فکر و نظر

بستر کے ’شاہین باغ‘ میں نوجوانوں کی قیادت والی منفرد احتجاجی تحریک

بسترڈویژن کےسکما ضلع کےسلگیرگاؤں میں سی آر پی ایف کے کیمپ کے خلاف عوامی تحریک کو دبانے اور ماؤنواز بتانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن اس پر امن احتجاج  کے آسانی سے ختم ہونے  کے آثارنظر نہیں آتے۔

سلگیر میں مقامی افراد  کا مظاہرہ ۔ (فوٹو:نندنی سندر)

سلگیر میں مقامی افراد  کا مظاہرہ ۔ (فوٹو:نندنی سندر)

سیکیورٹی فورسز کےکیمپوں کے خلاف عدم تشدد پر مبنی تحریک کی علامت بننے سے پہلے تک سلگیر،کونٹا یا بیجاپور کے کسی بھی دوسرے کویا گاؤں کی ہی طرح تھا۔اس گاؤں میں چار پربے(ڈیرہ نما گاؤں)ہیں،ایک مقدس  باغیچہ، جنگل تک پھیلے کھیت، ایک پٹیل(سربراہ)اور ایک پجاری یا پروہت ہے۔اس علاقے کے دوسرے گاؤں کی طرح سلگیرکی زندگی کو ماؤنوازوں اور گاؤں والوں کے خلاف اسٹیٹ اسپانسرڈ دستے سلوا جڈوم نے سر کے بل پلٹ دیا۔

سال 2007 میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی سینکڑوں عرضیوں میں سے ایک کر تم جوگا بنام یونین آف انڈیا، 2007، سلگیر گاؤں سے ہے، جس میں الزام  لگایا گیا ہے کہ 2006-07 میں جڈوم نے گاؤں کے دس گھروں میں آگ لگا دی، جبکہ پڑوس میں پانچ گاؤں اور 127 گھروں میں آگ لگا دی گئی اور 10 لوگوں کو ہلاک  کیا گیا۔

گاؤں والوں نےدو سالوں تک کھیتوں اور آس پاس کے جنگلوں میں پناہ لی ۔جب حالات بہتر ہوئے تب وہ  اپنے گھروں کولوٹے۔ گاؤں کا اسکول ٹوٹ گیا تھا،اس لیے بچوں کو پڑھنے کے لیے کافی دور جانا پڑا۔ اس کے بعد کووڈ 19 مہاماری پھیل گئی۔ پچھلے دو سالوں سے یہاں ہر کوئی گھر میں ہے۔ کوئی رابطہ  نہیں ہونے کی وجہ سےیہاں آن لائن ایجوکیشن کا کوئی مطلب  نہیں ہے۔

یہ سب 11 مئی کی رات کو بدل گیا، جب ان کی زمین پر راتوں رات ایک سی آر پی ایف کیمپ بن گیا۔

پچھلے کچھ سالوں سے انتظامیہ سکما اور بیجاپورکےعلاقے میں،جسےوہ ماؤونوازوں کا گڑھ مانتی ہے، سڑکیں بنانے کے کام میں کافی مستعدی سے مصروف ہے اور اس کے لیے ہر چندکیلومیٹر پر سی آر پی ایف کیمپ لگائے جا رہے ہیں۔

سکما ضلع کے دورناپال سےجگرگنڈا اور سلگیر ہوتے ہوئے بیجاپور کے باساگڑا کو جوڑ نے والی سڑک کو علاقے پر کنٹرول قائم  کرنے کے نظریے سے بےحداہم مانا جا رہا ہے۔ حالانکہ ماؤنوازوں کے علاقے پرکنٹرول قائم  کرنا اس پوری قواعد کا بنیادی مقصد نہیں ہے۔

جیسا کہ سلگیر کیمپ میں ایک پولیس اہلکار نے ہمیں بتایا، اصل مقصد اس پورے علاقے کا چہرہ تبدیل  کرنا ہےتاکہ یہ دہلی جیسا بن جائے۔

Silger-Map

پچھلی بار میں کووڈ مہاماری سے پہلے اس علاقے میں گئی تھی۔ تب سے اب تک اس سڑک کے کافی حصہ کی تعمیر ہو گئی ہے جگرگنڈا سے سلگیر کے بیچ کےحصہ کو چھوڑکر زیادہ گڑھوں والی کیچڑ سے لت پت مشکل سفرمیں لگنے والاوقت اب کافی کم ہو گیا ہے۔ ایک قاعدے کی سڑک قابل ستائش قدم ہےکم از کم میرے جیسےمسافروں کے لیے لیکن کیا گاؤں والوں کو ان کے گاؤں سے ہوکر گزر نے والی چھ لین  سڑک کی اصل میں کوئی ضرورت ہے، یہ بحث طلب  سوال ہے۔

اس سڑک نے جو ماحولیاتی تباہی کی ہے، وہ ابھی ہی صاف صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ سڑک کے لیے زمین نکالنے کے لیے جنگل کے بڑے حصوں کی کٹائی کی گئی اور پہاڑیوں کو کاٹا گیا ہے۔ کچھ گاؤں وا لوں نے مجھے بتایا کہ یہ سڑک ایک پشتے کارول  نبھا رہی ہے اور ایک طرف سے بہہ کر آنے والے پانی کو روک رہی ہے۔

