فکر و نظر

نئے آئی ٹی ضابطوں کو اظہار رائے کی آزادی کے خلاف بتاتے ہوئے کورٹ پہنچے میڈیا گھرانے

بڑےمیڈیا گھرانوں نے نئے میڈیاضابطوں کو‘مبہم اورمن مانا’قرار دیتے ہوئے ٹھیک ہی کیا ہے، لیکن  اس کویہ بھی سمجھنا چاہیے کہ روایتی میڈیا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور حالیہ وقت میں آئے ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز کے بیچ فرق  کرنے کی کوششیں بھی قابل دفاع  نہیں ہیں۔

(علامتی تصویر، فوٹوبہ شکریہ: Digitalpfade/pixabay)

(علامتی تصویر، فوٹوبہ شکریہ: Digitalpfade/pixabay)

ڈیجیٹل نیوز میں بڑی حصہ داری رکھنے والےروایتی  اخبار اور ٹیلی ویژن میڈیاکمپنیوں نے بھی2021 کے نئے آئی ٹی ضابطوں کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے کورٹ میں چیلنج دیا ہے۔

ڈیجیٹل نیوز پبلشرس ایسوسی ایشن(ڈی این پی اے)،جس میں ٹائمس آف انڈیا، انڈیا ٹو ڈے، این ڈی ٹی وی، انڈین ایکسپریس، دینک بھاسکر، دینک جاگرن، امر اجالا شامل ہیں، نے مدراس ہائی کورٹ میں ایک رٹ عرضی  دائر کرتے ہوئے انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈلائنس اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ)رولز،2021 کو آئین مخالف،غیرقانونی اورآئین کےآرٹیکل 14، آرٹیکل19(1)اے اور آرٹیکل19(1)جی کی خلاف ورزی کرنےوالاقرار دینے کی مانگ کی ہے۔

عدالت نے متعلقہ سرکاری ایجنسیوں کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔اس عرضی میں بغیر کسی گول مول کے یہ کہا گیا ہے کہ نئےآئی ٹی قانون نے ایسی اکائیوں کے طرزعمل کو بھی قانون کے تحت میں لانے کی کوشش کی ہے، جو انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ،2000 کے دائرے سے بھی باہر ہیں۔

اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ نئےضابطےملک میں نیوز میڈیا کی اظہار رائےکی آزادی اور اس کی آزادی ، جسے ملک  کی سپریم کورٹ  نے اپنے ایک کے بعدایک کئی فیصلوں میں برقرار رکھا ہے، پر روک  لگانے کا دروازہ کھولتے ہیں۔

ایگزیکٹوکوپبلشرکو اطلاع دیےبغیر ہی کسی نیوزموادکو ہٹانے کا ہنگامی اختیاردینے والے نئے آئی ٹی ضابطوں کو لگ بھگ انہی بنیادوں  پر دی وائر، دی  کوئنٹ،آلٹ نیوزا اور لائیو لاء جیسے صرف ڈیجیٹل طور پر دستیاب  میڈیا اداروں  نے چیلنج دیا ہے۔

ہندوستان کی تاریخ  میں ایگزیکٹو نےکبھی بھی خودکو اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے ایسے اختیارات  سے لیس نہیں کیا تھا۔ اور یہ ایک ایسی سرکار ہے،جس کےوزیر اعظم اور دوسرے کئی سینئروزیر اور مقتدرہ پارٹی  کے کئی ممبر1975 میں لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف عوامی تحریک کی قیادت کرنے والے جئےپرکاش نارائن کا شاگرد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ڈی این پی اے کی عرضی  میں کہا گیا ہے کہ اس نے وزارت اطلاعات و نشریات کےسکریٹری کی توجہ  ان نئے آئی ٹی ضابطوں کی پوری طرح سےغیر قانونی اورغیرآئینی حیثیت  کی جانب مبذول  کرنے کی کوشش کی، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سرکار کچھ بھی سننے کے لیے راضی نہیں دکھتی۔

یہ ایک ایسی سرکار نہیں ہے جو جمہوری اصولوں اور روایات کو گہرائی سے متاثر کرنے والےقانون بنانے سے پہلے شیئر ہولڈرز کو اپنا پہلو رکھنے کا موقع دیتی ہے۔

ڈی این پی اے کےممبروں  نے کہا ہے کہ سرکار نےخاطر خواہ  رائے مشورہ کیے بغیر ہی نئے میڈیاضابطوں کی تعمیل  کانوٹیفیکیشن  جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ایسا لگتا ہے کہ وزارت اطلاعات ونشریات نے روایتی  میڈیاداروں سے تھوڑی بہت چرچہ کی تھی۔ لیکن اس نے صرف ڈیجیٹل وجودوالے پبلشرز کے ایسوسی ایشن ڈی جی پب کا جواب  دینا بالکل ضروری نہیں سمجھا۔

