فکر و نظر

کیا ہندوستان میں مذہب کے سلسلے میں قول و فعل میں تضاد ہے

امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹرنے ہندوستان  میں مذہبی ہونے کو لےکرسروے رپورٹ شائع  کی ہے۔ رپورٹ دکھاتی ہے کہ ہم ہندوستانی  دور سے سلام کےاصول پر عمل پیرا ہیں۔ آپ ہم سے زیادہ دوستی کی امید نہ کریں، ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے جب تک آپ اپنے دائرے میں بنے رہیں۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

یہ المیہ  ہی ہے کہ اس ہندوستانیت کے دور میں ایک‘غیرہندوستانی ’تحقیقی ادارے سے ہمیں اپنےملک میں مذہبی ہونےکی حقیقی صورتحال کا پتہ چلے۔ کچھ دن پہلے امریکہ واقع  ‘پیو ریسرچ’ نے اس سلسلے میں کیے گئے ایک جامع  سروے کی رپورٹ جاری کی۔

اس ادارے کا کام امریکہ اور دنیا کے دوسرے ممالک  میں معاشرتی سلوک کی تحقیقات  کرنے کے لیے سروے کرنا، الگ الگ موضوعات اور خدشات پر لوگوں کے رجحانات اور خیالات کو مرتب کرنا، اعدادوشمار کا تجزیہ اور اسی طرح کے دوسرے تحقیقی کام کرنا ہے۔

یہ خودمختار ادارہ ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے سروےمستند سمجھےجاتے ہیں۔ اپنے طریقہ کار کو اس نے قابل اعتماد بنائے رکھا ہے اور اسی وجہ سے اس کا احترام کیا جاتاہے۔ اس لیے اس رپورٹ پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں کہ اس سے ہندوستان میں مذہبی ہونے  کی صورتحال  کا ایک ٹھیک ٹھیک انداز ہ ہمیں ہو سکتا ہے۔

اس کاعنوان ہے:‘ہندوستان  میں مذہب: رواداری  اور علیحدگی۔’عنوان  سے ہی اس تضادیامتضاد انسانی  صورتحال کا ااندازہ لگایا  جا سکتا ہے جو مذہب  کے حوالے سے  ہندوستان  میں پائی جاتی ہے۔

کیا ہم جس کے لیے رواداری کا جذبہ  رکھتے ہیں، اس سے علیحدگی اور دوری بھی بناکر رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم الگ الگ ساتھ رہ سکتے ہیں؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس پر ہم آگے چرچہ کریں گے۔ پہلے رپورٹ جو پتہ کرتی ہے، وہ دیکھیں۔

رپورٹ ہندوستان  میں مذہب  کی حالت سے زیادہ خود کومذہبی  ماننے والوں کے ثقافتی ، معاشرتی اور سیاسی  رجحانات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس لیے اس کو مذاہب  کے بارے میں کوئی رپورٹ ماننا ٹھیک نہ ہوگا۔ نہ ہی مذہبی ہونے کے بارے میں۔

یہ اس لیے کہ مذہبی ہونے کو لےکربہت زیادہ ابہام ہے اور اس کی کوئی ٹھیک ٹھیک تعریف  نہیں کی جا سکتی۔ یہ ٹھیک بھی ہے۔ لوگ الگ الگ طریقے سے مذہبی ہونے کے لیےآزاد ہوں، یہی نیک فال ہے۔ جب جب لوگوں پر ایک طرح کی مذہبیت پر عمل پیرا ہونے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے، تو سرکشی ہوتی ہے۔ لیکن مذہبی ہونے  کا ایک معاشرتی پہلوہے اور وہی ہمارے لیےاہم ہے۔

ہندوستانی لوگ دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے زیادہ مذہبی ہوتے ہیں،یہ مانا گیا ہے۔یا وہ اپنی  زندگی  کے ہر شعبے،بشمول سیاست مذہب کےرول کو دوسرے ممالک کے مقابلے زیادہ  اہم  مانتے ہیں،یہ پیو سینٹر کی2019 کی عالمی  رپورٹ سے معلوم پڑتا ہے۔

یورپ، امریکہ جیسے علاقوں میں اکثریت یہ مانتی ہے کہ ان کے یہاں سماج اور سیاست پر مذہب کا اثر کم ہواہے۔ لیکن انڈونیشیا، فلپنس اور ہندوستان  جیسے ممالک میں اکثر10 میں سے 7 لوگوں کی سمجھ ہے کہ ان شعبوں  میں مذہب کا اثر بڑھا ہے۔ یہی حال نائجریا اور کینیا جیسے ملکوں کا ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ پوری دنیا میں زیادہ تر لوگوں کی سمجھ ہے کہ مذہب کا رول  اور مؤثر  ہونا چاہیے۔