اس طرح سے مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ یہ سڑک کھیتی کی زمین کو نگل کر بنائی گئی ہے، مسئلہ یہ بھی ہے کہ سڑک کے کسی ایک طرف کے حصہ میں آبی جماؤ ہو جاتا ہے، اور وہ کھیتی لائق نہیں رہ جاتا ہے۔ یہ کسی زندہ جسم  میں چاقو سے شگاف  بنانے جیسا ہے۔

سلگیر کی سڑکیں

سلگیر کی سڑکیں

سیکیورٹی کیمپوں کے لیے نجی زمینوں پر قبضہ

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ انہیں کیمپ کے وجودمیں آ جانے کی جانکاری تب ملی جب پڑوس کے تریم گاؤں والے 12 مئی کی صبح کو سلگیر بازار آئے۔ جس کھیت پر کیمپ بنایا گیا ہے، وہ کوپم پارہ کے تین متعلقہ خاندانوں کا ہے۔

کوپم پارہ سلگیر کا ایک ڈیرہ نما گاؤں ہے۔ یہ زمین ان کے جنگل کےحصہ کے دوسری طرف ہے۔ کو رسا بھیمے کےشوہر کچھ سال پہلے گزر گئے اور اب وہ اس زمین پر کو سرا (موٹا اناج)اگاتی ہیں۔ وہ اپنی زمین کے ایک حصہ کا استعمال مہوا سکھانے کے لیے بھی کرتی ہیں۔

پڑوسی مچاکی جوگا کےبھی دھان اپجانے والے کھیت کیمپ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ خاندان  کا کہنا ہے کہ جڈوم دور میں وہ اصل میں ان کھیتوں پر رہتے تھے، کیونکہ یہ جنگل کے قریب تھا اور وہ بس حال چال جاننے کے لیے گاؤں آیا کرتے تھے۔

انتطامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ ریونیو لینڈ جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ لیکن ایک مہینے سےبھی زیادہ کے بعد سرکار نے گاؤں والوں کے دعووں کے جواب میں کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا ہے، جبکہ سرکاری  ریکارڈ مہیا کرانا سرکار کے لیے بائیں  ہاتھ کا کھیل ہوتا۔

کھیت پر مالکانہ حق ثابت کرنے کی ساری ذمہ داری گاؤں والوں پر ڈال دی گئی ہےجو سرپنچ، پنچایت سکریٹری اور پٹواری کو اپنے یہاں بلانے کے لیے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ہاتھ سے بنا کیمپ کا نقشہ اور کو رسا بھیمے۔ (فوٹو: نندنی سندر)

ہاتھ سے بنا کیمپ کا نقشہ اور کو رسا بھیمے۔ (فوٹو: نندنی سندر)

پنچایت ایکسٹینشن ٹو شیڈیول ایریاز ایکٹ(پی ای ایس اے)، 1996 کے تحت بستر جیسےشیڈول علاقوں میں گاؤں والوں کی زمین کا کسی بھی مقصد سے استعمال کرنے سے پہلے کےگاؤں والوں  سے مشورہ  کرنا ضروری ہے۔ لیکن جب 12 مئی کو گاؤں والے پوچھ تاچھ کرنے کے لیے گئے تو سی آر پی ایف کے جوانوں نے انہیں لاٹھیاں مارکر بھگا دیا۔

لاٹھی چارج کے بعدآس پاس کے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی اور کیمپ کے عہدیداروں سے بات کرنے میں سلگیرکے لوگوں  کی مدد کرنے کے لیے کافی لوگ اکٹھا ہو گئے۔ 12 مئی سے 17 مئی تک گاؤں والوں نے لگاتار سی آر پی ایف سے اس بابت جواب مانگنے کی کوشش کی کہ جب تریم کیمپ تین کیلومیٹر سے بھی کم دوری پر ہے تو یہاں انہوں نے اپنا کیمپ کیوں اور کیسے بنایا ہے؟ لیکن گاؤں والوں کی جانب سے بات چیت کی ہر کوشش کا جواب دھمکیوں، لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے دیا گیا۔

بتادیں کہ17 مئی تک تقریباً15000 لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے۔

جب وہ لوگ کیمپ پر پہنچے توممکنہ طور پر ڈر کر سی آر پی ایف نے ہوا میں گولیاں چلائیں اور پتھر اور آنسو گیس کے گولے برسائے۔ گاؤں والےواپس لوٹ گئے، لیکن تب تک ان کا پارہ چڑھ گیا تھا، کیونکہ کیمپ کے عہدیدار کسی بھی طرح سے بات کرنے کے خواہش مند نہیں تھے۔

جواب میں انہوں نے پلٹ کر پتھر پھینکنا شروع کر دیا، حالانکہ اس سے گاڑی کی کھڑکیوں کے علاوہ کسی کو اور کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ 11:30 بجے صبح جب گاؤں والے کیمپ سے تقریباً100 میٹر کی دوری پر تھے، سی آر پی ایف نے فائرنگ شروع کر دی۔

