خبریں

سپریم کورٹ نے صحافی ونود دوا کے خلاف سیڈیشن کے معاملے کو خارج کیا

بی جے پی رہنما اجئے شیام نے ہماچل پردیش کے شملہ ضلع کے کمارسین تھانے میں پچھلے سال ونود دوا کے خلاف سیڈیشن سمیت مختلف دفعات میں کیس درج کرایا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ونود دوا نے اپنے یوٹیوب پروگرام  میں وزیر اعظم  پرالزام لگائے تھے کہ انہوں نے ووٹ لینے کے لیے‘موتوں اور دہشت گردانہ حملوں’کا استعمال کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حال ہی میں کہا ہے کہ میڈیا کے تناظر میں سیڈیشن قانون کی حدیں طے کرنے کی ضرورت ہے۔

ونود دوا ، فوٹو: دی وائر

ونود دوا ، فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے صحافی ونود دوا کے ایک یوٹیوب پروگرام  کو لےکر ان کے خلاف سیڈیشن کے الزام میں ہماچل پردیش کے ایک مقامی بی جے پی رہنما کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آرکو رد کر دیا۔

حالانکہ جسٹس یویو للت اور جسٹس ونیت سرن کی بنچ نے دوا کی اس درخواست کو خارج کر دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جب تک ایک کمیٹی  اجازت  نہیں دے دیتی، تب تک صحافت  کا 10 سال سے زیادہ  کا تجربہ  رکھنے والے کسی میڈیااہلکار کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہ کی جائے۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق کورٹ نے کہا، ‘ہرصحافی کیدار ناتھ سنگھ معاملے (جس نے آئی پی سی کی دفعہ ا 124اے کے تحت سیڈیشن کے جرم  کے دائرے کی تعریف  کی تھی)کےتحت تحفظ  کا حقدار ہے۔’

کیدار ناتھ سنگھ (1962)کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے واضح کیا تھا کہ ‘مبینہ سیڈیشن والے خطاب اور اظہارکے لیےکسی  کو تبھی سزادی  جا سکتی ہے، جب وہ بیان‘اکسانے والا’‘تشدد’یا‘عوامی نظم ونسق ’ کے لیے نقصان پہنچانے والا ہو۔

عدالت نے پچھلے سال 20 جولائی کو معاملے میں کسی بھی کارروائی سے دوا کو دیے گئے تحفظ کو اگلے حکم  تک بڑھا دیا تھا۔عدالت نے پہلے کہا تھا کہ دوا کو معاملے کے سلسلے میں ہماچل پردیش پولیس کی جانب سے پوچھے گئے کسی بھی ضمنی سوال کا جواب  دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس معاملے کو لےکرسینئرصحافی ونود دوا نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ ،سرکار کی تنقید تب تک سیڈیشن نہیں ہے، جب تک وہ تشدد  کی وجہ نہ بنے۔انہوں نے کہا تھاکہ اگر میں وزیر اعظم  کی تنقید کرتا ہوں تو یہ سرکار کی تنقیدکے دائرے میں نہیں آتا۔

دوا کی جانب  سے ان کے معاملے کی پیروی کر رہے وکیل وکاس سنگھ نے سپریم کورٹ کے 1962 کے کیدارناتھ معاملے کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایک شہری  ہونے کے ناطے یہ دوا کاحق تھا کہ وہ سرکار کے بارے میں جو بھی کہنا چاہتے ہیں، اسے کہہ یا لکھ سکتے ہیں۔ سرکار کی تنقید یا اس پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔

سنگھ نے کہا تھاکہ حالانکہ سرکار کی تنقید یا اس پرتبصرہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس سے لوگ سرکار کے خلاف کسی طرح کے تشدد کے لیے راغب نہ ہوں۔سنگھ نے کہاتھا، ‘اگر ہمارے پریس کو آزادانہ طورپرکام کاج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو صحیح معنوں میں ہماری جمہوریت خطرے میں ہے۔’

 انہوں نے کہا تھاکہ دوا کو آئی پی سی  کی دفعہ505(2)اور 153اے کے تحت لگائے گئے الزامات کے لیے قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ انہوں نے صحافی  کے طورپر کسی مذہب، نسل، زبان، علاقائی گروپ یا کمیونٹی  کے خلاف کچھ نہیں کیا ہے۔

ونود دوا نے عدالت  سے مانگ کی تھی کہ ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو خارج کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ہراساں کرنے کے لیے نقصان کی بھرپائی کی جائے۔

انہوں نے یہ بھی مانگ کی تھی کہ ہائی کورٹ کےچیف جسٹس یا سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کیے گئے جج، اپوزیشن کے رہنما اور وزیر داخلہ کی رکنیت  میں ایک کمیٹی کی تشکیل ہو، جس کی ہدایت کے بنا 10سال  سے زیادہ  کے تجربہ  والے صحافیوں  کے خلاف سیڈیشن  کا مقدمہ درج نہ ہو۔

حالانکہ کورٹ نے صحافی  کی اس مانگ کو خارج کر دیا۔دوا نے کہا تھا، ‘میڈیا کے خلاف ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے، جہاں ریاستی  سرکاریں اپنے سیاسی نظریات سے میل نہیں کھانے والے بالخصوص نشریاتی مواد کو لےکر میڈیا کے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کراتی ہیں، جو خاص طور پر انہیں ہراساں  کرنے کے لیے اور انہیں ڈرانے کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ سرکار کےسامنے جھک جائیں یا پولیس کی کارروائی کا سامنا کریں۔’

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کارروائی بنیادی حقوق کی  صریح خلاف ورزی  ہے۔

معلوم ہو کہ بی جے پی رہنما اجئے شیام نے ہماچل پردیش کے شملہ ضلع کے کمارسین تھانے میں پچھلے سال چھ مئی کو سیڈیشن، عوامی طورپر تشدد برپا کرنے، ہتک آمیز مواد چھاپنے وغیرہ کے الزام  میں آئی پی سی  کی مختلف دفعات  کے تحت دوا کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی اور صحافی  کو جانچ میں شامل ہونے کو کہا گیا تھا۔

شیام نے الزام لگایا تھا کہ دوا نے اپنے یوٹیوب پروگرام  میں وزیر اعظم  پر کچھ الزام لگائے تھے کہ انہوں نے ووٹ لینے کے لیے ‘موتوں اور دہشت گردانہ  حملوں’ کا استعمال کیا ہے۔سپریم کورٹ نے حال ہی میں کہا ہے کہ میڈیا کے تناظر میں سیڈیشن قانون پر غور وخوض  کرنے اور اس کی حدیں طے کرنے کی ضرورت ہے۔

آندھرا پردیش کے دو تیلگو نیوز چینلوں کے خلاف درج سیڈیشن کے معاملے میں کسی بھی کارروائی پر روک لگاتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وہ ااظہار رائے کی آزادی اور میڈیا کے حقوق  کے تناظر میں سیڈیشن قانون کی تشریح  کاتجزیہ  کرےگی۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)