خبریں

فرانس: میکروں-مودی کو صدمہ، ہندوستان کے ساتھ ہوئے رافیل سودے کی جانچ کے حکم

پیرس کی ویب سائٹ میڈیا پارٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داسو ایوی ایشن نے انل امبانی گروپ  کے ساتھ پہلا ایم او یو 26 مارچ 2015 کو کیا تھا۔اس کے دو ہفتے بعد ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے 126 رافیل طیاروں کےسودے کومنسوخ کرتے ہوئے 36 وطیاروں  کی خریداری  کے فیصلے کاعوامی اعلان کیا تھا۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر/@Emmanuel Macron)

فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر/@Emmanuel Macron)

نئی دہلی: ہندوستان  اور فرانس کے بیچ ہوئے متنازعہ رافیل سودے کو لےکر فرانس میں اٹھائے گئے حالیہ قدم کے بعد ملک میں پھر سے اس سودے کو لےکر آزادانہ  تحقیقات کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔

پیرس کی ویب سائٹ میڈیا پارٹ کی جمعہ کو آئی ایک رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کو 7.8 بلین یورو میں فروخت کیے گئے 36 جنگی طیاروں کے معاملے میں مبینہ بدعنوانی  اور جانبداری کی عدالتی تحقیقات کے لیے ایک جج کی تقرری  کی گئی ہے۔

ویب سائٹ کے نمائندہ  نے انکشاف کیا کہ 2016 کے بین حکومتی سودے میں باضابطہ طورپر‘انتہائی حساس تحقیقات’14 جون کو فرانسیسی پبلک پراسیکیوشن سروسز (پی این ایف)کی فنانشل کرائم برانچ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوئی ہے۔

یہ جانچ سودے کے بارے میں میڈیا پارٹ کے ذریعے اپریل2021 میں شائع کی جانے والی متعدد تحقیقاتی رپورٹس کے مد نظر شروع کی گئی ہے، جس میں ایک مڈل مین  کا رول بھی شامل ہے، جس کے انکشاف سےہندوستان کا انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) مبینہ  طور پر آگاہ ہے، لیکن اس نے اب تک اس کی جانچ کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی ہے۔

ان رپورٹس کو کو اس اور اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔ ویب سائٹ کےانکشاف کے بعد فرانس کے فرانسیسی اینٹی کرپشن این جی او شیرپا نے ‘بدعنوانی، ‘کے اثر کا فائدہ اٹھاکر پیڈلنگ’، ‘منی لانڈرنگ’، ‘جانبداری اور سودے کو لےکرغیر منصفانہ ٹیکس چھوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پیرس کے ٹریبونل میں شکایت درج کی۔

میڈیا پارٹ کے مطابق، پی این ایف  نے اس بات کی تصدیق  کی ہے کہ ان چاروں جرائم  کو مرکز میں رکھ کر جانچ کی جائےگی۔

پی این ایف کا باضابطہ انکوائری کا مطالبہ کرنے کا فیصلہ سال 2019 میں اس کے موقف کو پلٹتا ہے۔ اس وقت  اس کی سربراہ ایلین ہاؤٹ نے اپنے ایک ملازم  کی صلاح کے خلاف جاتے ہوئے بنا کسی جانچ کے شیرپا کی شکایت کو خارج کر دیا تھا۔ اپنے فیصلے کو صحیح ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ایسا ‘فرانس کے مفادات کے تحفظ’کے لیے کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق‘اب دو سال بعدپی این ایف کے موجودہ سربراہ جیاں فرانسوا بوہارٹ نے شیرپا کی شکایت میں میڈیا پارٹ کی حالیہ تحقیقاتی سیریز کوجوڑے جانے کے بعد جانچ کروانے کی حمایت کی ہے۔’

دیگر پہلوؤں کے علاوہ اس مجرمانہ تحقیقات میں سا بق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند ، جو رافیل سودے کے وقت عہدےپر تھے، موجودہ صدرایمانوئل میکروں ، جو اس قت  اولاند کے وزیر خزانہ  تھے، کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وزیر دفاع جیاں ویس لے درعان(جو اب میکروں کےوزیر خارجہ ہیں)کے فیصلوں  پر اٹھے سوالوں کو لےکر بھی جانچ کی جائےگی۔

