسانے کے نام پر اندرا گاندھی نیشنل سینٹر آرٹ،نیشنل آرکائیوز اور نیشنل میوزیم سمیت کئی عمارات ڈھائی جا رہی ہیں۔

دہلی کی ثقافت و تہذیب ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہوکر ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح ملیا میٹ ہو رہی ہے، جو شاید نادر شاہ یاتیمور لنگ کے حملوں کے وقت بھی نہ ہوئی ہو۔ہندوستان کے افسرشاہی نظام میں، ایک اسکول یا اسپتال بنانے کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے میں ماہ و سال لگ جاتے ہی۔ مگر تین کیلومیٹر پر محیط اور 200 بلین روپے کی لاگت والے اس پروجیکٹ کو بس چند روز میں ہی پاس کیا گیا۔

ایسے وقت میں جب طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے لوگ وبا سے ہلاک ہو رہے ہیں، حکومت کی نیا دارالحکومت بنانے کی ترجیح سے عوام بے حال ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران بھی اس منصوبہ پر کام زور و شور سے جاری ہے۔اس سائٹ پر روزانہ 300 سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں جو سپرا سپریڈر ہوسکتے ہیں اور ان کو لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔

فوٹوبہ شکریہ، ریختہ /ٹوئٹڑ

فوٹوبہ شکریہ، ریختہ /ٹوئٹڑ

اس آرٹ سینٹر کے ساتھ میری کئی یادیں وابستہ ہیں۔کبھی اس کے وسیع و عریض احاطہ میں ریختہ فاؤنڈیشن کی طرف سے جشن اردو برپا ہوتا تھا توکبھی دور دراز کے صوبوں یا علاقوں کے رقص و موسیقی کا پروگرام منعقد ہوتا تھا۔کبھی مشاعرہ تو کبھی کوی سمیلن۔ غرض آرٹ اور کلچر کے دیوانوں کے لیے یہ کسی آستانے سے کم نہیں تھا۔ اس سینٹر نے مجھے ہندوستان کے مسحورکن ثقافتی تنوع کو سمجھنے اوراس کی قدردانی سکھائی، جوفی الوقت اضطراب کا شکار ہے۔

فنون لطیفہ کے دیوانوں کے لیے اس احاطہ میں وقت جیسے تھم جاتا تھا۔ اس کی لائبریری میں تقریباً تین لاکھ سے زیادہ کتب موجود  تھیں۔سامنے نمائش گاہ،جہاں ہر وقت ملک کے کسی نہ کسی گوشے کے کسی مصور کے شہ پاروں کی نمائش لگی ہوتی تھی۔ اس کے متصل آڈیٹوریم، جہاں آرٹ و کلچر سے وابستہ کسی شخصیت کےلیکچر سے آپ محفوظ ہوسکتے تھے۔

اس کی ریفرنس لائبریری میں آچاریہ ڈاکٹر ہزارہ پرساد دویدی، اور کرشنا کرپلانی جیسے ممتاز شہریوں کا ذاتی ذخیرہ موجود تھا۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کی بے حسی اور ضد کی وجہ سے یہ جگہ اب تاریخ بن رہی ہے اوراس کےذخیروں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ مؤرخین و آرٹ اور کلچر کے شیدائی، اس اہم جگہ کے ضائع ہونے پر ہلکان ہیں۔

تقسیم سے قبل کے پنجاب اور سکھ ازم  کے موضوع پر جب میں تحقیق کر رہی تھی تو مجھے اکثر نیشنل آرکائیوز جانا پڑتا تھا۔ یہ پورے جنوبی ایشیاء کی تاریخ کے علاوہ نایاب اور انمول میراث کو سمیٹے ہوئے ہے۔ 1947میں برصغیرکی تقسیم کے وقت نئی مملکتوں ہندوستان اور پاکستان کی افسر شاہی نے دفتری فرنیچر،خزانہ، فوج ودیگر ساز سامان کو آپس میں بانٹ تو لیا، مگر کتب اور آرکائیوز کابٹوارہ نہیں ہوا۔ اسی لیے آرکائیوز سے متعلق تمام دستاویزات ہندوستان میں ہی رہی۔

 نیشنل آرکائیوز، فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

نیشنل آرکائیوز، فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

مثال کے طور مغلیہ دور پر تحقیق کرنے والے کسی بھی محقق کو اگر شہنشاہ اکبر یا کسی دیگر فرمانروا  کے کسی تحریری فرمان کا مطالعہ کرنا ہو تو وہ اسی بلڈنگ میں موجود ہے۔ برطانوی دور کے جاسوسوں کی رپورٹیں، اس بلڈنگ کے خزانے میں موجود ہیں۔ نیشنل آرکائیوز کے دہلی میں موجود ہونے اور اس کو1947کے بٹوارہ کی مار سے بچانے کی وجہ سے بھارت میں ہمیشہ، پاکستان اور بنگلہ دیش کی نسبت بہتر مؤرخ پیدا ہوئے ہیں۔

چند برس قبل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آبادمیں موجود قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے  مجھے بتایا کہ ہندوستانی حکومت، پاکستانی یا بنگلہ دیش کے محققین یا مؤرخین کو اس آرکائیوز سے مستفید ہونےکی اجازت نہیں دیتی ہے۔ پہلے تو مجھے لگا کہ پروفیسر صاحب کسی پروپیگنڈہ کا شکارہوگئے ہیں۔

ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان ممالک کے محققین کو اس مشترکہ وراثت سے دوررکھا جائے۔ مگر دہلی واپس آکر معلوم ہو اکہ یہ بالکل سچ ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے محققین اپنی تاریخ کے ماخذ اور اصل اور بنیادی دستاویزات کے مطالعہ اور ان پراپنی رائے قائم کرنے کے حق سے پچھلے 75سالوں سے محروم ہیں۔

زیادہ حیرت تو اس پر ہوئی کہ ابھی تک کسی نے اس پر آوا زبھی نہیں اٹھائی ہے اور بنگلہ دیش یا پاکستان کے وزراء اعظم یا دیگر حکمرانوں یاافسران نے اس کو کبھی ہندوستان کے ساتھ گفت و شنید کا بھی موضوع نہیں بنایا ہے۔ صرف ایک بار پاکستانی اخبار ڈیلی ٹائمز کے دہلی کے نمائندے نے ہندوستان  اور پاکستان کےافسران کی ایک میٹنگ کے حوالے سے اس موضوع  کو اٹھایا تھا بعد میں مگر کسی نے بھی اس کو فالو نہیں کیا۔

اسی طرح کا خزانہ نیشنل میوزیم میں بھی موجود ہے۔ چندبرس قبل یہاں کوڑی سے کریڈٹ کارڈ تک پر ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دریائےسندھ کی تہذیب سے لے کر اب تک کی کرنسی کا سفر اس نمائش میں دکھایا گیا تھا۔ یہ تصور کرنا  ہی مشکل تھا کہ ایک ہی چھت کے نیچے کرنسی کی تاریخ کا اس قدر نایاب خزانہ موجود ہوسکتا ہے۔ تب ایک افسر نے مجھے بتایا کہ یہ تو صرف ان کےپاس موجود خزانہ کا صرف 20 فیصد ہے۔

نیشنل میوزیم

نیشنل میوزیم

ماہرین کا کہنا ہے کہ عجائب گھر یا آرکائیو کی منتقلی خاصا پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لیے برسوں کی محنت اور منصوبہ بندی کی  ضرورت ہوتی ہے۔ اس بیش قیمتی وراثت کو صندوقوں میں بھر کر اندھیری کوٹھریوں میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ انہیں انتہائی احتیاط کے ساتھ سنبھالنا پڑتا ہے تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ ہو۔ مزید یہ کہ منتقلی سے قبل نئی سائٹ بھی تیار ہونی چاہیے۔

ان تین عمارتوں کے علاوہ، آٹھ دیگر عمارات، جن میں سے زیادہ تر آزادی کے بعد تیار کی گئی تھیں، کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے تاکہ وزیر اعظم مودی کے لیے محل اور نئے سرکاری دفاتر تعمیر کرائے جائیں۔ ہندوستان  کے پہلے وزیر تعلیم اور مجاہد آزادی مولاناابوالکام آزاد کی دہلی کی رہائش گاہ کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے۔

دیگر عمارات جوگرائی جا رہی ہیں، اتفاقاً کسی نہ کسی صورت میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور نہرو کے لیے مودی کی ناپسندیدگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔نہرو کے ساتھ یہ نفرت کس قدر شدید ہے کہ ہندوستانی  وزارت خارجہ کا صدر دفترجو نہرو بھون کے نام سے جانا جاتا ہے اور بس دس سال قبل ہی تعمیر ہوا  اورجدید فن تعمیر کا ایک شاہکار مانا جاتا ہے، اس کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے۔ اس سےزیادہ ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے۔

کہتے ہیں کہ آمروں کو آرٹ اور کلچر راس نہیں آتاہے،کیونکہ ان کے ذریعے کسی نہ کسی صورت میں اظہار رائے اور موجودہ حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی بھی حکمران نے دہلی کی از سر نو تعمیر کی ہے، اس کو اس میں بعد میں بیٹھنا نصبیب نہیں ہوا ہے۔ ما قبل تاریخ اس شہر کو اندر پرستھ کے نام سے پانڈوں کے سردار یڈھشٹر نے بسایا۔ یہ شہر آج کے چڑیا گھر اور شیر شاہ سوری کے بنائے گئے پرانے قلعہ کے پاس ہے۔

مگر پانڈوں کو اس شہر میں رہنا نصیب نہیں ہوا۔ نہ صرف وہ ملک بدر ہوگئے، بلکہ انہوں نے جوئے میں اپنی مشترکہ بیوی دروپدی کوبھی کھو دیا۔ یہی کچھ واقعات بعد میں پرتھوی راج چوہان،  علاءالدین خلجی،فیروز شاہ تغلق،شیر شاہ سوری، شاہجہان اور بعد میں برطانوی حکمرانوں کے ساتھ پیش آئے۔

مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں آٹھ بار جن حکمرانوں دہلی کو ازسر نوتعمیر کرایا، انہوں نے پرا نا شہر مسمار نہیں کیا۔ دہلی یونیورسٹی کے تاریخ کےپروفیسر سری رام اوبرائے نے مجھے  بتایا کہ دہلی میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہےوہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ جو قومیں اپنی تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کرتی ہیں، وہ نیست و نابود ہوجاتی ہیں۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)