تین مردمظاہرین  تماپورم کے 14سالہ اوئیکا پانڈو، ستبایی کے 30سالہ کوواسی وگل اور گنڈم کے 35سالہ ارسا بھیما کی گولی لگنے سے موت ہو گئی۔تین مہینے کی حاملہ پونیم سوملی بھگدڑ میں گر گئی اور کچھ دنوں بعد اس کی موت ہو گئی۔تقریباً40 لوگ زخمی بھی ہوئے۔

فائرنگ کے بعدگاؤں والوں نےلاشوں کو حاصل کرنا چاہا، لیکن سی آر پی ایف نے اور لوگوں کو گولی مارنے کی دھمکی دی۔ اس لیے انہوں نے یہ خیال ترک کر دیا۔ سی آر پی ایف اس کے بعد لاشوں کو بیجاپور لےکر گئی اور وہاں ان کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا، لیکن وہ رپورٹ ابھی تک گاؤں والوں کو نہیں دی گئی ہے۔

انہیں لاشوں کو واپس لانے اور ان کے متعلقہ  گاؤں میں واپس بھیجنے میں تین دن لگا۔ بعد میں جب میں نے سی آر پی ایف کے جوانوں سے گولی باری کو لےکر ان کا پہلو  جاننا چاہا، تب ان سب نے اس دن چھٹی پر ہونے کا دعویٰ کیا۔

فائرنگ کی خبر ملنے کے ساتھ ہی ہیومن رائٹس کارکن اور وکیل بیلا بھاٹیہ اور ماہر اقتصادیات جیاں دریج گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے۔بیلا بھاٹیہ نے بتایا کہ بیجاپورانتطامیہ نےانہیں تین دن تک آگے نہیں جانے دیا، ان کا باربار کووڈ ٹیسٹ کروایا گیا اور انہیں ایک طرح سے سرکٹ ہاؤس میں قید کرکے رکھا گیا۔

آخرکار وہ جب وہاں سے کسی طرح سے نکلے اور گاؤں پہنچے، انہوں نے جگرگنڈا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کی، جس کے تحت  سلگیرسرکاری طور پر آتا ہے۔ امید کے مطابق پولیس پہلے ہی گاؤں والوں پر الزام  لگاتے ہوئے ایک ایف آئی آر دائر کر چکی تھی، جس میں مارے گئے لوگوں کےنکسلی ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اور امید کے ہی مطابق گاؤں والوں کو اس کی ایف آئی آر کی کاپی  نہیں دی گئی ہے۔

گاؤں والوں نے ہلاک ہونے والوں  کی ایک یادگار روڈ کے کنارے،جائے وقوع  پرقائم کی  ہے۔

سلگیر میموریل۔ (فوٹو: نندنی سندر)

سلگیر میموریل۔ (فوٹو: نندنی سندر)

کیمپ کی مخالفت کیوں

سلگیر دھرنا میں بیٹھے ہوئے جتنے بھی لوگوں جن میں سلگیر گاؤں والےاور دوسرے گاؤں کے بھی لوگ شامل تھے، سے میں نے پوچھا، انہوں نے بتایا کہ وہ کیمپ کے خلاف اس لیے ہیں کیونکہ اس سے ان کے استحصال اور ہراسانی  کا راستہ ہموار ہوگا۔

مجھے دوسری جگہ دو ایسے گاؤں بھی ملے، جہاں لوگوں نے یہ قبول کیا کہ کیمپ کے لیے انہوں نے ہی کہا تھا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسا انہوں نے بے بسی  میں کیا تھا، کیونکہ کسی ایک طرف رہنا دونوں ہی طرف سے دوسرے فریق  کی مدد کرنے کاالزام  جھیلنے سے بہتر ہے۔

کچھ گاؤں میں لوگوں نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز بس آگے بڑھ جاتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے ہیں،لیکن میں نے ڈسٹرکٹ ریزرو گارڈ (ڈی آرجی)یامسلح معاون اور سیکیورٹی فورسز کے مرغے اور دوسرے قیمتی سامانوں کی لوٹ پاٹ کے کئی واقعات کے بارے میں بھی سنا۔ کئی لوگوں کے پاس ان کے گاؤں کے کسی شخص کو فرضی انکاؤنٹر میں گولی مارے جانے یا ریپ کیے جانے اور گرفتاریوں کی تعداد بڑھ جانے کا تجربہ تھا۔

سلگیر واحد جگہ نہیں ہے جہاں لوگ کیمپوں کی مخالفت کر رہے ہیں– بس یہ ہے کہ اس کی خبر باہر آ گئی ہے۔ پولیس نے لوگوں کی پریشانیوں کو لےکر کان بند کر لیے ہیں اور وہ تمام احتجاجی مظاہروں  کو ماؤنواز کے اثرات  سے جوڑتی ہے۔

سلگیر میں کیمپ کے اچانک اورغیرقانونی طریقے سے اور وہ بھی نجی زمین پر قائم  ہونے سے بھی زیادہ شاید فائرنگ کے واقعہ  نے لوگوں کو بھڑ کانے کا کام کیا۔ وہ پرامن طریقے سےاحتجاج کر رہے تھے اور پیسا کے تحت اپنے آئینی حقوق  کا استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ہر بار ان کے ساتھ بے رحمی  سے پیش آیا گیا۔

