گراؤنڈ رپورٹ

یوپی: وزیر اعلیٰ کے گود لیے اسپتال صوبے کی خستہ حال صحت خدمات کا نمونہ محض ہیں

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں گورکھپور کے دو کمیونٹی ہیلتھ  سینٹرکو گود لینے کا اعلان  کیا تھا۔ قیام کے کئی سالوں بعد بھی یہاں  نہ مناسب تعداد میں طبی عملہ  ہیں، نہ ہی دیگر سہولیات۔المیہ یہ ہے کہ دونوں اسپتالوں میں ایکسرے ٹیکنیشن ہیں، لیکن ایکسرے مشین ندارد ہیں۔

جنگل کوڑیا سی ایچ سی۔ (فوٹو:اسپیشل ارینجمنٹ)

جنگل کوڑیا سی ایچ سی۔ (فوٹو:اسپیشل ارینجمنٹ)

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے آٹھ جون کو گورکھپور کے دو، وارانسی اور ایودھیاا کے ایک ایک کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کو گود لینے کا اعلان  کیا۔ انہوں نے ارکان پارلیامنٹ اوراسمبلی سے بھی اپیل کی کہ وہ ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر یا کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کو گود لےکر وہاں کے حالات  کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

وزیر اعلیٰ نے گورکھپور میں دو سی ایچ سی جنگل کوڑیا اور چرگانوا کو گود لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دونوں اسپتال اپنے قیام  کے بعد سے ہی پوری طرح سے اب تک کام نہیں کر پارہے ہیں۔ یہاں پر نہ خاطرخواہ تعداد میں معالج ہیں نہ اسٹاف اور نہ آلات ۔ دونوں اسپتالوں میں نہ مریض بھرتی کیے گئے نہ آپریشن یا زچگی  ہوئی۔ دونوں میں ایکسرے مشین تک نہیں ہے۔ یہ دونوں اسپتال ابھی تک کسی طرح او پی ڈی خدمات  ہی دے پا رہے تھے۔

یہ حالات بیاں کرتے ہیں کہ یوپی میں صحت خدمات  کا کیا حال ہے اور بی جے پی سرکار کی مدت  کار میں اس میں کوئی بہتری  نہیں آئی  ہے۔

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کاگود لیا جنگل کوڑیاکمیونٹی ہیلتھ سینٹر2014 میں بنا تھا اور2015 میں یہ محکمہ صحت  کو ہینڈاوور ہو گیا۔ چرگانوا سی ایچ سی کا افتتاح  خود وزیر اعلیٰ نے اکتوبر 2017 میں کیا تھا۔ دونوں سی ایچ سی آج تک پوری طرح سے شروع  نہیں ہو سکے ہیں۔ دونوں میں کسی طرح او پی ڈی چلتی رہی لیکن آئی پی ڈی آج تک شروع نہیں ہو پائی ہے۔

انڈین پبلک ہیلتھ اسٹینڈرڈ(آئی پی ایچ ایس)کی جانب سےسی ایچ سی کے لیے2012 میں ترمیم شدہ  گائیڈ لائن میں کہا گیا ہے کہ میدانی علاقوں میں 1.20 لاکھ کی آبادی پر ایک کمیونٹی ہیلتھ سینٹر قائم  کیا جانا چاہیے جو بلاک لیول پر نہ صرف صحت  کی انتظامی یونٹ ہوگی بلکہ اعلیٰ میڈیکل ادارے کے ریفرل کے لیے گیٹ کیپر بھی ہوگا۔

سی ایچ سی پر جنرل، میڈیسن، سرجری،امراض نسواں ، پیڈیاٹرک، ڈینٹل اور آیوش کی او پی ڈی اور آئی پی ڈی خدمات شروع  ہونی چاہیے۔کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کو آپریشن تھیٹر، لیبر روم، ایکسرے، ای سی جی اور لیبارٹری سہولیات سے لیس30 بیڈ کا اسپتال ہونا چاہیے۔

کمیونٹی ہیلتھ سینٹر پر جنرل سرجن، فزیشین،امراض نسوان کے ماہرین،بچوں کے امراض کے ماہرین، بےہوشی  کے ڈاکٹر، ڈینٹل سرجن، دو جنرل ڈیوٹی میڈیکل آفیسر، ایک میڈیکل آفیسر آیوش،10اسٹاف نرس،دوفارماسسٹ، دو لیب ٹیکنیشن، او ٹی ٹیکنیشن، ڈینٹل اسسٹنٹ، ایک ریڈیوگرافر، پانچ وارڈ بوائے سمیت 46 اسٹاف ضروری بتایا گیا ہے۔

اس میں انتظامی امور کے لیے چھ ملازم بھی شامل ہیں۔گائیڈ لائن  میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیونٹی ہیلتھ سینٹرکو بلاک ہیڈکوارٹر کے سینٹر میں ہونا چاہیے اور وہاں بجلی، سڑک، پینے کے پانی کی سہولت ضروری  ہے۔ اسپتال کی چہاردیواری اور گیٹ بھی ضروری ہے۔

