خبریں

بزرگ مسلمان پر حملہ: غازی آباد پولیس نے ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی کو بھیجا دوسرا نوٹس

غازی آباد پولیس نےسوموار دیر شام نوٹس جاری کر ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی  کو آگاہ کیا کہ اگر وہ 24 جون کو اس کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو اسے جانچ میں رکاوٹ  کے مترادف مانا جائےگا اور قانونی کارروائی کی جائےگی۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: اتر پردیش کی غازی آباد پولس نے ٹوئٹر پربزرگ  مسلمان کے ساتھ مارپیٹ، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں جئے شری رام کہنے کے لیے مجبور کرنے سے متعلق  ایک ویڈیو جاری ہونے کے معاملے میں سوموار کو ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی  کو آگاہ کیا کہ اگر وہ 24 جون کو اس کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور جانچ میں شامل نہیں ہوئے تو اسے جانچ میں رکاوٹ  کے مترادف مانا جائےگا اور قانونی کارروائی کی جائےگی۔

ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی منیش ماہیشوری کو غازی آباد کے ایس ایس پی  امت پاٹھک نے دوسرا نوٹس جاری کرکے آگاہ کیا ہے کہ ان کے سامنےپیش نہیں ہونے کی صورت میں ان کے خلاف جانچ کو روکنےکے الزام  میں مقدمہ چلایا جائےگا۔

اس بیچ گزشتہ سوموار کو ٹوئٹر نے اس معاملےسے متعلق  50 ٹوئٹس پر روک لگا دی تھی۔ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ ماہیشوری کے معاملے کی جانچ میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شامل ہونے کی پیشکش کرنے کے بعد سوموار دیر شام انہیں نیا نوٹس جاری کیا گیا۔

اس سے پہلے غازی آباد پولیس نے 17 جون کو نوٹس جاری کیا تھا اور ان سے معاملے میں سات دن کے اندر لونی بارڈر تھانے میں اپنا بیان درج کرانے کو کہا گیا تھا۔پولیس کے پہلے نوٹس کے جواب میں ٹوئٹر انڈیا کے چیف  نے کہا تھا کہ غازی آباد پولیس نے جو جانکاری مانگی ہے وہ ٹوئٹر انڈیا سے نہیں ٹوئٹر انک سے جڑی ہے، جو اس کاعالمی ہیڈکوارٹر ہے۔

ٹوئٹر انڈیا کے دہلی دفتر کو بھیجے گئے دوسرے نوٹس میں پاٹھک نے ایم ڈی کو سخت لفظوں میں کہا، ‘آپ کے ذریعے بھیجا گیا ای میل دکھاتا ہے کہ اس معاملے کی جانچ میں آپ پولیس سےتعاون  کرنے کی ذمہ داری سے بچ رہے ہیں۔ آپ کی جانب سے دی گئی  وضاحت  مناسب نہیں ہے۔ ہندوستان  میں ٹوئٹر کے ایم ڈی ہونے کے ناطے آپ کمپنی کے نمائندہ  ہیں، اس لیے آپ جانچ میں تعاون دینے کےلیے  ہندوستان  کےقانون سے بندھے ہوئے ہیں۔’

حکام  نے بتایا کہ کرناٹک کے بنگلورو میں رہنے والے ایم ڈی منیش ماہیشوری کو غازی آباد پولیس نے 17 جون کو نوٹس جاری کیا تھا اور ان سے معاملے میں سات دن کے ندر لونی بارڈر تھانے میں اپنا بیان درج کرانے کو کہا گیا۔

ایس پی (غازی آباد،دیہی) نے بتایا،‘ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی نے جواب دیا ہے اور کچھ وقت کے لیے ویڈیو کال کے ذریعے جانچ سے جڑنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی یقین  دہانی  کرائی ہے۔’

انہوں ے کہا، ‘ٹوئٹر انڈیا کے حکام نے مدعے پر کچھ جانکاریاں  اور وضاحت  دی ہیں۔ ان اطلاعات  کے تناظر میں ہم ٹوئٹر انڈیا کے متعلقہ عہدیداروں  کو ایک اور نوٹس بھیجنے والے ہیں۔’

غازی آباد پولسی نے معاملے میں اب تک ٹوئٹر انڈیا اور نیوز ویب سائٹ ‘دی وائر’ کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں کچھ صحافیوں  اور اپوزیشن  کانگریس کے رہنماؤں پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کو بگاڑنے کے ارادے سے ویڈیو کو ساجھا کرنے کا الزام  ہے۔

غورطلب ہے کہ 13 جون کی شام کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ایک ویڈیو میں 72 سالہ  عبدالصمد سیفی نے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار لوگوں پر انہیں مارنے، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں‘جئے شری رام’بولنے کے لیے مجبور کرنے کا الزام  لگایا تھا۔

بتادیں کہ 15 جون کو دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بزرگ مسلمان پر پانچ جون کو غازی آباد ضلع کے لونی میں اس وقت حملہ کیا گیا تھا، جب وہ مسجد میں نمازادا کرنے کے لیے جا رہے تھے۔اس معاملے میں پولیس نے کلیدی ملزم پرویش گرجر سمیت نو لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ حالانکہ ایک مقامی عدالت نے تمام  نو ملزمین کو 17 اگست تک عبوری  ضمانت دے دی ہے۔

غازی باد پولیس نے 15 جون کو آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر،صحافی  رعنا ایوب، دی  وائر، کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی، شمع محمد،صبا نقوی اور ٹوئٹر انک اور ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پی وی ٹی پر معاملہ درج کیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیےیہ ویڈیو ساجھا کیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ‘تعویذ’سے جڑے ایک تنازعہ  کا نتیجہ تھا، جو بزرگ عبدالصمد سیفی نے کچھ لوگوں کو بیچا تھا اور اس نے معاملے میں کسی میں کسی بھی فرقہ وارانہ  پہلو کو خارج کر دیا۔ سیفی بلندشہر ضلع کے رہنے والے ہیں۔

دوسری جانب متاثرہ سیفی کے بڑے بیٹے ببو نے دی وائر کو بتایا تھا کہ ان کے والدحملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندانی پیشہ  بڑھئی گری کا ہے اور پولیس کا تعویذ کا دعویٰ غلط ہے۔

ساتھ ہی دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں امت آچاریہ نام کے شخص نے اسے لےکر شکایت درج کرائی ہے، جس میں اداکارہ سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے ایم ڈی منیش ماہیشوری، دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی، ٹیوٹر انک، ٹیوٹر انڈیا اور آصف خان کا نام ہے۔

وہیں معاملے میں متاثرہ  بزرگ کے ساتھ ایک فیس بک لائیو کرنے والے سماجوادی پارٹی کے رہنما امید پہلوان ادریسی کو گزشتہ 19 جون کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