اس کے بعد لوگوں نے تریم کیمپ اور سلگیر پولیس اسٹیشن کے بیچ چکہ جام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی دنوں تک سلگیر کے سی آر پی ایف کیمپ تک کھانے  کی فراہمی  کو ٹھپ کر دیا گیا اور سیکیورٹی فورسز کو چور راستوں سے اپنا کھانا لانا پڑا۔

آٹھ  جون کا اجلاس اور اس کے بعد کے مذاکرات

آٹھ جون کو تقریباً ایک لاکھ لوگ (تنظیم  کے اندازے کے مطابق)ایک عام اجلاس  کے لیے جمع  ہوئے۔ چھتیس گڑھ بچاؤ آندولن (سی بی اے)کے زیر اہتمام  سماجی کارکنوں کی ایک ٹیم نے اجلاس کی جگہ پر پہنچنے کی کوشش کی، مگر انتظامیہ  نےفوراً اس کو کنٹنٹمنٹ زون اعلان کردیا۔ سی بی اے کارکن رائے پور لوٹ آئے جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ  اور گورنر سے ملاقات کی۔

اس وقت تک آس پاس کے کئی گاؤں کے نوجوانوں کے گروپ  نے خود کو مول واسی بچاؤ منچ (ایم بی اے)کے تحت منظم کر لیا تھا۔ اس گروپ میں مختلف گاؤں کے 60 لوگ ہیں۔ ان میں سے کم از کم 20 لوگ ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ان کی عمر 17 سے 22 سال کے بیچ ہے اور ان کی تعلیمی اہلیت 5ویں سے 12ویں تک ہے، لیکن ان کی سمجھ ان کی عمر سے کہیں زیادہ ہے۔

ان میں سے کئی اپنے اسکولوں کے پھر سے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکیں۔ انہیں انتظامیہ کی نظر میں آنے کا ڈر ہے اور ان کی ایک مانگ یہ ہے کہ سرکار کو مول واسی بچاؤ منچ کے ممبروں کی نگرانی اور انہیں نشانہ بنانے کا کام نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود وہ  اپنی جد وجہد کو جاری رکھنے پرقائم  ہیں۔

انہیں اس بات کا علم ہے کہ بارش شروع ہو جانے کی وجہ سے انہیں بوائی میں اپنے گھر والوں کی مدد کرنے کے لیے واپس گھر جانے کی ضرورت ہے، لیکن جدوجہد کو بیچ میں چھوڑکر جانا بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔

ادھرسرکار مان کر چل رہی ہے کہ یہ تحریک  ماؤنوازوں کے ذریعے چلائی  جا رہی ہے، لیکن انہیں بستر کے نوجوان  لوگوں کے حوصلے  اورنظریے کا ذرا بھی اندازہ نہیں ہے۔

سلوا جڈوم کی وجہ سے جب ان کے گارجین اپنے گاؤں کو چھوڑکر بھاگے تھے، اس وقت یہ نوجوان  چھوٹے تھے۔ وہ اسے شدیدتنگی اوربحرانی وقت  کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ ٹھان رکھا ہے کہ چاہے جو بھی ہو جائے، وہ اپنے بڑوں  کی طرح بھاگیں گے نہیں، بلکہ اپنے حقوق  کے لیے جدوجہد  کریں گے۔

ان میں ایک غصے اور حیرانی  کا احساس  ہے کہ سرکار اپنی  نوجوان تعلیم یافتہ عوام  کے ساتھ اتنے غیرقانونی ڈھنگ سے برتاؤ کر رہی ہے، جبکہ اسکول میں انہیں مسلسل قانون پرعمل کرنے کی ضرورت کو لےکرہدایات دی جاتی ہیں۔ چھتیس گڑھ بچاؤ آندولن کی طرح مول واسی بچاؤ منچ کے ممبروں نے بھی اپنے مطالبات رکھنے کے لیےوزیر اعلیٰ سے ملنے کا وقت مانگا ہے، لیکن اس کے بعد کیا ہوا، اس کو لےکر کچھ بھرم لگتا ہے۔

ایم بی اے کے ممبروں  کا کہنا ہے کہ عام اجلاس کےختم  ہونے کے بعد چکہ جام جاری تھا۔ لیکن سماجی  کارکن سونی سوری کے میڈیا میں بیان کے بعد میڈیا میں یہ کہا گیا ہے کہ اس تحریک کو واپس لے لیا گیا ہے۔

ایم بی اے کے ممبروں کو بیجاپور میں دو دنوں تک انتظار کرنا پڑا اور انہیں اس کے بعد صرف ویڈیو کانفرنس کی اجازت دی گئی۔ اس کانفرنس میں وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل نے بات چیت کو سلگیر کیمپ اورگولی باری سے ہٹاکر ترقی کے عام  مدعے کی طرف موڑ دیا۔ حالانکہ یہ ایک چھوٹی سی کامیابی تھی کیونکہ اس سے پہلے تک کانگریس پارٹی کے ساتھ ہی ریاستی سرکار بھی اس سارے مسئلے پر ایک دانستہ خاموشی اختیار کیے ہوئے تھی لیکن اس کا کل جمع حاصل کچھ نہیں تھا۔