حالانکہ جنگل کوڑیا کا کمیونٹی ہیلتھ سینٹر اپنے قیام  کے پانچ سال اور چرگانوا کمیونٹی ہیلتھ سینٹر ساڑھے تین سال بعد بھی ان اسٹینڈرڈ سے کافی دور ہے۔جنگل کوڑیا سی ایچ سی پر اس وقت ایک سرجن، ایک ڈینٹل سرجن اور دو میڈیکل آفیسر کی ہی تعیناتی ہے اور یہاں بچوں کے ڈاکٹر،امراض نسواں کے ڈاکٹر اور بےہوشی کے ڈاکٹر نہیں ہیں۔

اسپتال میں دو فارماسسٹ ہیں لیکن چیف پھارماسسٹ کا عہدہ  خالی ہے۔ المیہ  یہ بھی ہے کہ ایکسر ے ٹیکنیشن ہیں لیکن ایکسرے مشین ہی نہیں ہے۔جنگل کوڑیا پرائمری ہیلتھ سینٹر کے انچارج  ڈاکٹر منیش چورسیا کو کچھ دن پہلے سی ایچ سی کا سپرنٹنڈنٹ  بنایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں ایک ہفتے میں ایکسرے مشین آ جائےگی۔

کمشنر روی کمار این جی نے یہاں الٹرا ساؤنڈ مشین بھی قائم کرنے کو کہا ہے۔ یہاں پر آکسیجن پلانٹ بھی لگایا جائےگا کیونکہ اب یہاں پر پیڈیاٹرک آئی سی یو بنانے کا بھی منصوبہ  ہے۔ دس آکسیجن کانسینٹریٹر مل گئے ہیں۔وزیر اعلیٰ کے اس سی ایچ سی کو گود لیے جانے کے بعد اب جاکر یہاں پر حاملہ  خواتین  کی بھرتی اورزچگی  شروع ہوئی ہے۔نوجوانوں  کی  کووڈ ٹیکہ کاری کے ساتھ ساتھ مستقل  ٹیکہ کاری بھی شروع کی گئی ہے۔

اسی دوران اسپتال میں پانی کے انتظام  کے ساتھ ساتھ خراب پڑے بجلی ٹرانسفارمر کو ٹھیک کرایا گیا ہے۔ اسپتال کیمپس  کی صاف صفائی کی گئی ہے لیکن مین روڈسے اسپتال جانے والی 200 میٹر سڑک بری طرح ٹوٹی پھوٹی ہے۔

ڈاکٹر چورسیا نے بتایا کہ اس اسپتال سے تعینات ڈاکٹر و پیرامیڈیکل اسٹاف دوسرے جگہ کام کر رہے تھے۔ سب کو واپس بلایا جا رہا ہے۔

اس اسپتال کی حالت  شروع سے ہی ایسی بنی ہوئی ہے۔ دسمبر 2017 میں اس اسپتال پر میں نے ایک خبر کی تھی۔ اس وقت  اسپتال میں تین مہینے سے کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ دوڈاکٹروں  کی تعیناتی تھی، لیکن دونوں لمبےوقت  سے چھٹی پر چل رہے تھے۔ فارماسسٹ اور اسٹاف نرس سمیت پانچ طبی عملے ہی اسپتال کو چلا رہے تھے۔

اس وقت  اسپتال کیمپس  گھاس و کھرپتوار سے بھرا تھا اورطبی عملےاپنے وسائل  سے مزدور لگاکر کر صاف صفائی کرا رہے تھے۔ اسپتال کے لیے نہ کوئی صفائی اہلکار  تھا اور نہ چوکیدار۔ آپریشن تھیٹر اور وارڈ دھول گندگی سے پٹے تھے۔ باقاعدگی سے صفائی و دیکھ ریکھ نہ ہونے سے دیوار، ٹوائلٹ بدحال تھے۔

اس وقت اسپتال کے لیے بنا اوور ہیڈ ٹینک چالو نہیں ہو سکا تھا، جس کی وجہ سے اسپتال کیمپس  میں پانی کی زبردست قلت تھی۔ دیسی ہینڈپمپ سے کسی طرح کام چلایا جا رہا تھا۔اس وقت طبی عملوں  نے بتایا کہ اسپتال شروع ہونے کے دوسال  کے اندر 20 افسروں نے اسپتال کامعائنہ  کیا تھا لیکن حالات نہیں بدلے۔

جنگل کوڑیا میں کام کرنے والے ہیلتھ رائٹس ایکٹوسٹ اودھیش کمار نے بتایا کہ علاقے کے لوگ علاج کے لیے جنگل کوڑیا پرائمری ہیلتھ سینٹرہی جاتے ہیں۔ وہاں مریضوں کی بہت  زیادہ بھیڑ ہوتی ہے جبکہ کمیونٹی ہیلتھ سینٹر پر سناٹا پسرا رہتا ہے۔ یہاں کبھی کبھی نس بندی کیمپ  لگتے تھے۔

