خبریں

غازی آباد حملہ: متاثرہ بزرگ کے ساتھ فیس بک لائیو کرنے والے سماجوادی رہنما پر این ایس اے لگا

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل  ہوئے ایک ویڈیو میں  بزرگ مسلمان عبدالصمدسیفی نے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار لوگوں پر انہیں مارنے، داڑھی کاٹنے اور ‘جئے شری رام’ بولنے کے لیے مجبور کرنے کا الزام لگایا تھا۔واقعہ  کے بعد سماجوادی رہنما امید پہلوان ادریسی نے ان کے ساتھ فیس بک لائیو کیا تھا۔

امید پہلوان ادریسی۔ (فوٹو: فیس بک/Ummed Pahalwan Idrisi)

امید پہلوان ادریسی۔ (فوٹو: فیس بک/Ummed Pahalwan Idrisi)

نئی دہلی: اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں بزرگ مسلمان سے مارپیٹ سے متعلق معاملے میں سماجوادی پارٹی کے رہنما امید پہلوان ادریسی کے خلاف پولیس نے این ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا ہے ۔دراصل سماجوادی رہنما نے واقعہ کے بعد متاثرہ بزرگ کے ساتھ ایک فیس بک لائیو کیا تھا۔غازی آباد پولیس نے معاملے کوفرقہ وارانہ  رنگ دینے کے الزام میں ادریسی کو 19 جون کو گرفتار کیا تھا۔

ان کے خلاف درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے سماج میں دشمنی  پیدا کرنے کی منشا سے یہ ویڈیو بنایا اور اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ساجھا کیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، غازی آباد پولیس کے حکام کے مطابق، ادریسی کے خلاف این ایس اے لگانے کی کارروائی  کو محکمہ داخلہ  نےمنظوری دے دی ہے۔ ادریسی کے خلاف ایف آئی آر آئی پی سی کی دفعہ 153اے (مختلف کمیونٹی  کے بیچ دشمنی  بڑھانا)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے کام کرنا)، 504 (جان بوجھ کر توہین کرنا)، 505 (شرارت)، 120بی (مجرمانہ  سازش) اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67اے کے تحت درج کی گئی ہے۔

پولیس نے ادریسی کے خلاف این ایس اے، 1980 کی دفعہ تین لگائی ہے۔

غورطلب ہے کہ سوشل میڈیا پر ساجھا کیے گئے ایک ویڈیو میں بزرگ مسلمان نے غازی آباد کے لونی علاقے میں چار لوگوں پر انہیں مارنے، ان کی داڑھی کاٹنے اور انہیں ‘جئے شری رام’ بولنے کے لیے مجبور کرنے کا الزام لگایا تھا۔

 دی  وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا، ‘غازی آباد ضلع کے لونی میں ایک مسلم بزرگ پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کئی دیگر رپورٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ حملہ پانچ جون کو اس وقت  ہوا تھا، جب یہ بزرگ نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے۔’

غازی آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ‘تعویذ’سے جڑے ایک تنازعہ  کا نتیجہ تھا، جو بزرگ عبدالصمد سیفی نے کچھ لوگوں کو بیچا تھا اور اس نے معاملے میں کسی میں کسی بھی فرقہ وارانہ  پہلو کو خارج کر دیا۔

دوسری جانب متاثرہ سیفی کے بڑے بیٹے ببو نے دی وائر کو بتایا تھا کہ ان کے والدحملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندانی پیشہ  بڑھئی گری کا ہے اور پولیس کا تعویذ کا دعویٰ غلط ہے۔اس معاملے میں پولیس نے کلیدی ملزم پرویش گرجر سمیت نو لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ حالانکہ ایک مقامی  عدالت نے تمام ملزمین کو 17 اگست تک عبوری  ضمانت دے دی ہے۔