خبریں

متاثرہ مسلمان  کے ساتھ فیس بک لائیو کرنے والے سماجوادی پارٹی کے رہنما کے خلاف بھی ایف آئی آر درج

اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں عبدالصمد سیفی نام کے ایک بزرگ مسلمان پر حملہ کرنے اور انہیں‘جئے شری رام’ کہنے پر مجبور کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اس سلسلے میں دہلی کے تلک مارگ تھانے میں دی گئی ایک شکایت میں اداکارہ  سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے ایم ڈی منیش ماہیشوری، دی  وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ  خانم شیروانی، ٹوئٹر انک، ٹوئٹر انڈیا اور آصف خان کا نام شامل ہے۔

امید پہلوان ادریسی۔ (فوٹو: فیس بک/Ummed Pahalwan Idrisi)

امید پہلوان ادریسی۔ (فوٹو: فیس بک/Ummed Pahalwan Idrisi)

نئی دہلی: غازی آباد پولیس نے سماجوادی پارٹی کے رہنما امید پہلوان ادریسی کے خلاف مذہبی وجوہات  سے حملے کا شکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے بزرگ عبدالصمدسیفی کے ساتھ فیس بک لائیو ویڈیو میں دکھائی دینے کے لیے ایک ایف آئی آر درج کی ہے۔

جہاں اتر پردیش پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں کوئی فرقہ وارنہ زاویہ  نہیں تھا، تو وہیں متاثرہ  سیفی کے اہل خانہ  نے حملے کے پیچھے مذہبی  وجوہات  کا حوالہ دیا ہے۔ اہل خانہ  نے دی  وائر کو بتایا کہ تشددکے دوران انہیں غیر مہذب لفظوں  کا شکار ہونا پڑا اور انہوں نے اپنی پولیس شکایت میں اس کی  تفصیلات  دی تھی۔

غورطلب ہے کہ ایک ویڈیو میں بزرگ مسلمان عبدالصمد سیفی نے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار لوگوں پر انہیں مارنے، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں ‘جئے شری رام’ بولنے کے لیے مجبور کرنے کا الزام  لگایا ہے۔

حکام  نے بتایا کہ امید پہلوان ادریسی کے خلاف لونی بارڈر تھانے میں بدھ کی  شام کو شکایت درج کی گئی ہے۔ ایک مقامی  پولیس اہلکار کی شکایت پر درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ادریسی نے ‘غیر ضروری طور پر’ویڈیو کو ‘سماجی  تفریق  پیدا کرنے’کے ارادے سے بنایا اور اسے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے ساجھا کیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا، ‘انہوں نے اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر بنا تصدیق  کیے ساجھا کیا، جس میں مذہب سے متعلق  بات ہے۔ اس نے معاملے کو فرقہ وارانہ  رنگ دے دیا اور سماجی  ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کی۔’

انڈین ایکسپریس کے مطابق ، لونی بارڈر پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا،‘ملزم کے اس فعل  سے مذہبی جذبا ت کو ٹھیس پہنچا ہے۔ اسپیشل ایکٹ  نےنظم ونسق  کے لیے خطرہ پیش کیا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی۔’

سیفی کو ایف آئی آر درج کرانے میں مدد کرنے والے ادریسی کے خلاف ایف آئی آر آئی پی سی کی دفعہ153(دنگے کے لیے اکسانا)، 153اے (مختلف کمیونٹی  کے بیچ دشمنی  بڑھانا)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے کام کرنا)، 505 (شرارت)، 120بی (مجرمانہ  سازش) اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67اے کے تحت درج کی گئی ہے۔

ایس پی (غازی آباد،دیہی ) نے بدھ کو بتایا تھا کہ کلو گرجر، پرویش گرجر، عادل، انتظار اور صدام عرف بونا کو معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔غازی آباد پولیس نے دعویٰ کہ یہ واقعہ  اس لیے ہوا کیونکہ ملزم سیفی کے ذریعے بیچے گئے ایک‘تعویذ’ سے ناخوش تھے اور معاملے میں کسی بھی فرقہ وارانہ زاویہ  سے انکار کیا ہے۔

دوسری طرف  متاثرہ سیفی کے بڑے بیٹے ببو نے دی  وائر کو بتایا کہ ان کےوالدحملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندانی کاروبار بڑھئی گری کا ہے اور پولیس کاتعویذ کا دعویٰ غلط ہے۔

اس سے پہلے اتر پردیش پولیس نے ٹوئٹر انک، ٹیوٹر کمیونی کیشن انڈیا،‘دی  وائر’، صحافی  محمد زبیر، رعنا ایوب، صبا نقوی کے علاوہ کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی اور شمع محمد کے خلاف سوشل میڈیا پر ویڈیو ساجھا کرنے کے معاملے میں ایف آئی آر درج کی ہے۔

ویڈیو ساجھا کرنے کے معاملے میں سورا، ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی کے خلاف شکایت

معاملے کے سلسلے میں ایک اور شکایت اب دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں  امت آچاریہ کی جانب سے درج کی گئی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، اس شکایت میں اداکارہ  سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے ایم ڈی منیش ماہیشوری، دی  وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ  خانم شیروانی، ٹوئٹر انک، ٹوئٹر انڈیا اور آصف خان کا نام ہے۔

پولیس کے ایک سینئر افسر نے کہا، ‘ہمیں اداکارہ  سورا بھاسکر، ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی منیش ماہیشوری اور دیگر کے خلاف تلک مارگ تھانے میں شکایت کی گئی ہے۔ معاملے کی جانچ جاری ہے۔’شکایت سے جڑی تفصیلی  جانکاری ابھی مہیا نہیں کرائی گئی۔

اپنی شکایت میں آچاریہ نے کہا ہے، ‘ان صارفین کے لاکھوں فالوورس ہیں اور ایک آفیشیل  اکاؤنٹ  ہے۔ اس سچائی  کو جانتے ہوئے کہ ان کے ٹوئٹ کا سماج پر اثر پڑتا ہے، انہوں نے معاملےکی سچائی کی جانچ کیے بنااس  کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ متعلقہ  ٹوئٹ سوشل میڈیا پر مذہنی کمیونٹی کے بیچ امن و امان اور ہم آہنگی کو خراب کرنے کےمقصد سے کیے گئے تھے۔’

غورطلب ہے کہ سوشل میڈیا پر ساجھا کیے گئے ایک ویڈیو میں بزرگ مسلمان نے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار لوگوں پر انہیں مارنے، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں ‘جئے شری رام’ بولنے کے لیے مجبور کرنے کا الزام لگایا ہے۔

غازی آباد پولیس نے کہا کہ اس نے اس مبینہ معاملے کےسلسلے میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔معاملہ پانچ جون کا ہے، لیکن اس کی شکایت دو دن دن بعد کی گئی۔

غازی آباد کے ایس ایس پی  امت پاٹھک نے بتایا کہ متاثرہ  عبدالصمد سیفی بلندشہر کے رہنے والے ہیں اور سات جون کو درج کرائی ایف آئی آر میں انہوں نے جبراً جئے شری رام کا نعرہ لگوانے یا داڑھی کاٹنے کا الزام نہیں لگایا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)