خبریں

بزرگ مسلمان  پر حملہ: یوپی پولیس نے ٹوئٹر کے ایم ڈی کو ایک ہفتے میں پیش ہونے کو کہا

اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی میں گزشتہ پانچ جون کو ایک بزرگ مسلمان پرحملہ کرنے کےمعاملے میں پولیس نے ٹوئٹر انڈیا کےایم ڈی کو نوٹس بھیج کر جانچ میں شامل ہونے کے لیے کہا ہے۔ معاملے سے متعلق  ویڈیو/خبر ٹوئٹ کرنے کو لےکر دی وائر اور ٹوئٹر سمیت کئی صحافیوں  کے خلاف کیس درج کیا گیا۔ اس بیچ عدالت نے بزرگ پر حملے کے ملزم9 لوگوں کو ضمانت دے دی ہے۔

(فوٹو:  رائٹرس)

(فوٹو:  رائٹرس)

نئی دہلی: اتر پردیش کی غازی آباد پولیس نے ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی  کو ایک نوٹس بھیج کر انہیں اس مہینے کی شروعات میں ایک بزرگ مسلمان پر ہوئے مبینہ حملے سےمتعلق  معاملے کی جانچ میں شامل ہونے کو کہا ہے۔اس بیچ72سالہ  عبدالصمدسیفی کو پیٹنے اور داڑھی کاٹنے کے ملزمین تمام  نو لوگوں  کو مقامی عدالت نے عبوری  ضمانت دے دی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، لونی بارڈر پولیس اسٹیشن کے انچارج  کی جانب سے ماہیشوری کو 17 جون کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے، ‘کچھ لوگوں نے عداوت  اور نفرت پھیلانے کے لیے ٹوئٹر کا ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ٹوئٹر نے ایسےپیغامات  پرکوئی نوٹس نہیں لیا، جو ملک  میں کمیونٹی کے بیچ دشمنی پھیلانے اور ہم آہنگی  کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے پیغامات کو وائرل بھی ہونے دیا جاتا ہے۔ اس معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے اور اس میں آپ کی شرکت  لازمی ہے۔ یہ نوٹس ملنے کے سات دنوں کے اندر لونی بارڈر پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کریں۔’

ایس پی(غازی آباد،دیہی) نے جمعہ کو صحافیوں کو بتایا،‘منیش ماہیشوری ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی ہیں اور انہیں کل(جمعرات )سی آر پی سی کی دفعہ166کے تحت ایک نوٹس بھیج کر جانچ میں تعاون کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان سے کچھ دیگرجانکاریاں بھی مانگی گئی ہیں اور انہیں مقامی پولیس تھانے میں پیش ہونے کے لیے سات دن کا وقت دیا گیا ہے۔’

ایس پی نے کہا،‘ہمیں امید ہے کہ ٹوئٹر ہمارے نوٹس کا جواب دےگا اور جانچ میں شامل ہوگا۔ اگر ان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں ملاتو ہم اگلے قدم کے بارے میں ہماری لیگل ٹیم سے مشورہ کریں گے، جس میں گرفتاری کے آرڈرشامل ہو سکتے ہیں، لیکن ہمیں انہیں دیے گئے طے وقت تک انتظار کرنا ہوگا اور اس کے مطابق ہی کارروائی کرنی ہوگی۔’

ایس پی  نے کہا، ‘قابل اعتراض مواد کو رپورٹ کرنے کا ایک آپشن  ہے جو ٹوئٹر کے معیارات  پر کھرا نہیں اترتا۔ ہم ٹوئٹر سےیہ بھی پوچھیں گے کہ اس ویڈیو کے سلسلےمیں کتنے صارف نے انہیں رپورٹ کیا تھا اور اس پر ان کاردعمل  کیا رہا تھا۔’

غازی باد پولیس نے 15 جون کو آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر،صحافی  رعنا ایوب، دی  وائر، کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی، شمع محمد،صبا نقوی اور ٹوئٹر انک اور ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پی وی ٹی پر معاملہ درج کیا تھا۔

ان پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے کو لےکر معاملہ درج کیا گیا، جس میں عبدالصمد سیفی نام کے بزرگ نے دعویٰ کیا کہ پانچ جون کو غازی آباد کے لونی علاقے میں کچھ لوگوں نے انہیں پیٹا اور ‘جئے شری رام’ بولنے کے لیے مجبور کیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیےیہ ویڈیو ساجھا کیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ‘تعویذ’سے جڑے ایک تنازعہ  کا نتیجہ تھا، جو بزرگ عبدالصمد سیفی نے کچھ لوگوں کو بیچا تھا اور اس نے معاملے میں کسی میں کسی بھی فرقہ وارانہ  پہلو کو خارج کر دیا۔ سیفی بلندشہر ضلع کے رہنے والے ہیں۔

دوسری جانب متاثرہ سیفی کے بڑے بیٹے ببو نے دی وائر کو بتایا تھا کہ ان کے والدحملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندانی پیشہ  بڑھئی گری کا ہے اور پولیس کا تعویذ کا دعویٰ غلط ہے۔اس ویڈیو کو لےکرملک  بھر میں لوگوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا ۔ اس میں سیفی کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان پر کچھ نوجوانوں نے حملہ کیا اور ‘جئے شری رام’بولنے کے لیے مجبور کیا۔

