خبریں

جیل میں کورونا سے متاثر ہونے کے بعد فادر اسٹین سوامی کی موت، عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

ایلگار پریشدمعاملے میں گرفتار 84سالہ سماجی کارکن اسٹین سوامی کی حالت کئی دنوں سے نازک بنی ہوئی تھی اور وہ لائف سپورٹ سسٹم پر تھے۔ ان کے قریبی لوگوں  نے تلوجہ جیل پر الزام لگایا ہے کہ صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی کے سبب سوامی کی حالت بدتر ہوئی تھی۔

فادر اسٹین سوامی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

فادر اسٹین سوامی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے ایک مہینے سے زیادہ کےعرصے کے بعد آدی واسیوں کےحقوق کے لیےلڑنے والے سماجی کارکن 84سالہ فادر اسٹین سوامی کی موت  ہو گئی۔ پچھلے کچھ دنوں سے ان کی حالت لگاتار بگڑتی چلی جا رہی تھی۔

بامبے ہائی کورٹ کی ہدایت پر ان کا علاج ممبئی واقع  ایک نجی اسپتال (ہولی فیملی ہاسپٹل)میں چل رہا تھا۔ایلگار پریشد معاملے میں نوی ممبئی کی تلوجہ جیل میں بند رہے سوامی کو علاج کے لیے اسپتال میں بھرتی کرانے کاحکم28 مئی کو عدالت نے دیا تھا۔

ہولی فیملی اسپتال کے ڈاکٹرایان ڈی سوزا نے پیر کو ہائی کورٹ کو بتایا کہ دوپہر 1:30 بجے ان کا انتقال ہوا۔ سوامی کے بگڑتے حالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے عدالت نے فوری سماعت شروع کی تھی۔

سوامی کی موت  کے بعد ان کے وکیل مہر دیسائی نے معاملے میں عدالتی تحقیقات کا مطالبہ  کیا۔ سوامی کی گرفتاری کے بعد سے ان کا کیس لڑ رہے دیسائی نے عدالت سے کہا کہ انہیں ہولی فیملی اسپتال یا ہائی کورٹ  کے خلاف کوئی شکایت نہیں ہے، لیکن سوامی کی موت کے لیےاین آئی اے اور تلوجہ سینٹرل جیل کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

بتایا گیا ہے کہ سوامی کو 30 مئی کو ہولی فیملی اسپتال لے جانے سے پہلے دس دنوں سے زیادہ وقت تک طبی  دیکھ بھال سےمحروم  رکھا گیا تھا۔ ان 10 دنوں کے دوران سوامی نے بخار اور کمزوری کی شکایت کی تھی۔

تلوجہ سینٹرل جیل، جس میں مناسب طبی سہولیات  کافقدان ہے، سوامی کو خاطر خواہ علاج فراہم کرنے میں ناکام رہا اور جب تک انہیں اسپتال لے جایا گیا تب تک ان کی صحت  کافی خراب ہو گئی تھی۔

دیسائی نے کہا کہ تب سے سوامی کو کئی بار آئی سی یو میں بھرتی کرنا پڑا تھا۔ اسپتال نے سوموار کو ہائی کورٹ  کو بتایا کہ سوامی کی موت 4 جولائی کو کارڈیک اریسٹ(دل کی دھڑکن رکنے)کے بعد ہوئی ہے۔سوامی کو وینٹی لیٹر سپورٹ پر رکھا گیا تھا اور تب سے وہ بےہوش تھے۔

ہندوستان کے جیسوئٹ(رائل کیتھولک سماج کے ممبر)پروونسیل ڈاکٹر اسٹانسلاس ڈی سوزہ  ایس جے نے سوامی کی موت کے بعد ایک بیان جاری کرکے کہا کہ وہ تمام جیسوئٹ پادریوں کے ساتھ مل کر سوامی کے اہل خانہ کے لیےتعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا،‘میں اہل خانہ کے ممبروں، دوستوں، وکیلوں،خیرخواہوں اور ان تمام لوگوں کے لیے اپنی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جو اسٹین کے ساتھ کھڑے رہے اور مقدمے اور تکلیف  کے اس لمحے میں ان کے لیےدعا کی۔’

ایلگار پریشد معاملے میں ان کے مبینہ رول کو لےکر پچھلے سال آٹھ اکتوبر کو انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ سوامی 16ویں اور سب سے بزرگ شخص تھے، جنہیں اس معاملے میں جیل میں ڈالا گیا تھا۔