سرکار نے گاؤں والوں کوکیمپ کا فائدہ سمجھانے کے لیے گونڈوانا سماج کے کارکن تیلم بورائیا کو لگایا۔ بورائیا نے کیمپ والی زمین کے مالکوں کو کہا کہ انہیں بدلے میں متبادل زمین ملے گی اور یہ کیمپ عارضی ہے۔ ابھی تک وہ ایم بی اے اور تحریک کے ساتھ ہیں، لیکن وہ نجی طور پر ان کے لیے یہ صحیح  ہونے کو لےکر تذبذب میں ہیں۔

ایسا خاص طور پر اس لیے بھی ہے کیونکہ وہ کیمپ کے بغل والی زمین پر تب تک کھیتی نہیں کر سکتے ہیں، جب تک کہ گاؤں والوں اور سی آر پی ایف کے بیچ تعطل بنا رہے۔

سلگیر دھرنا۔ (فوٹو: نندنی سندر)

سلگیر دھرنا۔ (فوٹو: نندنی سندر)

گزشتہ 13 جون کو جب ایم بی اے کے ممبر وزیر اعلیٰ  کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں بتانے کے لیے لوٹے، انہیں گاؤں والوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں چکہ جام کے مقام سے کھدیڑ دیا گیا۔ اس کے بعد عوام  ہٹ کر سلگیر گاؤں چلی گئی، جہاں وہ ہر دن تقریباً 100 میٹر کی دوری پر کیمپ کے خلاف پرامن  طریقے سے دھرنا دے رہے ہیں۔

لیکن کیمپ کےافسر انہیں چین سے رہنے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر24 جون کو سی آر پی ایف نے سلگیر دھرنا سے گھر لوٹ رہے رسکلی گاؤں کے لوگوں کو پیٹا۔ ایم بی اے نے اس کی شکایت کی، لیکن سی آر پی ایف نے اس سے انکار کیا ہے۔

دھرنا

سلگیرکےدھرناکی جگہ پر لگاتار ایک چہل پہل بنی رہتی ہے۔ پورے علاقے گاؤں سے چھوٹے چھوٹے گروپ  دھرنا میں شامل ہونے اور سلگیر کے کوپم پارہ کے ساتھ ہی پڑوس کے تریم اور گیلور جیسے کچھ گاؤں میں پیلے نیلے ترپال کے ٹینٹ لگاکر کیمپ بنانے کے لیےآئے ہوئے ہیں۔

حیران کن طور پریہ بے حد اچھی طرح سےمنظم اور پوری طرح سے پرامن تحریک ہے۔

مول واسی بچاؤ منچ کےنوجوانوں نے کاموں کا آپس میں بٹوارہ کر لیا ہے۔ مثلاً ایک شخص فراہمی کا ذمہ سنبھال ہوئے ہے، تو دوسرا مواصلات اور ویڈیو کا شعبہ دیکھتا ہے اس نے مجھے میرے اپنے فون پر کئی چیزیں سکھائیں اور ایک نوجوان دھرنے میں شامل ہونے کے لیے آنے والوں کو دوائیاں فراہم کرواتا ہے۔

لڑکیوں نے مجھے بتایا کہ ان میں سے کئی نے متاننوں یادیہی ہیلتھ ورکرز اور میڈیکل سینس فرنٹیرس، جو جڈوم کے شروع ہونے کے وقت سے ہی اس علاقے میں کام کر رہا ہے، سے فرسٹ ایڈ سیکھا ہے۔ لیکن وہ جب بھی اپنے گاؤں کے لیے بنیادی دوائیاں جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں،تب پولیس ان پر ماؤنوازوں کو دوائیاں پہنچانے کا شک کرتی ہے۔ پولیس نے دوائی کے دکانداروں کو ایک محدود مقدار میں ہی دوائیاں دینےکی ہدایت دی ہے۔

یہاں آنے والےگاؤں والےاپنا چاول لےکرآتے ہیں، لیکن انہیں منچ کی جانب سے بھی چاول اور اور کچھ بنیادی ضرورت کے سامان مہیا کرائے جاتے ہیں۔ایم بی اے نے سلگیر اور پاس کے گاؤں میں پریواروں کے پی ڈی ایس(راشن) کارڈوں پر راشن لینے کا ایک نظام بنایاہے۔ چونکہ وہ اپنے چاول کی کھیتی خود کرتے ہیں، اس لیےانہوں نے پی ڈی ایس کارڈوں کا ابھی تک زیادہ استعمال نہیں کیا ہے۔

کھیلتے ہوئے بچے۔ (فوٹو: نندنی سندر)

کھیلتے ہوئے بچے۔ (فوٹو: نندنی سندر)

شام میں نوجوانوں نے والی بال کھیلا۔ 8 بجتے بجتے ہر کوئی اپنے پاؤں کو اندر اور باہر کی طرف ہلاتے ہوئے اور ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ناچ رہا تھا۔رات اندھیری تھی۔ سڑک کے کنارے کا ایک پیڑ جگنوؤں کی روشنی سے جگمگا رہا تھا اور دونیم ہلال  ڈھانچے ایک دوسرے کے تان پر تان ملا رہی تھیں۔

وہ سلگیر کیمپ کو بند کرنے کی ضرورت، گولی باری میں مارے گئے لوگوں، شہریت ایکٹ(سی اے اے)، این آرسی اور این پی آر پر گیت گا رہے تھے۔ ان کے گیت کا ایک موضوع یہ بھی تھا کہ اس سرزمین کے وہ اصل باشندے ہیں اور کیسے انہوں نے اس زمین کی دیکھ بھال کی ہے۔

