خبریں

سپریم کورٹ نے یوپی سرکار کو سی اے اے مظاہرین کو ملے نوٹس پر کارروائی نہ کرنے کو کہا

اترپردیش سرکارنے 2019 کےآخرمیں عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے مبینہ ملزم سی اے اے-این آرسی مظاہرین سے نقصان کی وصولی کرنے کی دھمکی دی تھی۔سپریم کورٹ نے کہا کہ صوبہ  قانون کےمطابق اور نئے ضابطے کے تحت کارروائی کر سکتا ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو : پی ٹی آئی

علامتی تصویر، فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو اتر پردیش سرکار سے کہا کہ وہ صوبے میں شہریت  قانون (سی اے اے)کے خلاف تحریک  کے دوران سرکاری ملکیت کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کے لیےمبینہ مظاہرین کو ضلع انتظامیہ کی جانب سے قبل میں بھیجے گئے نوٹس پر کارروائی نہ کرے۔

عدالت نے حالانکہ کہا کہ صوبہ قانون کے مطابق  اور نئے ضابطے کےتحت کارروائی کر سکتا ہے۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ  نے کہا، ‘پہلے کے نوٹس کے مطابق کارروائی نہ کریں۔ سبھی کارروائی نئے ضابطے کے مطابق  ہونی چاہیے۔’

رپورٹ کے مطابق،سرکار نے 2019 کےآخر میں ان لوگوں سے ملکیت کے نقصان کی وصولی کرنے کی دھمکی دی تھی، جنہیں 2019 کےآخرمیں سی اےاےمخالف مظاہروں کےدوران دوران قصوروارمظاہرین کے طورپر پہچانا گیا تھا۔

دی وائر نے تب ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کیسےیہ قدم قانونی جانچ کے پیمانے پر کھرا نہیں اترتا ہے۔ دسمبر 2019 کے آخر تک چار ضلعوں کی انتظامیہ نے دنگا کرنے کےملزم 130 سے زیادہ  لوگوں کو نقصان کی بھرپائی  میں لگ بھگ 50 لاکھ روپے کی ادائیگی  کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

اس کے بعد مارچ 2021 میں اتر پردیش اسمبلی نے سرکاری اورنجی املاک کے نقصان  کی بھرپائی کے لیے ایک بل پاس  کیا۔قانون کے تحت،مظاہرین کو سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کےقصوروار پائے جانے پر ایک سال کی قید یا 5000 روپے سے لےکر1 لاکھ روپے تک کے جرما نے کا سامنا کرنا پڑےگا۔

اتر پردیش کی جانب  سے پیش سینئر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرساد نے کہا کہ شنوائی کی آخری تاریخ کے بعد سے صوبہ آگے بڑھا ہے اورٹریبونلز کی تشکیل  دی گئی ہے اورضروری قوانین وضع کیےگئے ہیں۔بنچ نے پرساد کو ضابطوں  اورتشکیل شدہ ٹریبونلز کی تفصیلات کے ساتھ ایک جوابی حلف نامہ دائر کرنے کی ہدایت  دی۔ اس معاملے میں اب دو ہفتے بعد شنوائی ہوگی۔

بنچ  پرویز عارف ٹیٹوکی جانب سے دائر ایک عرضی پر شنوائی کر رہی تھی،جس میں اتر پردیش میں سی اے اےتحریک  کے دوران عوامی املاک کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کے لیےضلع انتظامیہ کی طرف سےمبینہ مظاہرین کو بھیجے گئے نوٹس کو رد کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔

عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ نوٹس من مانے طریقے سے بھیجے گئے ہیں اور ایک ایسےشخص کو بھی نوٹس بھیجا گیا جس کی موت  چھ سال پہلے 94 سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ 90سال سے زیادہ  عمر کے دو لوگوں سمیت کئی دوسرے لوگوں کو بھی ایسے نوٹس بھیجے گئے۔

سپریم کورٹ نے پچھلے سال 31 جنوری کو ریاستی  سرکار کو نوٹس جاری کرعرضی  پر جواب دینے کو کہا تھا۔ٹیٹو نے دلیل دی تھی کہ یہ نوٹس الہ آباد ہائی کورٹ  کے 2010 کے ایک فیصلے پر مبنی تھے جو 2009 کے ایک فیصلے میں سپریم کورٹ عدالت کے ذریعے طے کیے گئے گائیڈ لائن کی خلاف ورزی ہے۔