وزارت کے ساتھ ایک بیٹھک کی درخواست کرنےوالی اس کی چٹھی کی رسید بھی نہیں بھیجی گئی۔ یہ بس مودی سرکار کے اکھڑ پن کی ایک بانگی ہے۔

روایتی میڈیا مالکوں نےیہ ماننے کی غلطی کی کہ مودی سرکاردلائل  کو لےکر کھلا نظریہ رکھتی ہے۔ انہوں نے یہ سوچا کہ میڈیا کو کنٹرول  کرنے والی موجودہ سیلف ریگولیشن کے نظام کے بنیادی تقدس  کو بچائے رکھنے کے لیے بات چیت کے ذریعے کوئی بیچ کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔

ڈی این پی اے نے یہ دلیل دی ہے کہ پریس کاؤنسل ایکٹ،کیبل ٹی وی نیٹ ورک ایکٹ کے تحت پروگرام کوڈ اور دیگرموجودہ قانون میڈیا کا ریگولیشن کرنے کے لیے کافی  ہیں۔ اس کے علاوہ ایسےضابطوں کی کوئی کمی نہیں ہے،جس کے تحت موجودہ وقت  میں میڈیا کو مجرمانہ ہتک سے لےکرمجرمانہ دفعات  لگانے والی ایف آئی آر تک کے ذریعے جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔

وزارت اطلاعات و نشریات نے روایتی  میڈیا کےموجودہ نظام  کےتحت خاطرخواہ  طریقے سے ریگولیٹ  ہونے کے دعوے کو خارج کر دیا۔سرکار نے ڈی این پی اے کو لکھا کہ ان کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو ڈیجیٹل وقف  نیوزاداروں  کی ہی طرح  نئے ضابطوں پر عمل  کرنا ہوگا۔

یہ محسوس کرتے ہوئے کہ مودی سرکار کچھ بھی سننے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے، ڈی این پی اے کے ممبروں  نے مدراس ہائی کورٹ میں فریاد کرنے کا فیصلہ کیا۔

حالانکہ ڈی این پی اے نے نئے میڈیا ضابطوں کی پوری طرح سے غیرقانونی اورغیرآئینی حیثیت  کے معاملے کو اٹھایا ہے، لیکن یہ اب بھی ڈیجیٹل وقف  نیوز میڈیا کو ایک الگ زمرے کے طور پر دیکھنے کی غلطی کر رہا ہے۔

اس نے اپنی رٹ عرضی  میں کہا ہے کہ روایتی  میڈیا،جس نےآزادی کے بعد کی دہائیوں میں ریگولیٹری معیارات اوراسٹینڈرڈکی  تشکیل  کی ہے،اس کاموازنہ نئے اور ڈیجیٹل کی پیدائش والے نیوزاداروں سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ پوری طرح سے ایک غلط دلیل ہے،کیونکہ آرٹیکل 19(1)اے کے تحت جس اظہار رائے کی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے، وہ دو نیوز پلیٹ فارمزکے بیچ فرق نہیں کرتا ہے، بھلے وہ کتنے پرانے ہوں یا ان کا ماخذکیسا بھی ہو۔

ڈی این پی اے نے فزیکل اخبارات  اور اس کے آن لائن ایڈیشن کے بیچ قانونی فرق کرنے والے نئے میڈیاضابطوں کو ٹھیک ہی ‘مبہم اور من مانا’قرار دیا ہے۔اسی دلیل سے روایتی  میڈیا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمزاورپچھلے کچھ وقت میں ڈیجیٹل کےطور پر ہی جنم لینے والے نیوز پلیٹ فارمز کے بیچ فرق کرنے کی کوششیں آزاد ااظہار کی آئینی گارنٹی کی روشنی میں ٹکنے والی نہیں ہیں۔ اچھا ہوگا اگر ڈی این پی اے اس بڑی تصویر کو دھیان میں رکھے۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایگزیکٹوخودکو یہ فیصلہ کرنے کےحق  سے لیس نہیں کر سکتی ہے کہ کیااظہار رائے کی آزادی اور اس حساب سے پابندیوں  کے دائرے میں آئےگا۔ اس کا فیصلہ صرف عدالتی اتھارٹی  کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔

این ڈی ٹی وی پر ایک بحث میں سپریم کورٹ کے سابق جج  جسٹس دیپک گپتا نے کہا کہ میڈیا کاریگولیشن ضروری ہے، لیکن یہ کام کسی خودمختار اتھارٹی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے نہ کہ ایگزیکٹوکے ذریعے۔ ایسا لگتا ہے یہ سرکار اس عام  سی بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)