جانچ کی سربراہی  ایک آزاد مجسٹریٹ ایک تفتیشی جج کے ذریعے کی جائےگی۔

میڈیا پارٹ کو دیے، بیان میں شیرپا کے بانی اور وکیل ولیم بورڈن اور ونسیٹ برینگرتھ نے کہا کہ جانچ کی شروعات لازمی طور پر سچائی کو سامنے لائےگی اور ان لوگوں کی پہچان کرےگی، جو سرکاری گھوٹالے کے طور پر سامنے آ رہے اس معاملے کے ذمہ دار ہیں۔’

داسو ایوی ایشن کی جانب سے حالیہ اقدامات پر تبصرہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن کمپنی اس سے پہلے لگاتار کسی بھی غلط کام کو کرنے کی بات سے انکار کرتے ہوئے کہتی رہی ہے کہ وہ ‘اوای سی ڈی انسداد رشوت خوری کنونشن اور قومی قوانین کی سختی سے تعمیل کرتی رہی  ہے۔’

میڈیا پارٹ نے بتایا کہ داسو نے کہا تھا، ‘فرانسیسی انسداد بدعنوانی ایجنسی سمیت سرکاری تنظیموں کے ذریعہ بہت سے پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ کسی بھی طرح کی خلاف ورزی (بالخصوص ہندوستان کے ساتھ ہوئے 36رافیل طیاروں  کے سودے کے معاملے میں) کی بات سامنے نہیں آئی ہے۔’

سوالوں کے گھیرے میں انل امبانی کا رول

انل امبانی کے ریلائنس گروپ 36طیاروں کے سودے میں داسو کےہندوستانی شراکت دار، کے ذریعے نبھائے گئے مرکزی رول  کو دیکھتے ہوئے مجرمانہ تفتیش میں دونوں کمپنیوں کے بیچ تعاون  کی نوعیت  کی بھی جانچ کا امکان ہے۔

ہندوستان  اور داسو سرکاری طور پر126رافیل جیٹ کی خریداری  اور تیاری  کے لیے شرائط پر تب تک بات چیت کر رہے تھے، جب تک 10 اپریل 2015 کووزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے36 جنگی طیاروں  کی ایک مشت خریداری  کے عوامی  اعلان کے بعد اس سودے کو منسوخ  کرتے ہوئے اس نئے سودے سے بدل نہیں دیا گیا۔ اس وقت ہندوستان کے وزیر دفاع منوہر پریکرآخر تک مودی کے فیصلے سے انجان تھے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ انل امبانی کو اس کا اندازہ تھا۔

میڈیا پارٹ کا یہ سنسنی خیز انکشاف بتاتا ہے کہ داسو اور ریلائنس کے بیچ پہلا میمورینڈم آف انڈراسٹینڈنگ(ایم او یو)اصل میں 26 مارچ 2015 کو ہوا تھا۔

ویب سائٹ کی رپورٹ کہتی ہے، ‘میڈیا پارٹ کے ذریعے دیکھے گئے دستاویز بتاتے ہیں کی داسو اور ریلائنس پہلا ایم او یو 26 مارچ 2015 کو سائن ہوا تھا۔ یہ مودی کے سودے میں تبدیلی  کے اعلان اور ایچ اے ایل کے باہر ہونے سے پندرہ دن پہلے کی بات ہے۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دونوں کمپنیوں کو پہلے سے اس بارے میں جانکاری دی گئی تھی۔’

اس ایم او یو میں دونوں کمپنیوں کے بیچ‘پروگرام اور پروجیکٹ مینجمنٹ’،‘ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ’، ‘ڈیزائن اور انجینئرنگ’، ‘اسمبلنگ اینڈ اینڈ مینوفیکچرنگ’ ، ‘مینٹیننس’ اور ‘ٹریننگ’ کو شامل کرنے کے لیے‘ممکنہ جوائنٹ وینچرز’ کی اجازت دی گئی تھی۔

حالاں کہ داسو اب بھی126رافیل کے اصل معاہدےکے نفاذ کے لیے ہندستان ایروناٹکس لمٹیڈ (ایچ اےایل)کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا، لیکن نئے ایم او یو میں ایچ اے ایل کے ساتھ کسی بھی ایسوسی ایشن یا شراکت داری  کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی تھی۔

