خبریں

دہلی فسادات: طلبا اور کارکنوں کو ضمانت، کورٹ نے کہا-اختلاف رائے کو دبانے پر حکومت کا زور

جے این یو کی طالبعلم نتاشا نروال ، دیوانگنا کلیتا اور جامعہ ملیا اسلامیہ کےطالبعلم آصف اقبال تنہا پرشمال- مشرقی  دہلی میں فروری 2020 میں ہوئے فرقہ وارانہ تشددکے لیے سازش کرنے کاالزام لگایا ہے۔ تینوں کو مئی 2020 میں یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا ، آصف اقبال تنہا

نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا ، آصف اقبال تنہا

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے شمال -مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے معاملے میں یواے پی اے کے تحت درج معاملے میں طلبا اور کارکنوں نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کو ضمانت دے دی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس اےجے بھمبھانی کی بنچ  نے ضمانت دیتے ہوئے کہا، ‘ہم یہ کہنے کے لیے مجبور  ہیں کہ اختلاف رائے کو دبانے کی عجلت میں حکومت  نے احتجاج  کے آئینی حق  اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے فرق  کو ختم سا کر دیا ہے۔ اگر یہ ذہنیت  زور پکڑتی ہے تو یہ جمہوریت کے لیے افسوسناک  دن ہوگا۔’

بنچ  نے ہدایت دی کہ آرڈر کی ایک کاپی  ملزمین کے وکیلوں کو فوراًدستیاب کرائی جائے۔ عدالت نے تینوں ملزمین کو 50000-50000 روپے کے نجی بانڈ اور دودو مچلکوں پر ضمانت دی ہے۔دیوانگنا چار معاملوں میں جبکہ نتاشا تین معاملوں میں مقدمے کا سامنا کر رہی ہیں۔ انہیں تمام معاملوں میں ضمانت دے دی گئی ہے۔ ان کے وکیل ادت پجاری کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو جیل سے رہا کیا جائےگا۔

ہائی کورٹ نے ملزمین کو اپنے موبائل نمبر مقامی ایس ایچ او کو دینے اور اپنے اپنے گھروں میں ہی رہنے کی ہدایت دی  ہیں اور گھر کا پتہ بدلنے کی حالت میں ایس ایچ او کو مطلع کرنے کو کہا ہے۔تینوں کارکنوں  کو مئی 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ نچلی عدالتوں نے اس معاملے میں پہلے ان کی ضمانت عرضیاں  خارج کر دی تھیں۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، عدالت نے ملزمین سے ان کے پاسپورٹ عدالت کے سامنے جمع کرنے اور ایسی کسی بھی سرگرمی  میں شامل نہیں ہونے کو کہا ہے، جس سے معاملے کی جانچ میں رکاوٹ پیدا ہو۔

عدالت نے تنہا کو ضمانت دیتے ہوئے کہا، ‘شنوائی کے مقصد سے اپیل کرنے والےکی پیشی  کو محفوظ  بنایا جانا چاہیے۔  کوئی ثبوت اور بنیاد نہیں ہے، جس سے یہ شبہ  ہو کہ اپیل کرنے والاشواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرےگا یا گواہوں کو دھمکائےگا۔’

اس سے پہلے اکتوبر 2020 میں تنہا کی ضمانت عرضی  خارج کر دی گئی تھی۔

ضمانت کے احکامات میں الزامات کی سچائی  پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ نروال کے معاملے میں ضمانت کے حکم میں کہا گیا، ‘ہم یہ سوچتے ہوئے مطمئن  نہیں ہیں کہ پہلی نظر میں  نتاشا نروال کے خلاف لگائے گئے الزام یواے پی اےکی دفعہ15،17 اور 18 کے تحت کوئی جرم  ہے اور اس لیے یو اے پی اے کی دفعہ43 ڈی (5) میں شامل سخت  شرطیں لاگو نہیں ہوں گی۔ نتاشا کے خلاف لگائے گئے الزامات کا گہرائی سے مطالعہ  کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ سی اے اے مخالف  اور این آرسی مخالف  مظاہروں کے انعقاد میں شامل رہنے کے علاوہ ان کے کے ذریعےکوئی خصوصی یا متعین کام  نہیں کیا گیا، جس سے ان پر اس طرح کے الزام  لگائے جائیں۔’

وہیں تنہا کے ضمانتی حکم  میں کہا گیا،‘حالانکہ مقدمے کے دوران اسٹیٹ  بلاشبہ شواہد کو مارشل کرنے کی کوشش کرےگا اور اپیل کنندہ  کے خلاف لگائے گئے الزامات کوصحیح کرےگا۔ جیسا کہ ہم نے ابھی کہا یہ صرف الزام  ہیں اور جیسا کہ ہم پہلے ہی چرچہ کر چکے ہیں، ہم پہلی نظر میں  اس طرح  لگائے گئے الزامات  کی سچائی  کے بارے میں مطمئن  نہیں ہیں۔’

ہائی کورٹ نے ان الزامات کی نوعیت  پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نروال اور کلیتا کے ضمانتی  حکم میں کہا، ‘ہم یہ کہنے کے لیے مجبور  ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اختلاف رائے کو دبانے کی اپنی تشویش اور معاملے کے ہاتھ سے نکل جانے کی فکرمیں سرکار نے احتجاج کے حق  کی آئینی  گارنٹی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں  کے بیچ کے خط  کو دھندلا کر دیا ہے۔ اگر یہ ذہنیت  زور پکڑتی ہے تو یہ جمہوریت  کے لیے افسوسناک  دن ہوگا۔’

وہیں، دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ نروال، کلیتا اور تنہا اور دیگر نے نظم ونسق  کی صورتحال  کو متاثرکرنے کی کوشش کے تحت سی اےاے مخالف  مظاہروں  کا استعمال کیا۔بتا دیں کہ نروال اور کلیتا جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی اسٹوڈنٹ  ہیں اور پنجرہ توڑ تنظیم  کی ممبر ہیں۔

وہیں، تنہا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹ  ہیں۔ ان سب پر پولیس نے شمال- مشرقی  دہلی میں فروری 2020 میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے لیے سازش کرنے کاالزام لگایا ہے۔کئی کارکنوں ، بین الاقوامی  ایجنسیوں اور آبزرور کا ماننا ہے کہ یہ معاملہ متنازعہ  سی اے اےاور این آرسی قانون کی مخالفت  کرنے والوں کو نشانہ بنانے کا ایک طریقہ ہے۔

دی  وائر نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عوامی  طور پر بھڑکاؤ بیان  دینے والے اور تشددکے لیے اکسانے والے کئی رائٹ ونگ  رہنماؤں پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔معلوم ہو کہ دہلی دنگوں سے جڑی ایف آئی آر 59 کے تحت اب تک کل پندرہ لوگوں کو ضمانت مل چکی ہے۔