خبریں

ڈائل 100 پر کال کرنے کے لیے پولیس نے مبینہ طور پر مسلم نوجوان کی بے رحمی سے پٹائی کی

گزشتہ مئی میں جنوبی دہلی کے چھترپور علاقے کے رہنے والے وسیم خان نے پڑوس میں ہو رہی لڑائی کو دیکھ کر پولیس ہیلپ لائن پر کال کرکے مدد مانگی تھی۔ پولیس نے اس لڑائی کے سلسلے میں بیان دینے کے لیے انہیں تھانے میں بلایا تھا۔الزام ہے کہ انہیں بےرحمی سے پیٹا گیا۔ وسیم کی کمر میں شدید چوٹ آئی ہے، جس کی وجہ سے وہ فی الحال بستر پر ہیں اور مشکل سے چل پھر پا رہے ہیں۔

متاثرہ نوجوان وسیم خان۔

متاثرہ نوجوان وسیم خان۔

نئی دہلی: دہلی پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرنے کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کے ذریعے ایک مسلم نوجوان کو بےرحمی سے پیٹنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔جنوبی دہلی کے چھترپور علاقے کے رہنے والے 29سالہ  وسیم خان کا الزام ہے کہ ان کے پڑوس میں ہو رہی مارپیٹ کو دیکھ کر دہلی پولیس کے 100 نمبر پر کال کرنے کی وجہ سےانہیں پولیس اہلکاروں کے ذریعے پیٹا گیا، جس کی وجہ سے وہ فی الحال نازک حالت میں ہیں۔

خان کی کمر میں شدیدچوٹ آئی ہے، جس کی وجہ سے وہ بیڈ پر پڑے ہوئے ہیں اور باتھ روم بھی مشکل سے ہی جا پاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ18 مئی کی رات میں ٖفتح پور بیری پولیس اسٹیشن میں انہیں پڑوس میں ہوئی مارپیٹ کو لےکر بیان دینے کے لیے بلایا گیا تھا، اسی دوران تین پولیس اہلکاروں  نے انہیں پیٹا تھا۔

خان کے چچا احمد علی، جو کہ چھترپور کے چندن ہلا علاقے میں رہتے ہیں، نے کہا کہ 17 مئی کو تقریباً نو بجے دو بھائیوں کے بیچ لڑائی ہو گئی تھی۔ دھیرے دھیرے معاملہ بڑھتا گیا اور دونوں طرف سے پتھربازی بھی ہونے لگی۔ اسی دوران میرےساتھ کئی لوگوں نے پولیس کے 100 نمبر پر کال کرنے کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پولیس جائے وقوع پرتقریباً10 بجے پہنچی اور معاملے کورفع دفع  کرایا گیا۔علی نے بتایا کہ اسی معاملے کو لےکر اسی رات تقریباً11:30بجے کےقریب پولیس وسیم خان کے گھر پہنچی اور کہا کہ بطور عینی شاہد بیان دینے کے لیے انہیں تھانے چلنا پڑےگا۔

پولیس نے خان سمیت کل چھ لوگوں کو بلایا، جس میں سے تین لوگوں نے 100 نمبر پر کال کیا تھا۔وسیم خان کا الزام ہے کہ جب وہ ٖفتح پور بیری پولیس اسٹیشن پہنچے تو سب سے پہلے پولیس نے ان کا فون چھین لیا اور تین یا چار پولیس والے انہیں ایک الگ کمرے میں لے جاکر پیٹنے لگے۔

انہوں نے د ی وائر سے کہا، ‘انہوں نے مجھے لاٹھیوں سے پیٹا۔ سب انسپکٹر ستیندر گلیا نے مجھے اپنی کہنی سے مارا اور پیٹھ پر لاٹھی سے مارتے رہے۔ اس میں دو اور پروین اور جتیندر تھے، جنہوں نے مجھے الٹا لٹکا دیا تھا۔’

انہوں نے کہا کہ ان پولیس اہلکاروں  نے مسلم مخالف تبصرے بھی کیے۔ خان نے یاد کرتے ہوئے بتایا،‘(گالی دیتے ہوئے)اب کال کرےگا؟ کرےگا کال 100 نمبر پر؟ تم لوگوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے، ملوں سالوں۔’

وسیم خان نے کہا کہ بعد میں2:30 رات میں پولیس نے انہیں چھوڑا تھا۔ پیٹنےکی وجہ سے انہیں بہت زیادہ درد ہو رہا تھا، گھر پر درد کی  دوا لینے کے بعد وہ سو پائے تھے۔سی ٹی اسکین، ایم آرآئی اسکین اور ڈیجیٹل اسکیگرام سے پتہ چلتا ہے کہ خان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹ آئی ہے اور فریکچر بھی ہوا ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر نے انہیں آپریشن کی صلاح دی ہے۔

احمد علی نے یہ بھی کہا کہ جب وہ ایم ایل سی(میڈکو لیگل سرٹیفیکٹ)کے لیے انڈین اسپائنل انجری سینٹر گئے تو وہاں کے ملازمین نے 100 نمبر ہیلپ لائن پر کال کیا اور پولیس کو مطلع کیا کہ ان کے پاس تشدد کا معاملہ آیا ہے۔

علی نے کہا،‘اسپتال کی طرف سے فون کیے جانے کے بعد وسنت کنج پولیس اسٹیشن کے لوگ آئے اور وسیم کا نام درج کیا۔ بعد میں ہم خود اسٹیشن گئے اور شکایت درج کرانے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے ہمیں ٖفتح پور بیری اسٹیشن جانے کے لیے کہاکیونکہ یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔ بہت منت کرنے کے بعد انہوں نے وسیم کی شکایت کو درج کیا۔’

وسیم نے اپنی شکایت میں کہا ہے، ‘ان چوٹوں کی وجہ سے ان کی موت بھی ہو سکتی تھی۔’

انہوں نے ملزم پولیس اہلکاروں  کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 308(غیر ارادتاًقتل کرنے کی کوشش)، 326(خطرناک ہتھیاروں سے شدید چوٹ پہنچانا)، 331(جبراً بیان کے لیے شدید چوٹ پہنچانا)اور 342 اور348(غیرقانونی گرفتاری سے متعلق )کے تحت معاملہ درج کرنے کی مانگ کی ہے۔

پولیس کے ذریعے20 مئی،2021 کو نگرانی جانچ کی مانگ کرنے والی شکایت درج کی گئی تھی اور خان کو اس بارے  میں ایک پیغام  بھیجا گیا ہے کہ شکایت درج کر لی گئی ہے۔

حالانکہ اس سلسلے میں کیا کارروائی کی گئی ہے، اس کا کوئی اپ ڈیٹ نہیں ہے۔ جہاں ٖفتح پور بیری کے ایس ایچ او کلدیپ سنگھ نے اس پر تبصرہ  کرنے کے انکار کر دیا، وہیں جنوبی  دہلی کے ڈی ایس پی اتل کمار ٹھاکر نے کہا کہ ‘جانچ چل رہی ہے۔’

یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے ندیم خان نے کہا ہے کہ اس معاملے کو لےکر وہ  ہیومن رائٹس کمیشن  جا ئیں گے،یہاں  کوئی راحت نہیں ملتی ہے تو وہ پولیس والوں کے خلاف عدالت  کا رخ کریں گے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)