میڈیا پارٹ نے داسو ایوی ایشن اور انل امبانی کی ریلائنس کے بیچ ہوئے پارٹنرشپ کے معاہدہ ، جس کے تحت 2017 میں ناگپور کے پاس ایک انڈسٹریل پلانٹ کی تعمیر کے لیے داسو ریلائنس ایروسپیس لمٹیڈ(ڈی آرایل)کے نام سے ایک جوائنٹ وینچرز کمپنی بنائی تھی، کے بارے میں بھی نئی جانکاریوں کا انکشاف کیا ہے۔

فرانسیسی ویب سائٹ کوحاصل خفیہ  دستاویز دکھاتے ہیں کہ داسو کو سیاسی وجوہات سے الگ  ریلائنس کے ساتھ کسی بھی طرح کی شراکت داری میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔اور ریلائنس سے ان کی اصل توقع‘ہندوستانی حکومت  کے ساتھ پروگراموں  اورخدمات  کی مارکیٹنگ کی تھی۔’

‘دستاویزوں سے معلوم چلتا ہے کہ داسو نے ریلائنس کے ساتھ ہوئے سودے کے اپنے جوائنٹ وینچرزکے لیے کافی سخاوت مند  مالی شرطیں رکھی تھیں۔ عام طور پر، مشترکہ ملکیت  والی سبسڈری میں شراکت دار یکساں رقم  دیتے ہیں، لیکن ڈی آراے ایل کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔

‘دونوں شراکت داروں  میں اس سبسڈری میں169 ملین یورو کے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری پر رضامندی بنی تھی۔ اس میں سے داسو، جس کا ڈی آراے ایل میں49فیصد حصہ ہے، میں 150 ملین یورو دینے کی بات کہی تھی، جو کل رقم کا 94فیصد ہے، جبکہ ریلائنس کو بچے ہوئے دس ملین یورو دینے تھے۔’

‘اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریلائنس کونسبتاً بہت معمولی رقم کے بدلے جوائنٹ وینچرز میں51فیصد حصہ داری دی گئی تھی۔’

‘جبکہ ریلائنس نہ تو پیسہ  لایا اور نہ ہی جوائنٹ وینچرزکے لیے کوئی اہم  جانکاری، اس نے جو دیا وہ تھا سیاسی  اثر ورسوخ ۔ میڈیا پارٹ کو ملے ریلائنس اور داسو کے بیچ ہوئے قرار سے متعلق  دستاویز بتاتے ہیں کہ انل امبانی گروپ کو ‘ہندوستانی حکومت  کےپروگراموں اورخدمات کی مارکیٹنگ’ کا ذمہ سونپا گیا تھا۔’

داسو اور ریلائنس کے بیچ سودے کی شرطوں کے بارے میں تازہ ترین انکشافات سے وہ سوال پھر سے اٹھیں گے، جو سابق فرانسیسی صدر اولاند کے 2018 کے ایک انٹرویو کے بعد اٹھے تھے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ داسو کے شراکت دار کے طور پر ریلائنس کاانتخاب ہندوستانی حکومت کے ذریعے کیا گیا تھا اور فرانس کے پاس ‘کوئی راستہ نہیں تھا۔’

جہاں مودی سرکار، ریلائنس اور داسو نے اولاند کی کہی باتوں کی تردید کی تھی، فرانسیسی سرکار نے باضابطہ طور پرسابق صدر کی  کہی گئی باتوں کی تردید نہیں کی۔

اولاند کے بیان کے بعد وہ الزام بھی سامنے آئے تھے، جہاں کہا گیا تھا کہ ریلائنس گروپ  کی ایک کمپنی، ریلائنس انٹرٹینمنٹ نے جنوری 2016 میں اس وقت کے صدر اولاند کی ساتھی اور اداکارہ  جولی گائےکےساتھ بنائی گئی ایک فیچر فلم کے لیے 1.6 ملین یورو دیےتھے۔

ریلائنس اور داسو کے بیچ مارچ 2015 اور نومبر 2015 میں ہوئے ایم او یو

نو نومبر 2015 کو داسو کے سی ای او ایرک ٹریپیر اور ریلائنس گروپ  کے سربراہ  انل امبانی نے ایک اسٹریٹجک پارٹنرشپ کےسمجھوتے پر دستخط کیے تھے، جوہندوستان میں ایک جوائنٹ وینچرزکے قیام کے لیے26 مارچ 2015 میں ہوئے ایم او یو کے مقابلےمیں زیادہ تفصیلی  دستاویز ہے۔