انہوں نے مودی اور نوٹ بندی پر گانے گائے۔ ساتھ ہی ساتھ شادی کے گانے اور دوسری لوک دھنیں بھی گائیں۔ دوسرے گاؤں میں بھی میں نے نوجوانوں کو رات میں رقص کرتے دیکھا ہے، ان کے گیت مقامی روایات کے ساتھ ساتھ ماؤنوازوں کی روایات پر بھی مبنی ہوتے ہیں، جس کے ساتھ وہ بڑے ہوئے ہیں۔

سترہ  سالون کے بعد گاؤں آئے سرپنچ

ایم بی اے نے سرپنچ کو گاؤں آنے کی دعوت دی تھی تاکہ ان سے کچھ سوالوں کے جواب مانگے جا سکیں۔ جڈوم کے بعد کئی سرپنچوں نے اپنے گاؤں کو چھوڑ دیا تھا اور جڈوم کے کیمپوں میں رہنے لگے تھے۔ چونکہ ماؤنوازوں نے گاؤں والوں سے انتخاب کا بائیکاٹ کروایا تھا اس لیے انہوں نے بلامقابلہ امیدواری پرچہ دائر کیا یا جڈوم کیمپوں میں بھاگ کر پناہ لینے والے دوسرے گاؤں والوں کے ذریعے چن لیے گئے۔

پنچایت کے لیےمنصوبہ سازی اورنفاذ کاغذات پر کر دیا گیا، جس سے سرپنچ اور انتظامیہ دونوں ہی خوش تھے۔ سلگیر کے سرپنچ نے کو رسا سنو 17سالوں سے گاؤں نہیں گئے تھے۔

وہ جڈوم میں بھرتی ہو گئے تھے ،ایک چھٹ بھیا بی جے پی رہنما بن گئے اور ابھی دورناپال میں رہ رہے ہیں۔ مارچ 2011 میں سوامی اگنی ویش پر ہوئے حملے کو لےکر سی بی آئی چارج شیٹ میں ان کا نام شامل تھا۔ حالانکہ ان کا دعویٰ تھا کہ اس واقعہ  کے وقت  وہ کٹک میں تھے۔

وہ ایک ہٹے کٹےشخص ہیں اور ایک بڑے پولیس دستے اور اس کے ساتھ ساتھ ہی آدی واسی سروسماج، جو آدی واسی کمیونٹی  کی  اجتماعی تنظیم  ہے، کے دو نمائندوں کے ساتھ آئے تھے۔ گاؤں والے ایک بڑا گولا بناکر بیٹھے۔ کچھ مارے گئے ماؤنواز کے میموریل، جسے سیکیورٹی فورسز نےمنہدم  کر دیا تھا، کے کھنڈروں پر بیٹھے۔

شروع میں ایک عجیب سا سناٹا تھا، اس کے بعد گاؤں والوں نے بولنا شروع کیا۔ پولیس نے گاؤں والوں کو کہا تھا کہ انہوں نے کیمپ لگانے کی اجازت دینے کے لیے سرپنچ کو پیسے دیےتھے۔ سنو نے اس الزام  کی پرزورتردیدکی اور تھانیدار کو ان کی طرف سے یہ گواہی دینے کے لیے بلایا کہ انہیں کوئی پیسہ نہیں دیا گیا تھا۔

گاؤں والوں کے ساتھ کو رسا سنو۔ (فوٹو: نندنی سندر)

گاؤں والوں کے ساتھ کو رسا سنو۔ (فوٹو: نندنی سندر)

مجھے بعد میں ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ سی آر پی ایف ان کے ٹولے، پٹیل پارہ میں دریافت کرنے گئی تھی، اس لیے یہ صاف  ہے کہ پولیس اور سنو کے بیچ پہلے سے کوئی بات طے ہوئی تھی۔

دلچسپ یہ ہے کہ سنو نے خود اپنی خالی/پرتی زمین سی آر پی ایف کو کیمپ بنانے کے لیے نہیں دی۔ سنو نے دعویٰ کیا کہ حالانکہ وہ گاؤں نہیں آئے تھے، لیکن وہ ہر کسی کو جانتے تھے اور دورناپل آنے والوں کی انہوں نے ہمیشہ مدد کی ہے۔ یہ بات پوری طرح سے جھوٹ نہیں ہے دورے پر آئے سروسماج کے کارکنوں نے کہا کہ جڈوم کی ان کی سرگرمیاں  بے وقعت ہو گئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ گاؤں والوں نے بھی ان کے ساتھ میل ملاپ کر لیا ہے۔

ایم بی اے کے نوجوان ان کے ساتھ بہت مضبوطی مگر بہت محبت سے پیش آ رہے تھے۔ انہوں نے اس طرف دھیان دلایا کہ انہیں بلاکرانہوں نے ماؤنوازو ں کےخطرے کے سامنے ایک ایک نجی خطرہ اٹھایا ہے اور انہیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ لیکن انہوں نے رات میں گاؤں میں رکنے یا 28 جون کو سرکیگڈا یادگاری بیٹھک میں حصہ لینے کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ وہ جتنا جلدی ہو سکتا تھا،پولیس اسکارٹ کے ساتھ وہاں سے نکل گئے۔

