خبریں

گنگا میں بہتی لاشوں کے موضوع پر لکھی نظم کو گجرات ساہتیہ اکادمی نے ’انارکی‘ اور ’لٹریری نکسل‘ بتایا

کورونا مہاماری کی دوسری لہر کے دوران گنگا میں بہتی لاشوں کو دیکھ کر گجراتی شاعرہ پارل کھکر نے ایک نظم لکھی تھی۔ گجرات ساہتیہ اکادمی کی اشاعت  میں اس کو لےکر کہا گیا ہے کہ لفظوں  کا ان طاقتوں کے ذریعےغلط استعمال کیا گیا، جو مرکز اور اس کےقوم پرست نظریے  کے مخالف ہیں۔

بہار کے بکسر میں گنگا میں تیرتی لاش۔ (فوٹو بہ شکریہ: امرناتھ تیواری/Unexplored Adventure)

بہار کے بکسر میں گنگا میں تیرتی لاش۔ (فوٹو بہ شکریہ: امرناتھ تیواری/Unexplored Adventure)

نئی دہلی: گجرات ساہتیہ اکادمی کی آفیشل اشاعت‘شبدشرشٹی’ کے جون ایڈیشن میں ایک ایڈیٹوریل  نے گجراتی شاعرہ پارل کھکر کی اتر پردیش اور بہار میں گنگا میں تیرتی  پائی گئی مشتبہ کووڈ متاثرین  کی لاشوں کے موضوع  پر لکھی گئی ایک نظم کو ‘انتشار’پھیلانے والا قرار دیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ایڈیٹوریل  میں ان لوگوں کو ‘لٹریری  نکسل’ کہا گیا ہے، جنہوں نے اس پر چرچہ کی یا اسے نشر کیا۔

اکادمی کے صدر وشنو پانڈیہ نے اداریہ لکھنے کی تصدیق کی۔ حالانکہ اس میں بالخصوص شوواہنی گنگا کا ذکر نہیں ہے، انہوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ ان کا مطلب اس نظم سے ہے، جس کی بہت تعریف  ہوئی ہے اور کئی زبانوں  میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

نظم کو‘اشتعال انگیزی کے اظہار میں بیکار غم و غصہ’کے طور پر پیش کرتے ہوئے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ لفظوں  کا ان طاقتوں کے ذریعے غلط استعمال  کیا گیا تھا جو مرکز  اور مرکز  کےقوم پرست نظریے کےمخالف  ہیں۔

اداریہ میں کہا گیا،‘مذکورہ نظم کا استعمال ایسےعناصر نےگولی چلانے کے لیے کندھے کے طور پر کیا ہے، جنہوں نے ایک سازش شروع کی ہے، جن کی وفاداری  ہندوستان  کےلیےنہیں بلکہ کسی اور چیز سے ہے، جو لیفٹسٹ، نام نہاد لبرل  ہیں، جن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔ ایسے لوگ ہندوستان  میں جلدی سے ہنگامہ کرنا چاہتے ہیں اور بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ وہ تمام  مورچوں پر متحرک  ہیں اور اسی طرح وہ گندے ارادوں سے لٹریچر میں کود پڑے ہیں۔ ان ادبی نکسلیوں کامقصد ان لوگوں کے ایک طبقہ کو متاثر کرنا ہے جو اپنے دکھ اور سکھ کو اس سے(نظم)جوڑیں گے۔’

گجراتی میں اداریہ ‘ساہتیک نکسل’لفظ کااستعمال کرتا ہے۔اداریہ  میں کہا گیا ہے کہ اکادمی نے کھکر کے پہلے کے کاموں  کو شائع  کیا تھا اور اگر انہوں نے مستقبل  میں کچھ اچھی نظمیں لکھیں تو گجراتی قارئین  کے ذریعے ان کا استقبال  کیا جائےگا۔

پانڈیا نے کہا،‘اس میں(شو واہنی گنگا)شاعری کا کوئی جوہر نہیں ہے اور نہ ہی یہ نظم کو قلمبندکرنے کا مناسب  طریقہ ہے۔ یہ صرف  کسی کے غصے یامایوسی کو باہر نکالنے کے لیے ہو سکتا ہے اور اس کا لبرل لوگوں، مودی مخالفین، بی جے پی مخالفین اور سنگھ مخالف(آر ایس ایس)عناصر کے ذریعے غلط استعمال  کیا جا رہا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ کھکر کے خلاف ان کا کوئی‘شخصی عناد’ نہیں ہے۔ لیکن یہ کوئی نظم نہیں ہے اور کئی عناصر اسے سماج کو تقسیم  کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

بتا دیں کہ پارل کھکر کی نظم  شوواہنی گنگا، جو انہوں نے 11 مئی کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ساجھا کی تھی،  گجراتی میں تحریر کی گئی  ایک مختصر مگرانتہائی طنزیہ نظم ہے، جس میں وزیر اعظم  کاتذکرہ  اس ‘رام راج’ پرحکومت  کر رہے ‘ننگے راجہ’کے طور پر کیا گیا ہے، جس میں گنگا ‘شوواہنی’ کا کام کرتی ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے 14مصرعوں کی اس نظم کا کم سے کم چھ زبانوں میں ترجمہ  ہو گیا اور یہ نظم ان تمام ہندوستانیوں  کی آواز بن گئی، جو مہاماری کے ذریعے لائی گئی مصیبتوں  سے افسردہ ہیں اور سرکار کی بے حسی  اور بدانتطامی سے مشتعل  ہیں۔