خبریں

کارٹون کو لے کر دائر ہتک عزت کا معاملہ خارج،کہا-عدالت اخلاقیات کا درس نہیں دے سکتی

سال2017 میں تمل ناڈو کے ترنیلویلی ضلع کلکٹردفترمیں ساہوکار کے ذریعےبہت زیادہ سود کی مانگ سے پریشان ہوکر ایک ہی فیملی  کے چارممبروں  نے خودسوزی کر لی تھی۔ کارٹونسٹ بالامرگن نے ایک کارٹون بنایا تھا، جس میں اس وقت کے ضلع کلکٹر، پولیس کمشنر اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ  خاموش تماشائی بن کرواقعہ  کو دیکھ رہے تھے اور ان کے نجی اعضانوٹوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔

مدراس ہائی کورٹ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@Chennaiungalkaiyil)

مدراس ہائی کورٹ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@Chennaiungalkaiyil)

نئی دہلی: فیس بک پیج پر ایک کارٹون چھاپنے کی وجہ سے درج مجرمانہ ہتک عزت کے معاملے کو خارج کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے حال ہی میں کہا کہ کورٹ لوگوں کواخلاقیات کا درس  نہیں دےسکتی۔بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق جسٹس جی الانگوون نے کہا کہ عرضی گزار نے جو کیا ہے اس میں کچھ بھی مجرمانہ نہیں ہے، حالانکہ یہ غیراخلاقی  ہو سکتا ہے۔

کورٹ نے آگے کہا، ‘لیکن عدالت لوگوں کو اخلاقیات کا درس  نہیں دے سکتی۔ یہ سماج کے اوپر ہے کہ وہ بدلیں اوراخلاقی قدروں  پر عمل کریں۔’

اس معاملے میں عرضی گزار کارٹونسٹ بالامرگن نے سال 2017 میں تمل ناڈو کے ترنیلویلی کلکٹر دفتر کے باہر ہوئےخودسوزی  کے ایک واقعہ  کےبارے  میں اپنے فیس بک پیج پر ایک کارٹون شائع کیا تھا۔ ساہوکار کے ذریعےبہت زیادہ سود کی مانگ سے پریشان ہوکر ایک ہی فیملی  کے چارممبروں  نے 23 اکتوبر 2017 کو کلکٹریٹ دفتر میں خودسوزی  کر لی تھی۔

اس کارٹون میں تمل ناڈو کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ  ای کے پلانی سوامی، ضلع  کلکٹر سندیپ نندری اور پولیس کمشنر کپل کمار سرتکار کو دکھایا گیا تھا۔

کارٹون میں تین برہنہ اسکیچ کے ساتھ ایک بچہ کے جلتے ہوئے جسم  کی تصویر بنائی گئی  تھی، جس میں ضلع کلکٹر، پولیس کمشنر اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ  خاموش تماشائی  بن کر واقعہ  کو دیکھ رہے تھے اور ان کے نجی اعضا نوٹوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔

ضلع کلکٹر نے کارٹون کو فحش، توہین آمیز اور ہتک عزت  بتاتے ہوئے بالامرگن کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔اسی کی بنیاد پر آئی پی سی کی دفعہ501(مجرمانہ ہتک عزت)اورآئی ٹی ایکٹ،2000 کی دفعہ67(الکٹرانک صورت میں فحش مواد کو شائع یا نشر کرنا)کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس کے بعدعرضی گزارنے اس ایف آئی آر کو ہائی کورٹ میں چیلنج دیا تھا۔ کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں اس سوال پر غور کیا جانا ہے کہ ‘بولنے اور ااظہار  کی آزادی کہاں سے شروع ہونی چاہیے اور کہاں پر ختم ہونی چاہیے۔’

کورٹ نے کہا، ‘ایک جمہوری ملک میں خیال، اظہار اور بولنے کی آزادی  وہ بنیاد ہے جس پر جمہوریت  زندہ رہتی ہے، جس کے بنا کوئی جمہوریت  نہیں ہو سکتی، نتیجتاًانسانی سماج کا کوئی فروغ نہیں ہوگا۔’

عدالت نے کہا کہ عرضی گزارساہوکاروں کے ذریعے بہت زیادہ سودکی وصولی کو روکنے میں انتظامیہ کی نااہلی  کے بارے میں اپنے غصہ، دکھ اور اعتراض  کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔

کورٹ نے اپنے آرڈر میں کہا، ‘ایک ساہوکار کی طرف سے بہت زیادہ سودکی مانگ کی وجہ سے کلکٹریٹ احاطہ میں تین لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ پریشانی اس بات کی نہیں ہے کہ عرضی گزار تکلیف ، تنقید یا سماجی مفادکو لےکر لوگوں کے دل میں بیداری  پیدا کرنا چاہتا تھا، لیکن جس طرح سے انہوں نے اس کا اظہار کیا، وہ تنازعہ کا باعث بن گیا۔ ایگزیکٹو کے سربراہ سے لےکر ضلع  پولیس تک کے افسروں  کو اس صورت میں دکھانے سے تنازعہ  پیدا ہو گیا۔’

کورٹ نے کہا کہ کچھ لوگ ایسا سوچ سکتے ہیں کہ یہ کارٹون ‘مبالغہ آمیز’یا‘فحش’ تھا، وہیں کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ اس نے لوگوں کی زندگی کو بچانے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے کی جانی والی جانبداری  کو صحیح ڈھنگ سے دکھایا ہے۔

اس طرح ایک قانون کو لوگوں کے ذریعے الگ الگ طریقے سے دیکھا جا سکتا ہے۔کورٹ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ کارٹون نے کلکٹر کے دل میں توہین  کا احساس  پیدا کیا ہو، لیکن عرضی گزار کا ارادہ ساہوکاروں کے ذریعے بہت زیادہ سودکی مانگ کےسلسلے میں حکام  کے رویے کو دکھانا تھا۔

مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ عرضی گزار کی ایسی کوئی منشا نہیں تھی کہ وہ  کلکٹر کی ہتک عزت  کریں۔ اس طرح کورٹ نے ملزم کو بے قصوربتاتے ہوئے ایف آئی آر کو خارج کرنے کا حکم دیا۔