ایم بی اے کے نوجوانوں نے اپنےایم ایل اے کواسی لکھما سے بھی اپنےحق میں کھڑا ہونے کے لیے کہنے کے لیےرابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے فون کاٹ دیا اور بعد میں فون اٹھانے سے انکار کر دیا۔

اس تحریک اور ماؤنوازتحریک کے بیچ بڑا فرق صرف اس کے پرامن ، کھلی فطرت نہیں، بلکہ اقتداراور ان کے چنے ہوئے نمائندوں  سے جوابدہی طلب  کرنا ہے۔ اس کے الٹ یہاں ماؤنوازوں نے تاریخی طور پر انتخابات  کا بائیکاٹ کیا ہے اور خود کو متوازی سرکار کے طور پر رکھا ہے۔

سلگیرتحریک کی ایک مانگ کیمپ کی جگہ اسکول اور ہیلتھ سینٹر کی ہے۔ پٹیل نےستم ظریفی سے کہا  کہ کیسے جوناگڈا کے مڑکم بھیما کے ذریعے جب وہ ماؤنواز تھے، گاؤں کے اسکول کو اس بنیاد پرتباہ کر دیا گیا تھا کہ اسے سیکیورٹی فورسز اپنا ٹھکانہ بنائیں گے۔ بعد میں بھیما علاقے کےانتہائی بدنام زمانہ خصوصی پولیس افسروں(ایس پی او) میں سے ایک بن گیا۔ اس پر سی بی آئی نے تاڑمیتلا اور تماپورم  کو جلانے کاالزام لگایا۔

جو سرکار ماؤنوازوں کے ذریعے اسکولوں کے تباہ کرنے کو علاقے میں اسکول مہیا نہ کرانے کے بہانے کے طور پر استعمال کرتی ہے، اسے ہی اسکول کو تباہ کرنے والے شخص کا استعمال کرنے کو لےکر کوئی افسوس نہیں ہے۔ یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی ہے کہ آپ نے کیا کیا، معنی یہ رکھتا ہے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں۔

سارکیگڈا تک مارچ

گزشتہ 8 جون کے اجلاس کے بعد 28 جون کو سارکیگڈا فائرنگ کی سالگرہ  کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا جب بچوں سمیت 17 گاؤں والوں کو سی آر پی ایف نے رات میں گولی مارکر ہلاک  کر دیا تھا۔ جسٹس وی کے اگروال کی قیادت میں ایک عدالتی جانچ نے سی آر پی ایف کوقصوروار بتایا۔

اقتدار میں آنے سے پہلے سارکیگڈا کے مسئلے کو اٹھانے والی ریاستی سرکار اس رپورٹ پر کنڈلی مارکر بیٹھی ہے اور کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ لوگوں کےذہن میں سارکیگڈا گولی باری اور سلگیر میں ہوئی موتیں، دونوں ہی ناانصافی  کی علامت کے طور پر چسپاں ہو گئی ہیں۔

سارکیگڈا جاتے لوگ۔ (فوٹو: نندنی سندر)

سارکیگڈا جاتے لوگ۔ (فوٹو: نندنی سندر)

گزشتہ 27 جون کی صبح کو کونٹا علاقے سے چھ ٹریکٹر بھر کے لوگ سلگیر کیمپ کے خلاف گانا گاتے اور نعرے لگاتے ہوئے آئے۔ اس بات کو لےکر کچھ تشویش  تھی کہ اگر بارش ہونے لگی تو وہ واپس کیسے جا ئیں گے، کیونکہ بارش کے بعد ندیوں کو پار کرنا مشکل ہوگا۔

کئی ہزار لوگ 2-3 دن سے زیادہ چل کر آئے تھے۔ ہر کوئی اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ لایا تھا چاول، برتن اور یہاں تک کہ جلاون کی لکڑیاں۔ ڈلا گاؤں سے پین یا درختوں کے دیوتا چنا مرکام اپنی گھنٹیوں اور پنکھوں کے ساتھ آئے اور ان کو لانے والے پیتل کے شنکھوں کو زور سے پھونک رہے تھے۔

پین۔ (فوٹو: نندنی سندر)

پین۔ (فوٹو: نندنی سندر)

دوپہر ایک بجے کے آس پاس جلوس سلگیر سے سرکیگڈا کے لیے روانہ ہوا۔ کچھ مقررہ لوگوں کو نعرے لگوانے کے لیے تیار کیا گیا تھا یہ نعرے کیمپوں کے خلاف اور اسکولوں کی مانگ کرنے والے تھے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ جب کوئی پولیس والا موجود نہیں تھا تب انہوں نے نعرے لگانے میں اپنی اتنی طاقت کیوں لگائی؟ انہوں نے بتایا کہ یہ نعرے وہ اپنے حوصلے کو بنائے رکھنے کے لیے لگا رہے تھے۔

کنٹنمنٹ زون کا بینر۔ (فوٹو: نندنی سندر)

کنٹنمنٹ زون کا بینر۔ (فوٹو: نندنی سندر)