عرضی میں عوامی املاک کو ہوئے نقصان  کی بھرپائی کے لیے دعوے کرتے وقت اتر پردیش سرکار کو 2009 میں طے شدہ عمل  اور 2018 کے عدالت کی ہدایات پر عمل کرنے کی ہدایت  دینے کی گزارش کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ ریاستی سرکار نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ  کے دوران عوامی املاک  کے نقصان کی وصولی کے لیے نوٹس کےعمل سے نمٹنے کے لیے ایڈیشنل ضلع  مجسٹریٹ کی تقرری  کی ہے، جبکہ عدالت کے ذریعے طے شدہ ہدایات  میں کہا گیا ہے کہ سبکدوش ججوں  کو معاملے سے نمٹنا چاہیے۔

عرضی میں ان نوٹس پر روک لگانے کی مانگ کی گئی ہے،جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہیں ان لوگوں کو بھیجا گیا ہے جن پر کسی تعزیراتی دفعات کےتحت معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آریا کسی مجرمانہ جرم کی تفصیلات نہیں دی گئی ہے۔

وکیل نیلوفر خان کے توسط سے دائر عرضی میں کہا گیا،‘تضادیہ ہے کہ جہاں 2009 میں سپریم کورٹ نے ہر صوبے کی ہائی کورٹ کو نقصان کے اندازےاورملزمین سے وصولی کی ذمہ داری دی تھی، وہیں الہ آباد ہائی کورٹ  نے 2010 کے فیصلے میں ہدایات  جاری کیے تھے کہ ریاستی سرکار کو نقصان کی وصولی کے لیے ان طریقہ کار پر عمل  کرنے دیں، جس کے سنگین مضمرات ہیں۔’

اس میں کہا گیا،‘عدالتی معائنہ/عدالتی تحفظ صوابدیدی کارروائی کے خلاف ایک طرح کا حفاظتی طریقہ کار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا ہرامکان موجود ہے کہ ریاست میں حکمراں  جماعت اپنے سیاسی مخالفین یا دوسروں کے ذریعہ اس کی مخالفت کرنے والوں کو سبق سکھانے کے لیے یہ کام کر سکتی ہے۔’

اس نےاتر پردیش سرکارکواس طرح کےمظاہروں کےدوران عوامی املاک کو ہوئے نقصان کی وصولی کے لیے نقصان کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت کے 2009 اور 2018 کے ہدایات کے مطابق طریقہ کار پر عمل کرنے کی ہدایت  دینے کی بھی مانگ کی۔

عرضی میں اتر پردیش میں شہریت قانون  اور این آر سی کی مخالفت کے دوران ہوئےواقعات کی جانچ کے لیے ایک آزادانہ  عدالتی  جانچ کی مانگ کی گئی، جیسا کہ کرناٹک ہائی کورٹ  نے کیا ہے۔

اس نے دعویٰ کیا کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی سربراہی  والی آدتیہ ناتھ سرکار ایک اقلیتی طبقے سے سیاسی وجوہات کا بدلہ  لینے کے لیےمظاہرین کی ملکیت کو ضبط کرکےعوامی املاک کےنقصان کا بدلہ  لینے کے وزیر اعلیٰ  کے وعدے پر آگے بڑھ رہی ہے۔

عرضی  میں آگے الزام لگایا گیا ہے کہ اتر پردیش میں اب تک پرتشدد مظاہرہ کے سلسلے میں گرفتار لگ بھگ 925 لوگوں کو آسانی سے ضمانت نہیں مل سکتی ہے جب تک کہ وہ نقصان کی بھرپائی  نہیں کرتے ہیں کیونکہ انہیں رقم جمع کرنے کے بعد ہی مشروط ضمانت دی جانی ہے۔

اس میں الزام لگایا گیا،‘اتر پردیش کی سرکار اور اس کی انتظامیہ  اور پولیس نے شہریت قانون،2019/این آرسی کی مخالفت میں جس طرح سے کارروائی کی ہے اس سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ وہ  اب ایک جمہوری  سرکار کے حصہ کی طرح سلوک کر رہے ہیں۔ اتر پردیش انتظامیہ  کی ہدایت پر پولیس نے غیر متناسب طاقت کا استعمال کیا اورعوامی جوابدہی سے انکار کیا۔’

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)