خبریں

نریندر مودی کا یہ دعویٰ کہ صوبوں نے خود کووڈ ٹیکہ خریدنے کا مطالبہ کیا تھا، غلط ہے

سپریم کورٹ کی سرزنش  کے بعدسات جون کو وزیراعظم نریندر مودی نے ٹیکہ کاری پالیسی میں تبدیلی کا اعلان  کیا اور پرانی پالیسی  کے لیے صوبوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ حالانکہ آلٹ نیوز کی پڑتال بتاتی ہے کہ دو وزرائے اعلیٰ  کے بیانات کو چھوڑ دیں تو کسی بھی صوبے نے خود ویکسین خریدنے کی مانگ نہیں کی تھی۔

وزیر اعظم  نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر اعظم  نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت کی ٹیکہ کاری پالیسی کو سپریم کورٹ کے ذریعے‘من مانا اور غیرمنطقی’ بتانے کے کچھ دن بعد سات جون کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ ان کی سرکار نے ڈی سینٹر لائزیشن کی پالیسی کو ہٹا دیا ہے اور21 جون سے صوبوں کو 18-44کی عمر والوں کے لیے مفت میں ٹیکہ  ملےگا۔

اس سے پہلےصوبوں کو 25 فیصدی ویکسین اپنے فنڈ سے خریدنا پڑتا تھا۔مرکزی حکومت50 فیصدی ویکسین خریدکرصوبوں کو تقسیم کرتی تھی، وہیں پرائیویٹ اسپتالوں کو 25 فیصدی ویکسین خریدنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس پالیسی کو بدلنے کو لےکرمودی نے ملک  کے نام اپنے خطاب  میں کہا تھا، ‘اس سال 16 جنوری سے اپریل مہینے کے آخرتک ہندوستان  کا ویکسی نیشن پروگرام مرکز کی دیکھ ریکھ میں چل رہا تھا۔ملک سب کو مفت میں ویکسین دینے کی سمت میں بڑھ رہا تھا۔ ملک کے لوگ بھی ڈسپلن میں رہ کر اپنی باری آنے پر ویکسین لگوا رہے تھے۔ اس بیچ کئی صوبے لگاتار کہہ رہے تھے کہ ویکسی نیشن کو ڈی سینٹرلائز کر صوبوں کو اس کی ذمہ داری دے دینی چاہیے۔ ہم نے سوچا کہ اگر صوبے اس طرح کی مانگ کر رہے ہیں اور وہ جوش سے بھرے ہیں، تو 25فیصدی کام انہیں سونپ دینا چاہیے۔’

اس طرح مودی نے ڈی سینٹرلائز ویکسین پالیسی  کا ٹھیکراصوبوں کے سر پھوڑ دیا اور دعویٰ کیا کہ اسے نافذ کرنے کے لیےمرکز پر دباؤ بنایا گیا تھا۔

حالانکہ فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ آلٹ نیوز نے اپنی پڑتال میں بتایا ہے کہ اگر دووزرائے اعلیٰ کے بیانات کو کنارے کر دیں تو کسی بھی دیگر صوبے  سے ایسی کوئی خبر نہیں آئی کہ وہ  براہ راست  ویکسین خریدنا چاہتے ہیں۔

ویب سائٹ نے 19 اپریل سے پہلے اور بعد (ویکسین خریداری  کے سینٹرلائزیشن کے پہلے اور ڈی سینٹر لائزیشن کے بعد)میں صوبوں کی مانگوں کی پڑتال کی، جس میں پتہ چلا کہ کسی بھی صوبےیا یونین ٹریٹری نے ایسی مانگ نہیں کی تھی کہ وہ خود ہی ویکسین خریدنا چاہتے تھے۔

اصل میں تو یہ ہوا تھا کہ غیر بی جے پی مقتدرہ صوبوں نے ویکسین خریداری  کے ڈی سینٹرلائز کیے جانے کی تنقید کی تھی۔

ملک کے 12صوبوں میں سیدھے طور پر بی جے پی اقتدار میں ہے اور 6 صوبوں میں ان کی اتحاد کی سرکار ہے۔ مودی کے دعوے کو سچ ہونے کے لیے کئی صوبوں سے ایسی مانگ کی جانی ضروری ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا تھا۔

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ  ممتا بنرجی نے وزیر اعظم مودی کو 24 فروری کو خط لکھ کر صوبے کو اسمبلی انتخاب سے پہلے ٹیکہ کاری کے لیے ویکسین خریدنے کی اجازت مانگی تھی۔ بنرجی نے 18 اپریل کو پھر سے یہ مانگ دہرائی تھی۔