اب ساڑھے تین سال بعد جب وزیر اعلیٰ نے اس اسپتال کو گود لیا ہے، تب انتظامات  کو ٹھیک کرنے کی قواعد شروع ہوئی ہے۔جنگل کوڑیا بلاک کی آبادی تقریباً ڈھائی لاکھ ہے۔ ڈھائی لاکھ کی آبادی کے بیچ ایک سی ایچ سی، ایک پی ایچ سی، چار اضافی پی ایچ سی اور 27 سب سینٹر ہیں۔

گزشتہ16 جون کو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سی ایچ سی جنگل کوڑیا کا معائنہ کرتے ہوئے رنگائی پتائی، صاف صفائی، ایکسرے مشین کے انتظامات  کے ساتھ ہی دیگر تمام طبی آلات کے انتظامات کو جلد از جلد یقینی  بنانے کے ہدایت  دی ہیں۔

وزیر اعلیٰ کا گود لیا گیا دوسرا اسپتال، چرگانوا کا کمیونٹی ہیلتھ سینٹر اکتوبر 2017 میں شروع ہوا تھا۔ یہ اسپتال کھٹہن گاؤں کے پاس واقع ہے۔ اسپتال کی بلڈنگ پوری طرح بن گئی ہے لیکن بجلی اور پانی کا کام اب پورا کیا جا رہا ہے۔

اسپتال ابھی محکمہ صحت کو ہینڈاوور بھی نہیں ہوا ہے۔ اسپتال کیمپس  میں دودو کمرے یونانی اور آیورویدک علاج  کی او پی ڈی کے لیے دیے گئے ہیں۔

اسپتال شروع ہونے کے بعد سے یہاں ابھی صرف او پی ڈی چل رہی ہے۔ مریضوں کو بھرتی نہیں کیا جاتا، نہ ہی آپریشن ہوتے ہیں۔ ایلوپیتھک، یونانی اور آیوروید کی او پی ڈی میں ابھی ہردن  تقریباً 200 لوگ دکھانے آتے ہیں۔ اسپتال میں ابھی ڈاکٹر، نرس، فارماسسٹ اوردیگر اسٹاف کی کمی ہے۔

سی ایچ سی کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر دھننجئے کشواہا نے بتایا، ‘یہاں چار میڈیکل آفیسر ہیں، جس میں ایک آیوش کے ہیں۔ ابھی کوئی ماہر ڈاکٹرنہیں ہے۔ دس اسٹاف نرس کی پوسٹ ہے، ابھی تین تعینات ہیں۔ ایکسرے ٹیکنیشن ہیں لیکن ابھی ایکسرے مشین نہیں لگی ہے۔لوازمات آ گئے ہیں۔ جلد ہی ایکسرے مشین بھی آ جائےگی۔ چیف فارماسسٹ اور ایک فارماسسٹ کی پوسٹ خالی ہے۔ چرگانوا پی ایچ سی سے ایک وارڈ بوائے کو یہاں تعینات کیا گیا ہے۔ ڈینٹل ہائجینسٹ کی تعیناتی ہے لیکن ڈینٹل چیئر ابھی انسٹال نہیں ہے۔ لیب ٹیکنیشن اور پیتھالوجسٹ کی تعیناتی ہے۔’

اس اسپتال تک جانے کا راستہ بہت تنگ ہے، جسے اب چوڑا کرنے کا منصوبہ  بنا ہے۔ اسپتال کی چہاردیواری تو بنی ہوئی ہے لیکن گیٹ نہیں ہے۔ اسپتال کیمپس کے اندر اب جے سی بی لگاکر مٹی کو برابر کیا جا رہا ہے۔

چرگانواپرائمری ہیلتھ سینٹر شہر کے شمالی سرے پر بی آرڈی میڈیکل کالج کے پاس ہے۔ چرگانوا بلاک گورکھپور کے بڑے بلاکوں میں سے ایک ہے، جس کی آبادی تقریباً تین لاکھ ہے۔ بلاک میں 35 گرام پنچایت ہیں، جس کا بڑا حصہ شہری حلقہ  میں آتا ہے۔

کمشنر روی کمار این جی نے گزشتہ11 جون کو چرگانوا سی ایچ سی کا معائنہ  کیا۔ ان کے ساتھ اےڈی ہیلتھ اور سی ایم او بھی تھے۔ کمشنر نے کہا کہ سی ایچ سی کو ماڈل سی ایچ سی کے طور پرفروغ دینے کے لیے ضروری وسائل  کااندازہ لگا کر بتایا جائے۔

سوال اٹھتا ہے کہ جب وزیر اعلیٰ کے ضلع میں شہر سے 20 کیلومیٹر کے اندرواقع دو سب سے اہم کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کا یہ حال ہے تو دور دراز کے اسپتالوں کی کیا حالت ہوگی؟اگر وزیر اعلیٰ نے ان دونوں اسپتالوں کو گود نہیں لیا ہوتا تو کیا ان کی کمیاں دور ہوتیں؟

اپنے قیام کے اتنے سالوں بعد تک ان دونوں کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کا اب تک پوری طرح شروع نہیں ہو پانا مہاماری کے دوران صوبےکی چرمرائی ہیلتھ سسٹم کو لےکر اٹھے سوالوں کی تصدیق  کرتی  نظر آتی  ہے۔

(منوج سنگھ  گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)