وہ پارکنسنزبیماری سے جوجھ رہے تھے اور انہیں گلاس سے پانی پینے میں بھی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کے باوجود اسٹین سوامی کومیڈیکل بنیاد پر کئی بار درخواست کے بعد بھی ضمانت نہیں دی گئی۔

اس سے پہلے معاملے میں سوامی کے ساتھ شریک ملزم تیلگو شاعراور کارکن ورورا راؤ کومیڈیکل کی بنیاد پر ضمانت مل گئی تھی۔

ملک  کے متعددشعبوں سے سوامی کو ضمانت دینے کی مانگ اٹھی تھی۔ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آرسی)نے بھی سوامی کی نازک صحت کے سلسلے میں ملی ایک شکایت کو لےکر مہاراشٹر سرکار کو نوٹس جاری کیا تھا۔

این ایچ آرسی نے ایک بیان میں کہا تھا، ‘فادرا سٹین سوامی کی نازک صحت کا الزام لگانے والی شکایت پر غور کرتے ہوئے این ایچ آرسی نے مہاراشٹر سرکار کے چیف سکریٹری کو ایک نوٹس جاری کیا ہے۔ ان سے یہ یقینی بنانے کو کہا گیا ہے کہ زندگی بچانے کے اقدامات  اور بنیادی انسانی حقوق  کے تحفظ  کے لیے انہیں مناسب طبی نگہداشت اور علاج کی فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔’

اس سے پہلے کمیشن نے ریاستی سرکار کو ہولی فیملی اسپتال میں بھرتی سوامی کو مناسب طبی نگہداشت اور علاج کی فراہمی کی صلاح دی تھی۔

اس سال مئی میں سوامی نے ہائی کورٹ  کی بنچ کو ویڈیو کانفرنس کے توسط سے بتایا تھا کہ تلوجہ جیل میں ان کی صحت لگاتار بگڑتی ہی رہی ہے۔انہوں نے عدالت سے اس وقت عبوری  ضمانت دینے کی گزارش  کی تھی اور کہا تھا کہ اگر چیزیں وہاں ایسی ہی چلتی رہیں تو وہ ‘بہت جلد مر جائیں گے۔’

پچھلے ایک سال میں تلوجہ جیل کےعہدیداروں بالخصوص اس کے سپرنٹنڈنٹ کوستبھ کرلیکر کے خلاف کئی عرضیاں  اور شکایتیں درج کی گئی ہیں۔ حالانکہ ریاستی سرکار نے پچھلے ہفتے تک ان شکایتوں پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی، جب کرلیکر کو تلوجہ جیل سے باہر کر دیا گیا۔

مئی میں سوامی کے بیمار ہونے کے بعدان کے وکیل مہر دیسائی نے عدالت کے سامنے ایک اور عرضی  دی، اس بار انہوں نے یواے پی اے  کےآئینی جواز کو چیلنج دیا۔

دیسائی نے یو اے پی اے کی دفعہ43ڈی (5)کے آئینی جواز کو چیلنج دیا، جو ضمانت دینے کے لیے سخت شرطیں لگاتی ہے۔ ضمانت عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یواے پی اے کی دفعہ  ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14، 19 اور 21 کی خلاف ورزی  کرتی ہے۔ اس معاملے کی شنوائی 6 جولائی کو پھر سے ہونی ہے۔

 دیسائی کے توسط سے دائر اپنی عرضی میں سوامی نے کہا ہے کہ یہ دفعہ ضمانت پانے کی سمت میں رکاوٹ پیداکرتی ہے اور اس طرح  یہ آئین کی طرف سےفراہم کردہ فردکی زندگی اورآزادی  کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی  ہے۔

ایلگار پریشد معاملے میں سوامی اور ان کے شریک ملزمین پر این آئی اے نے الزام لگایا ہے کہ یہ تمام ممنوعہ سی پی آئی  (ایم) کی طرف سے کام کر رہے تھے۔پچھلے مہینے این آئی اے نے ہائی کورٹ  کے سامنے حلف نامہ دائر کرسوامی کی ضمانت عرضی  کی مخالفت کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ان کی بیماری کے کوئی‘ٹھوس ثبوت’نہیں ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا تھا کہ سوامی نے ماؤنوازوں کا ساتھ دیا تھا، جنہوں نے ملک میں بدامنی  پیدا کرنے کے لیے سازش کی  تھی۔

ایلگار پریشد معاملہ 31 دسمبر 2017 کو پونے میں ہوئے ایک کانفرنس میں مبینہ بھڑکاؤ بیانات سے متعلق  ہے، جس کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ اگلے دن ان بیانات کی وجہ سے کورےگاؤں  بھیماجنگی یادگار کے پاس تشددبرپا  ہوا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)