ہندوستان سےمتعلق  پیو سینٹر کی رپورٹ سے اپنے بارے میں ہمیں کچھ حیران کن باتیں معلوم ہوتی ہیں۔جیسے یہ کہ ہندوستان میں اکثریت  کا ماننا ہےکہ ہندوستان  میں مذہبی تنوع برقرار رہا ہے۔ یہی نہیں زیادہ تر ہندوستانی  مانتے ہیں کہ دوسرے مذاہب  کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ان کی سمجھ ہے کہ ہندوستانی  ہونے کا مطلب  ہے اپنے علاوہ دوسرے مذاہب  کا احترام ۔

اس سے آگے بڑھ کر وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ سچے مذہبی تبھی ہو سکتے ہیں جب وہ دوسرے مذاہب کا احترام  کریں۔ رواداری مذہبی  اور سماجی خوبی  کےطورپر قبول  کی جاتی ہے، یہ بات بہت حوصلہ افزا ہے۔

اسی طرح آدھے سے زیادہ ہندوستانی  ہندو ہوں یا مسلمان، مانتے ہیں کہ مذہبی تنوع ملک کے لیے مفید ہے جبکہ ایک چوتھائی اس کو نقصاندہ  مانتے ہیں۔ تقریباً اتنی ہی تعداد اس سے ملک  کوفائدہ  ہے یا نقصان ، اس کے بارے میں کوئی رائے نہیں رکھتی۔

پھر بھی یہ اعدادوشمار ملک  کےمستقبل کے لیےامید افزا مانے جانے چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ مذہبی تنوع  کو ابھی بھی کم از کم مثالی یاقدر تو مانا ہی جاتا ہے،عملی طورپر جو بھی ہو رہا ہو۔ کون کس کومثالی  مانتا ہے، یا چاہتا ہے کہ دوسرے جانیں کہ یہ اس کا آئیڈیل  ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسا دکھنا چاہتا ہے۔ تو ہندوستان  کے لوگ مذہبی تنوع  کا احترام  کرتے ہوئے دکھنا چاہتے ہیں،یہ بھی کم بات نہیں۔

مختلف مذہبی گروہوں کے بیچ میل جول  کے مقامات نہیں ہیں۔ جیسے، لگ بھگ 77 فیصدہندو کرم (عمل)کےنظریہ میں یقین کرتے ہیں اور لگ بھگ اتنے ہی مسلمان۔ 54فیصد عیسائی بھی اس میں یقین کرتے ہیں۔

اسی طرح مسلمانوں اور عیسائیوں کی اچھی خاصی تعداد(بالترتیب27 اور 29فیصد) تناسخ کے ہندواعتقادکو مانتی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں میں پورے ہندوستان میں ایک تہائی سے زیادہ دیوالی مناتے ہیں۔ لیکن صرف 7فیصد ہندو عید مناتے ہیں اور17 فیصدبڑا دن مناتے ہیں۔ ہندوؤں کا ایک طبقہ، جو بہت بڑا نہیں ہے، صوفی روایت  سے تقدس  کاجذبہ حاصل کرتا ہے۔ عیسائیوں میں ایک تہائی تعداد گنگا کے تقدس میں یقین کرتی ہے۔

اسے دیکھ کر پنڈتا رمابائی کے بارے میں پوروا بھاردواج نے جو لکھا ہے، وہ یاد آیا۔ انہوں نے خود مذہب بدلا تھا اور عیسائی ہو گئی تھیں۔ لیکن بپتسمہ میں وہ جو کی روٹی اور کشمش کے رس کا استعمال کرتی تھیں اور نئی عیسائی عورتوں کو پاک  کرنے کے لیے بھیما ندی کا غسل  انہوں نے کروایا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں اکثر ہر ندی سے ہی گنگا والی عقیدت رکھی  جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی رپورٹ بتلاتی ہے کہ ہرمذہب کے لوگ مانتے ہیں کہ بڑوں کا احترام  کیا جانا چاہیے۔اس کا مطلب  یہی ہے کہ مذاہب  کے ساتھ اور ان سے پرےمشترکہ ثقافتی قدریں اور عقائدہوتے ہیں یا تہذیبی  بھی اور وہ  ہندوستان  میں برقرار ہیں۔ یعنی مذہب تہذیب سے ڈھکا ہے اور یہ رشتہ دونوں کو صحت مند بنادیتا ہے۔ اس سے ایک پرامن معاشرے  کے تعمیر میں بھی مدد ملتی ہے۔

