فکر و نظر

کیا آفات میں پبلسٹی اسٹنٹ کے لیے تعلیمی ادارے وزیر اعظم کو ’تھینک یو‘ بولیں

گزشتہ  دنوں یوجی سی نے تمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور تکنیکی اداروں  کو 18سال سے زیادہ کی عمر والوں کے لیے مفت ٹیکہ کاری شروع کرنے کے لیےوزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پوسٹرلگانے کوکہا ہے۔

بھوپال کی ایل این سی ٹی یونیورسٹی کی جانب سے ان کے سوشل میڈیا پر ساجھا کیا گیا پوسٹر۔(بہ شکریہ: ٹوئٹر/@LNCTUniversity)

بھوپال کی ایل این سی ٹی یونیورسٹی کی جانب سے ان کے سوشل میڈیا پر ساجھا کیا گیا پوسٹر۔(بہ شکریہ: ٹوئٹر/@LNCTUniversity)

یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نےتمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور تکنیکی اداروں کو ویکسین کو لےکروزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کرنے والے بینر لگانے کو کہا ہے۔

یونیورسٹی  ایک خودمختار ادارہ ہے اور اساتذہ /طالبعلموں کا کام سرکار کے پروگراموں کی تعریف  کرنا نہیں ہے۔ یونیورسٹی  کا بنیادی تصورسچائی  کی تلاش اورتنقیدی فکر(کرٹیکل تھنکنگ)کو فروغ دینا ہے۔ یہی وجہ  ہے کہ یونیورسٹیوں کو ریاستوں کی دخل اندازی   کے دائرے سے باہر رکھا گیا۔

اسی تنقیدی فکر کے مدنظر یونیورسٹی  مندرجہ ذیل وجوہات سے ‘تھینک یو مودی’ نہیں کہہ سکتے؛

–مفت ویکسین کوئی چیرٹی نہیں ہے جو وزیر اعظم مودی دے رہے ہیں بلکہ یہ تمام شہریوں  کا حق ہے۔ جس پیسے سے شہریوں کو ‘فری’ ویکسین دی جا رہی ہے وہ لوگوں کے پیسے ہیں  نہ کہ وزیر اعظم کے۔ پہلے بھی ہندوستان کے شہریوں کومفت ٹیکہ ملتا رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں مفت  ٹیکہ کاری  کاانتظام ہے۔کیاشہری اپنے حقوق  کے تحفظ  کے لیے بھی مودی جی کا شکریہ ادا کریں؟

– یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ عوام کے دباؤ، اپوزیشن پارٹیوں کی تنقید اور سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد مرکزی حکومت  نے سینٹرلائزڈ ٹیکہ کاری کی سمت میں قدم اٹھایا۔تو کیا ویکسین کی خریداری کو لےکر مہینوں تک کورٹ کچہری کرنے اور ریاستی سرکاروں پر ٹھیکرا پھوڑنے کے لیے بھی مودی جی کو تھینک یو کہا جائے؟

– یہ عجیب بات ہے کہ آج جس ٹیکے کا کریڈٹ مودی جی لینا چاہ رہے اسی کو اگر وقت رہتے لگوا دیا گیا ہوتا، تو شاید لاکھوں لوگوں کی جان بچ سکتی تھی۔ ان جان گنوانے والوں میں یونیورسٹی  کے اساتذہ ، طالبعلم اور ملازمین سبھی شامل ہیں۔ آج جو اپنے بیچ نہیں رہے، کیا اس بات کے لیے بھی مودی جی کو شکریہ کہیں؟

– کیا‘تھینک یو’اس بات کے لیے بولا جائے کہ ویکسین پالیسی کے تحت دوسرے ممالک کو ویکسین بھیج کراپنے شہریوں کی قربانی دےکر مودی جی‘وشو گرو’بننے چلے تھے۔

– ملکی ٹیکہ بنانے کا سہراملک کے سائنسدانوں کو جاتا ہے۔ ویکسین بنانے کی سمت میں طویل عرصے سے سائنسی تحقیق چل رہی ہے۔ آج انہی تحقیقات کا نتیجہ ہے کہ ملک میں کم وقت میں کورونا کا ٹیکہ بن کر تیار ہو گیا۔ کیا لمبےعرصے سے چل رہی سائنسی تحقیقات کے لیے بھی موجودہ وزیر اعظم مودی جی کو شکریہ کہا جائے؟

– آج یونیورسٹیوں کا فنڈ کم کیا جا رہا ہے۔ یہ یونیورسٹی ہی ہیں جہاں سے سائنسی تحقیقات کی بنیاد پڑتی ہیں۔ ریسرچ کی بدولت ہی دواؤں اور ٹیکوں کے اثرات کو لےکر کام کیا جاتا ہے۔ تو کیا مودی جی کو اس بات کے لیے شکریہ کہا جائے کہ انہوں نے فنڈ کٹ کرکے تحقیقات کےامکانات کومحدود کر دیا ؟

– اور پھر عوام کے پیسے سے‘تھینک یو مودی’ کا انعقاد کیوں؟ کیایونیورسٹی  اور اسکول میں عوام کے پیسے سے اس طرح کا انعقاد مناسب  ہے؟ ایک طرف کورونا کا حوالہ دےکر بہت سارے مدوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے ،وہیں اس طرح کے پبلسٹی اسٹنٹ کے لیے مودی جی کو شکریہ کہا جائے؟

– مودی سرکار نے سپریم کورٹ میں کہا کہ وہ کورونا سے ہوئی موت پر لوگوں کو چار لاکھ کا معاوضہ نہیں دے سکتی۔ تو کیا اس بات کے لیے مودی سرکار کا شکریہ ادا کیا جائے کہ وہ صنعت کاروں کا قرض معاف کر سکتی ہے، اپنے پرچار پر کروڑوں خرچ کر سکتی ہے لیکن مہاماری کے دوران اپنے شہریوں کے بے وقت  گزر نے پر 4 لاکھ روپے کا معاوضہ نہیں دے سکتی؟

– کورونا سے جان گنوانے والے لوگوں کی تعدادکو لےکر لگاتار سوال اٹھے ہیں اور اب بھی اٹھ رہے ہیں۔ کیا تھینک یو اس لیے بولا جائے کی لاکھوں لوگ موت کے منھ میں سما گئے یا اس لیے کہ مرنے والوں کے صحیح اعدادوشمار تک نہیں دیے جا رہے؟

– اور کیااساتذہ  اور طالبعلم مودی جی کو اس لیے شکریہ بولیں کہ ایک سال سے زیادہ سے کالج اور اسکول تو بند ہیں لیکن انتخابی ریلی اور کمبھ جیسے انعقاد کیے گئے؟ کیا وہ اس لیے تھینک یو کہیں کہ سرکار نے آفات  میں بھی پروپیگنڈہ  کا موقع تلاش  کرلیا؟

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی  کے شری وینکٹیشور کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)