سلگیر کیمپ میں دائرہ کی مانندلپیٹی گئی خاردار تار کی تیسری پرت میں چپکی ‘کٹنٹمنٹ زون : داخلہ ممنوع’ کی وارننگ نے ہمیں روکا۔ یہ تار سڑک کے آرپار جنگل کے اند تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس خاردار تار کو پار کرنے کے چکر میں اس میں پھنس جانے کی وجہ سے تین مویشیوں کی جان چلی گئی ہے اور 17 زخمی ہو گئے ہیں۔

جب میں نے سی آر پی ایف والوں سے گاؤں والوں کو معاوضہ دینے کے لیے کہا، تو انہوں نے لاتعلقی کے ساتھ جواب دیا کہ مویشیوں کو دھیرے دھیرے اس کی عادت ہو جائےگی اور وہ اسے پار کرنا چھوڑ دیں گے۔ پولیس وہاں پورے جنگی لباس  میں حفاظتی کور کے ساتھ آراستہ تھی اور ایک ٹینک بھی تار کے اندر تعینات تھا۔

ایم بی اے کے نوجوانوں کی گزارش پر آئیں بیلا بھاٹیہ نے ثالثی کرتے ہوئے پولیس کو اس جلوس کو آگے بڑھنے دینے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اسے آگے جانے دینے کے لیے قطعی تیار نہیں تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ کنٹنٹمنٹ زون لوگوں کوجمع  ہونے سے روکنے کے لیے وجودمیں آتے ہیں اور پھر ہٹ جاتے ہیں۔

صرف ایک دن کے بعد جب کانگریس کے وزیر کو اسی لکھما بیجاپور آئے تھے تب انہیں وزیر صنعت بننے کی مبارکباد دینے کے لیے بڑی بھیڑ اکٹھا ہوئی تھی۔ اس وقت  کسی نے کووڈ کی پرواہ نہیں کی۔ ویسے بھی لاک ڈاؤن 1 جولائی کو ختم ہی ہونے والا تھا۔

تحصیلدار اور تھانیدار نے آرگنائزرس سے سارکیگڈا تک جانے دینے کی اجازت کے لیےعرضی دینے کے لیے کہا۔ ایم بی اے کے نوجوانوں نے پوچھا کہ جب سی آر پی ایف نے کیمپ قائم کرنے کے کے لیے گاؤں والوں کی اجازت نہیں لی تو انہیں اجازت لینے کے لیے عرضی دینے کی کیا ضرورت ہے۔

شیلڈس کے ساتھ تعینات پولیس۔ (فوٹو: نندنی سندر)

شیلڈس کے ساتھ تعینات پولیس۔ (فوٹو: نندنی سندر)

انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ انہیں تحریری طور پر کیوں درخواست کرنا چاہیے، جبکہ سرکار نے انہیں کچھ بھی ریکارڈ کے طور پر دینے سے انکار کر دیا ہے ایف آئی آر کی کاپی، پوسٹ مارٹم رپورٹ، پٹواری کا نقشہ یا اس بابت کوئی بھی یقین دہانی کہ ان کے مطالبات  کو سنا جائےگا۔ یہ بات جائز ہے۔

حالانکہ، چار گھنٹے بعد جب اندھیرا چھانے لگا تھا، دونوں ہی فریق  نے سمجھوتہ کر لیا۔ وہاں  پہنچے ایس ڈی ایم نے تحریری درخواست  دینے کی شرط پر آگے بڑھنے کی اجازت دینے کی بات کہی۔ نوجوانوں کو حالانکہ اس بات کا ڈر ہے کہ درخواست پر دستخط کرنے والوں کو بعد میں پریشان کیا جائےگا۔

آگے جانے دینے کی مانگ پوری طرح سے آئینی  ہے پیسا کے تحت یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ گاؤں کی زمین پر کچھ بھی بنانے سے پہلے گرام سبھا سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ ضلعی سطح پر سی آر پی ایف کو کیمپوں کو بنانے سے پہلے گاؤں کے نمائندوں کی کمیٹی  سے مشورہ  لینا چاہیے۔

گاؤں والے سلگیر کیمپ کےقیام اور 17جون کی فائرنگ کی عدالتی جانچ چاہتے ہیں۔ وہ کیمپ نہیں، اسکول اور اسپتال چاہتے ہیں۔ وہ گرفتاریاں نہیں،بات چیت چاہتے ہیں۔ لیکن ساری کوشش نوجوانوں کی قیادت والی  اس عوامی تحریک کو دبانے کی اور اسے ماؤنوازوں  کے ایک مورچے کے طور پر پیش کرنے کی ہو رہی ہے۔

سی بی اے کی ٹیم کافی مشکل سے دھرناکے مقام  تک پہنچ پائی، جبکہ  کمیونسٹ پارٹی آف انڈیاکو آنے سے روک دیا گیا۔ اس بات کی صرف امید کی جا سکتی ہے کہ شاہین باغ کے سی اےاے مخالف دھرنے کی طرح عدم تشدد پر مبنی اس تحریک  کی طاقت  میں یقین کرنے والے ان مثالیت پسندنوجوان مظاہرین کو ہراساں نہیں  کیا جائےگا۔

چھتیس گڑھ  کی کانگریس سرکار کو یہ چننے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرف ہے جمہوریت کی طرف یا آمریت  کی طرف۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)