میڈیا پارٹ کی رپورٹ کے مطابق، نومبر 2015 سمجھوتے کے بعد دونوں کمپنیوں نےہندوستان میں‘فروخت کے لیے’ ایک منصوبہ  شروع کیا، جس کے کام میں‘طیاروں کو اسیمبل کرکے اسے حتمی صورت دینا’ شامل ہوگا اور یہ ایک جوائنٹ وینچرزکمپنی ہوگی۔

دلچسپ بات ہے کہ داسو اور ریلائنس نے جنگی  جیٹ طیارے کی تیاری  میں بھی حصہ لینے کے بارے میں بھی  سوچا، جس کا چارج  ایچ اے ایل کے پاس تھا۔ دونوں کمپنیوں نے ایچ اےیل کے تیار کردہ ‘لائٹ کامبیٹ ایئرکرافٹ’(ایل سی اے)طیاروں  کے مستقبل کے  ورژن کی ‘ڈیزائن کنسلٹینسی’ دستیاب  کرانے کا منصوبہ  بنایا تھا۔

میڈیا پارٹ کے مطابق، ‘نومبر 2015 کےسمجھوتے میں یہ بھی تصدیق  کی گئی ہے کہ داسو کی ریلائنس کے ساتھ شراکت داری  میں بہ مشکل ہی کوئی انڈسٹریل دلچسپی  تھی۔’

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داسو نے کس طرح ‘ٹکنالوجی، تکنیکی مدد اور بین الاقوامی مارکیٹنگ کی صلاحیت’مہیا کرائی، وہیں ریلائنس کو صرف‘پروڈکشن کی سہولت’،ممکنہ زمین،’اورقوانین کےمطابق ہندوستانی سرکار وردیگر مجازاتھارٹی کےساتھ ان کے پروگراموں  کے لیے مارکیٹنگ اور خدمات’ فراہم  کرانی تھی۔

مختصراً  کہیں تو، میڈیا پارٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ری لائنس کو اس کے اثر ورسوخ  کا استعمال کرنا تھا۔’

‘داسو کی جانب  سے ریلائنس کو ملے فنڈز’

بتادیں کہ 36رافیل طیاروں  کی فروخت کو حتمی شکل  دینے والے بین  سرکاری سمجھوتے پر ستمبر 2016 میں دستخط ہوئے تھے۔ اس کے دو مہینے بعد 28 نومبر 2016 کو داسو اور ریلائنس نے ایک شیئرہولڈر سمجھوتہ کیا، جس کے ذریعے مستقبل  کی جوائنٹ وینچرز کمپنی کو لےکر ان کے تعلقات  کا خاکہ کھینچا گیا۔

لیکن میڈیا پارٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کی مالیاتی تفصیلات اتنی  حساس  ہیں کہ کانٹریکٹ میں اس کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ اس کے بجائے ایک خفیہ  سائیڈ لیٹر میں اس کی جانکاری تھی، جس پر اسی دن دستخط ہوئے تھے۔

‘یہ وہ سائیڈ لیٹر ہے، جس میں داسو کے ذریعے ریلائنس کو تحفے میں دی گئی رقم  شامل ہے۔’

رپورٹ میں کہا گیا، ‘لگ بھگ برابر کے شراکت داروں  کے طور پر دونوں کمپنیوں نے جوائنٹ وینچرز کی پونجی کے لیے ایک کروڑ یورودستیاب  کرانے کا عہدکیا تھا۔ اس وقت تک سب کچھ کاروبار کےضابطوں کے مطابق ہی ہوا تھا۔ لیکن داسو نے شیئر پریمیم دینے کا بھی وعدہ کیا، جو دراصل شیئروں کی قیمت پر ایک اضافی رقم ہوتی ہے۔ یہ پریمیم زیادہ سے زیادہ 43 ملین یورو کا ہے، ساتھ میں قرض کی تفصیلات، جس میں کہا گیا ہے کہ 106 ملین یورو سے زیادہ  نہیں۔’

رپورٹ میں کہا گیا،‘اس کا مطلب ہے کہ داسو نے کل سرمایہ کاری کی رقم 169 ملین یورو میں سے 159 ملین یورو کی رقم فراہم  کرانے کا عہد کیا تھا، جوکل رقم کا 94 فیصدی ہے۔ اس بیچ ریلائنس کو لےکر کہا گیا کہ اس کی شراکت  ایک کروڑ یورو سے زیادہ نہیں ہوگی۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)