حالانکہ جب 19 اپریل کو مرکز نے ٹیکہ کاری کی پالیسی میں تبدیلی  کااعلان کیا تو ممتا بنرجی نے اسے‘بہت دیر سے اٹھایا گیا قدم’ بتایا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ‘کھوکھلا اور ذمہ داری سے بچنے کے لیے اٹھایا گیا قدم ہے۔’

اس کے بعد 22 اپریل کو ممتا نے ٹوئٹ کیا کہ ہر ہندوستانی  کی مفت ٹیکہ کاری یقینی بنانے کے لیے مرکز کو ویکسین کے لیے ایک دام طے کرنا ہوگا، ‘پھر چاہے پیسہ کوئی بھی دےمرکزیا صوبہ۔’

بنرجی کے علاوہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے وزیر اعظم کو 8 مئی کو خط لکھ کر بتایا تھا، ‘اگر ممکن ہے تو مہاراشٹرصوبہ  ٹیکہ خریدنے کے لیے تیار ہے تاکہ لوگوں کو محفوظ کیا جائے اور ہندوستان کے ویکسی نیشن پروگرام کو رفتار مل سکے۔ لیکن کمپنیوں کے پاس ویکسین اسٹاک دستیاب نہیں ہے۔ اگر ہمیں کسی اور کمپنی سے خریدنے کی چھوٹ ملے تو ہم اکثر لوگوں کو کم وقت میں کور کر سکیں گے اور ممکنہ  کورونا کی تیسری لہر کے اثر کو کم کر سکیں گے۔’

یہ خط ڈی سینٹرلائزیشن کی پالیسی کے اعلان کے بعد لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد 14 مئی کو مہاراشٹر کے وزیر صحت  راجیش ٹوپے نے صوبوں کو ‘نقصاندہ مقابلہ’سے بچانے کے لیے مرکزی حکومت کو ویکسین کی خرید کے لیے‘گلوبل ٹینڈر’ جاری کرنے کو کہا تھا۔

اس کے علاوہ کانگریس کے سینئر رہنماآنند شرما نے 18 اپریل کو انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ صوبوں کوفوراً ویکسین خریدنے کے لیے اجازت دینی چاہیے۔ حالانکہ شرما کسی صوبے کی نمائندگی کرنے والےعہدے پر نہیں ہیں۔

وہیں وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے 18 اپریل کو ڈی ایم کے رہنماایم کے سٹالن نے بھی اسی طرح کی مانگ اٹھائی تھی۔

ان کے علاوہ 19 اپریل سے پہلے کی ایسی کوئی بھی رپورٹ نہیں ہے جو یہ دکھاتی ہے کہ ریاستی سرکاریں مرکزی حکومت سے اس بات کی اجازت  مانگ رہی تھیں کہ انہیں سیدھے ویکسین بنانے والی کمپنیوں  سے ویکسین خریدنے کی اجازت دی جائے۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو 18 اپریل کو ایک چٹھی لکھی تھی جس میں انہوں نے صلاح دی تھی کہ صوبوں کو ویکسین کی خوراک بھیجنے کے لیےمرکز کو ایک پلان تیار کرنا چاہیے۔

وہیں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے آٹھ اپریل کو لکھے ایک خط میں کہا تھا کہ ویکسین لانے اور اس کےڈسٹری بیوشن  میں صوبوں کو اور بھی زیادہ جگہ دی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا تھا تھا ، ‘لوگوں کے صحت کا موضوع صوبوں کے پاس ہے، لیکن ویکسین کی خریداری  اور رجسٹریشن میں بھی صوبوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔’

بی جےپی رہنما انہی بیانات کی بنیادپر دعویٰ کر رہے ہیں کہ کانگریس نے صوبوں کے ذریعےویکسین خریدنے کی اجازت دینے کی مانگ کی تھی۔ حالانکہ یہاں یہ بھی دھیان رکھیں کہ سنگھ اور گاندھی میں سے کوئی بھی کسی صوبے کی نمائندگی  نہیں کر رہے تھے۔

الٹےمرکزی حکومت کے ذریعے19 اپریل کو ڈی سینٹر لائزٹیکہ کاری پالیسی کے اعلان کو لےکر کئی صوبوں نے تنقیدکی تھی، جس میں چھتیس گڑھ، کیرل، راجستھان، پنجاب، جھارکھنڈ، تمل ناڈو جیسے صوبے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم اور اےآئی ایم آئی ایم کے چیف اسدالدین اویسی نے بھی ٹیکے لانے کے لیے سینٹر لائزیشن  کو ہی صحیح ٹھہرایا۔