حالانکہ ضلع پولیس نے کہا کہ انہوں نے واقعہ  کے دو دن بعد سات جون کو درج کرائی ایف آئی آر میں ایسا کوئی الزام  نہیں لگایا۔

قابل ذکر ہے کہ 15 جون کو درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ غازی آباد پولیس نے واقعہ کے حقائق  کے ساتھ ایک بیان جاری کیا تھا، لیکن اس کے باوجود ملزمین نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے یہ ویڈیو نہیں ہٹایا، نہ ہی ٹوئٹر نے انہیں ڈی لٹ کرانے کی کوئی کوشش کی۔

پولیس نے یہ بھی واضح  کیا تھا کہ سیفی پر حملہ کرنے والوں میں ہندو کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شامل تھے اور یہ واقعہ  ان کے بیچ نجی تنازعہ  کا نتیجہ تھا نہ کہ فرقہ وارانہ واقعہ تھا۔ اس نے کہا، ‘اس کے علاوہ ٹوئٹر انک اور ٹیوٹر کمیونی کیشن انڈیا نے ان کے ٹوئٹ ہٹانے کے لیےکوئی قدم نہیں اٹھایا۔’

ایف آئی آر  آئی پی سی کی دفعہ153(دنگے کے لیے اکسانا)، 153اے (مختلف گروپوں  کے بیچ عداوت کو بڑھانا)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے کام کرنا)، 505(شرارت)، 120بی (مجرمانہ  سازش) اور 34 (یکساں ارادے)کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق، ‘ملزمین کے ذریعےکیے گئے ٹوئٹ بڑے پیمانے پر نشر ہوئے۔ ملزمین  کے ذریعے سوشل میڈیا پر دیے گئے بیان مجرمانہ  سازش کی جانب  اشارہ کرتے ہیں۔ملزم اوردیگر لوگوں نے ہندو اورمسلمانوں کے بیچ دشمنی  پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ ٹوئٹ فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کو برباد کرنے کی کوشش تھی۔ ان جھوٹے ٹوئٹ کو ہزاروں کی تعدادمیں لوگوں نے ری ٹوئٹ کیا۔ ملزمین  میں صحافی  اور رہنمابھی ہیں، جنہوں نے معاملے میں سچ پتہ لگانے کی کوشش نہیں کی اور جھوٹی خبر پھیلائی۔’

حکام نے بتایا کہ غازی آباد پولیس نے ابھی تک معاملے میں کلیدی ملزم پرویش گجر سمیت نو لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ17 جون کو وزیر اطلاعات و نشریات روی شنکر پرساد نے غازی آباد معاملےکا ذکر کرتے ہوئے ٹوئٹر کوتنقید  کا نشانہ بنایاتھا۔ انہوں نے فرضی خبروں سے نمٹنے میں ٹوئٹر کی من مانی کارروائی اور غلط جانکاری سے نمٹنے میں ان کی خامی کو  بتایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ٹوئٹر نے کئی موقع دیےجانے کے باوجود جان بوجھ کر نئے آئی ٹی ضابطوں  کے تحت جاری گائیڈ لائن پر عمل  نہیں کیا تھا۔پرساد نے وارننگ  دی کہ اگر کوئی غیرملکی ادارہ یہ مانتا ہے کہ وہ  ہندوستان  میں اظہار رائے   کی آزادی کے علمبردار کےطور پر خود کو پیش کرکے یہاں کے قوانین پر عمل  کرنے سے بچ سکتا ہے تو اس طرح کی  کوشش غلط ہے۔

بزرگ مسلمان کو پیٹنے والے نوجوانوں کو ضمانت

ادھر غازی آباد کے لونی علاقے میں بزرگ مسلمان کو پیٹنے اور داڑھی کاٹنے کے ملزم تمام  نو لوگوں  کو مقامی  عدالت نے عبوری  ضمانت دے دی۔ملزمین کے وکیل نے یہ جانکاری دی۔پولیس نے معاملے میں کلیدی ملزم  پرویش گرجر کو 13 جون کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ 15 جون کو انہوں نے معاملے میں دو اور مشتبہ لوگوں  کو گرفتار کیا تھا۔

اس کے دو دن بعد چھ اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ملزمین کو 17 اگست تک عبوری ضمانت دی گئی ہے۔معاملے میں ملزم پرویش گرجر کے وکیل پرویندر ناگر نے بتایا کہ حالانکہ گرجر جبراً وصولی کے ایک دیگر معاملے میں عدالتی  حراست میں ہی رہےگا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں جن دیگر لوگوں  کو ضمانت دی گئی ہے، ان میں شریک ملزم مشاہد، بابو بہاری عرف ہمانشو، انس اور شاویزشامل ہیں۔ناگر نے کہا کہ کالو، عادل، انتظار اور صدام کو بھی ضمانت دے دی گئی ہے۔ ان تمام لوگوں کو 14 جون کو معاملے کا مبینہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)