کیا ہندو مسلمانوں کے تہوار کا انتظار کرتے ہیں اور کیا مسلمانوں کو ہندوؤں کے پاک  دنوں کا انتظار رہتا ہے؟ بہت دن نہیں ہوئے جب ہندو مائیں تعزیے کے انتظار میں اپنے بچہ کو لےکر کھڑی رہتی تھیں کہ تعزیے کے نیچے سے اسے نکال کر آشیرواد لے سکیں۔

اگر ان اعدادوشمار کو دیکھیں تو جسے ہندوستانی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کے تباہ ہونے  کا خدشہ اکثر بے بنیادہے، یہ رپورٹ کا ان کہا نتیجہ ہے۔ بہت کچھ ہے جو سارے مذاہب  ایک ہی طرح سے مانتے ہیں، شعوری طور پر یاقدامت پسندی کی وجہ سے۔

تنوع  کے ساتھ ہندوستانیت مستحکم  بنی ہوئی ہے، اس پر کوئی خطرہ نہیں ہے، یہ مانا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب  یہی ہے کہ ہندوستانیت  کےتحفظ اور اس کی تعلیم دینے کی جو پرجوش تشدد آمیزکوششیں کی  جا رہی ہیں، وہ بے حد غیر ضروری  ہیں۔ بلکہ اس کے بارے میں دوسرے طریقے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ وہ کیوں؟

اس لیے کہ جیسا پہلے متذکرہ اعدادوشمار میں بتلایا گیا، وہ یہ کہ غیر ہندو کمیونٹی  میں تو ہندوعناصر کی موجودگی  ہے لیکن ہندو کمیونٹی  میں غیر ہندوعناصر بہت کم ہیں۔مسلمان اور عیسائی بتلاتے ہیں کہ انہیں ہندو دھرم کے بارے میں کچھ یا بہت کچھ معلوم ہے، وہ چاہے اس کے مقدس صحیفے ہوں، یا اسطوریا کتھائیں لیکن ہندوؤں کو دوسرے مذاہب کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔

تو کسے تعلیم یافتہ  ہونے یا کیے جانے کی ضرورت ہے؟ ظاہری  طور پر ہندوؤں کو!انہیں زیادہ ہندوستانی بننے کے لیےمحنت  کرنے کی ضرورت ہے۔

آگے بڑھنے پر یہ دکھلائی پڑتا ہے کہ اکثر ہندوستانی ، ہر مذہب  کے، یہ مانتے ہیں کہ وہ دوسرے مذہب کے لوگوں سےقطعی الگ ہیں۔ 66فیصدہندو خود کو مسلمانوں سے ایک دم الگ مانتے ہیں اور 64فیصدمسلمانوں کا بھی ہندوؤں کے ساتھ ایسا ہی رشتہ ہے، یعنی الگ ہونے کا۔

دو تہائی جین اور سکھ اپنے اور ہندوؤں کے بیچ کافی یکسانیت دیکھتے ہیں۔ لیکن کل ملاکر ہندوستان آپس میں یکساں سرزمین  کا تصور نہیں کر پاتے۔ یعنی وہ ایک جیسے نہیں ہیں۔ یہ تنوع  کااحساس  ہے یا امتیاز کا، اس پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔

ہندوستانیت کی تعمیر تو آخرکار مشترکہ عناصرکی بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے۔ رپورٹ اس معاملے میں بہت مطمئن  نہیں کرتی۔ زیادہ تر ہندوستانی اپنے مذہبی  دائروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

اکثر ہندو اپنے قریبی دوست ہندوؤں میں ہی تلاش کرتے ہیں اور یہ باقی پر بھی ویسے ہی لاگو ہوتا ہے۔ 45 فیصد کا کہنا ہے کہ ان کے سبھی دوست  ان کے مذہب کے ہیں اور 40فیصد کے مطابق زیادہ تر دوست ان کی مذہبی  برادری کے ہیں۔

اپنے دائروں کو محفوظ رکھنے کےاوربھی طریقے ہیں۔ مثلاً شادی یا کرایہ دار یا پڑوسی۔ ہندو ہوں یا مسلمان، اس بات کو لےکر دونوں میں اتفاق ہے کہ ان کے لڑکے لڑکیوں کی دھرم کے باہر شادی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر دوسرے دھرم کے لوگوں کا گھر کے نئے ممبر کے طوراستقبال ہی نہیں ہے تو ‘لو جہاد’ جیسی کسی سازشی مہم کی جگہ ہی کہاں رہ جاتی ہے؟

اسی طرح تبدیلی مذہب کے بارے میں جو عام سمجھ ہے یہ رپورٹ اس پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ سروے کے دوران پایا گیا کہ جتنی تعداد ہندو دھرم چھوڑکر دوسرے دھرم اپناتی ہے، لگ بھگ اتنی ہی بلکہ تھوڑی زیادہ  ہی دوسرے مذاہب  کی پہچان چھوڑکر ہندو پہچان اپناتی ہے۔ یہ بالترتیب0.7 اور 0.8 فیصد ہے۔

اس کا مطلب یہی ہوا کہ تبدیلی مذہب کو لےکر جو اتنی عوامی بےچینی پیدا کی جا رہی ہے، وہ بھی غیرضروری ہے کیونکہ مذہب کی تبدیلی  بڑی تعداد میں ہو ہی نہیں رہی۔

پڑوسیوں کے طور پر دوسرے مذہب کے لوگوں کا استقبال نہیں ہے۔ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے میل جول بڑھائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھلے ہی لوگ کہیں کہ وہ دوسرے مذہب کا احترام  کرتے ہیں، وہ ان کے ماننے والوں کے ساتھ بھائی چارہ  نہیں بڑھانا چاہتے۔ اس طرح  منقسم  طبقوں کا سماج ہے جو آپسی سلوک  کو پسند نہیں کرتا۔

اس تقسیم کے ساتھ دوسری تقسیم ذات پات کے لحاظ سے ہے اور یہ تقریباً سبھی مذاہب میں ہے۔ یہاں بھی 64فیصد لوگ اپنی کمیونٹی  سے باہر شادی کو ناپسند کرتے ہیں۔لیکن یہ دلچسپ ہے کہ سروے میں ذات پات کے لحاظ سے امتیاز یا مذہبی امتیازکو محسوس کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔

روزانہ ملنے والی خبروں سے اس نتیجے کا ملان کرنے پر یہ ناقابل اعتماد جان پڑتا ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امتیاز کسے کہتے ہیں، اس پر الگ الگ لوگوں کی رائے الگ الگ ہو۔ یا جن سے سوال کیا گیا ہو، وہ پھر ہندوستان کو برا نہ دکھلانا چاہتے ہوں۔ اپنے ساتھ امتیاز ہو رہا ہے، یہ بھی بہت سے لوگ قبول نہیں کرنا چاہتے۔

ہندوستان  جیسے ذات پات میں بٹے سماج میں، جہاں ہروسائل کے لیے دوسرے کا حق مارنا ضروری سمجھا جاتا ہے، امتیاز کا غائب  ہو جانا بھی حیرانی  کی بات نہیں۔

ہندوؤں میں یہ سمجھ ہے کہ وہ فطری  طور پر ہندوستانی  ہیں یا ہندوستانیت اور ہندو دھرم کا رشتہ خاص ہے۔ اکثر شمالی ہندوستان کے ہندو ہندی بولنے کو ہندوستانیت  کی شرط مانتے ہیں۔

مسلمانوں میں اکثر ہندوستانی تہذیب کو دیگر ثقافتوں  سے برتر مانتے ہیں اور انہیں ہندوستانی  ہونے پر فخر ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رائے دہندگان  میں اکثر ہندو، ہندی اورہندوستان کے فارمولے میں یقین کرتے ہیں۔ یہ مکمل علیحدگی پسندنظریہ ہے۔

پیو سینٹر کی رپورٹ ایک آئینہ ہے۔ ہم اس میں اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے آئیڈیل شایددھندلے ہو گئے ہیں لیکن ابھی بھی آئین  کی ہندوستانیت اور سیکولرازم کی  قدریں  ہماری قدریں ہیں۔ ہم تنوع  اور ایک دوسرے کے احترام  کو اچھا مانتے ہیں۔

یہاں امید ہے۔ لیکن قول فعل  میں اتنا ہی تضاد ہے۔ ہم دور سے سلام کا اصول مانتے ہیں۔ آپ ہم سے زیادہ دوستی کی امید نہ کریں، ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے جب تک آپ اپنے گھیرے میں بنے رہیں۔

ہمارے دوست کرشن کمار نے ایک بار کہا تھا کہ قول وفعل  میں ذرا فرق رہنا برا نہیں ہے۔ اس سے قول کی اہمیت بنی رہتی ہے۔ ہمیں اپنی حد کا انداز بھی ہوتا ہے۔ لیکن جو سماج اس فرق کو کبھی مٹانا نہ چاہے اور بولے کچھ، کرے کچھ وہ کیسا سماج ہوگا؟

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)