خبریں

فارنسک ٹیسٹ میں ہوئی  پیگاسس کے ذریعے جاسوسی کی تصدیق، نشانے پر تھے کئی ہندوستانی صحافی

دی وائرسمیت 16 میڈیا اداروں کے ذریعے کی گئی تفتیش دکھاتی ہے کہ اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےآزادصحافیوں، کالم نگاروں، علاقائی میڈیا کے ساتھ ہندوستان  ٹائمس، دی  ہندو، انڈین ایکسپریس، دی  وائر، نیوز 18، انڈیا ٹو ڈے، دی پاینیر جیسے قومی  میڈیا اداروں  کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: دی وائر اور اس سے وابستہ  میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے دنیا بھر میں ہزاروں فون نمبروں-جنہیں اسرائیلی کمپنی کے متعدد سرکاری صارفین کے ذریعے جاسوسی کے لیے منتخب کیاگیا تھا، کے ریکارڈ کےتجزیے کے مطابق، 2017 اور 2019 کے بیچ ایک نامعلوم  ہندوستانی  ایجنسی نے نگرانی رکھنے کے لیے 40 سےزیادہ ہندوستانی صحافیوں  کومنتخب کیا تھا۔

لیک کیا ہوا ڈیٹا دکھاتا ہے کہ ہندوستان  میں اس ممکنہ ہیکنگ کے نشانے پر بڑے میڈیااداروں  کےصحافی ، جیسے ہندوستان ٹائمس کے مدیر ششر گپتا سمیت انڈیا ٹو ڈے، نیٹ ورک 18، دی  ہندو اور انڈین ایکسپریس کے کئی نام شامل ہیں۔

ان میں دی وائر کے دوبانی مدیران سمیت تین صحافیوں اوردوریگولرقلمکاروں کے نام ہیں۔ ان میں سے ایک روہنی سنگھ ہیں، جنہیں وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کے کاروبار اور وزیر اعظم  نریندر مودی کےقریبی کاروباری نکھل مرچنٹ کو لےکر رپورٹس لکھنے کے بعداور بااثرمرکزی وزیر پیوش گوئل کے بزنس مین اجئے پرامل کے ساتھ ہوئے سودوں کی تفتیش  کے دوران نشانے پر لیا گیا تھا۔

ایک اورصحافی سشانت سنگھ،جو انڈین ایکسپریس میں ڈپٹی ایڈیٹر ہیں، کو جولائی 2018 میں تب نشانہ بنایا گیا، جب وہ دیگر رپورٹس کے ساتھ فرانس کے ساتھ ہوئے متنازعہ  رافیل سودے کو لےکر تفتیش  کر رہے تھے۔

ڈیٹا لیک، این ایس او کا دعوے سے انکار

فرانس کے ایک میڈیا نان پرافٹ ادارےفاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پاس این ایس او کے فون نمبروں کا ریکارڈ تھا، جسے انہوں نے پیگاسس پروجیکٹ نامی ایک لمبی جانچ کےحصہ کےطورپر دی وائر اور دنیا بھر کے 15دوسرے میڈیا اداروں کے ساتھ ساجھا کیا ہے۔

ایک ساتھ کام کرتے ہوئے یہ میڈیا ادارے جن میں دی گارڈین، دی واشنگٹن پوسٹ، ل موند اور سڈڈوئیچ زائیٹنگ شامل ہیں نے کم از کم 10ممالک میں1571 سے زیادہ نمبروں کے مالکوں کی آزادانہ طور پر پہچان کی ہے اور پیگاسس کی موجودگی کو جانچنے کے لیے ان نمبروں سے جڑے فون  کے ایک چھوٹے حصہ کی فارنسک جانچ کی ہے۔

این ایس او اس دعوے کی تردیدکرتا ہے کہ لیک کی گئی فہرست کسی بھی طرح سے اس کےاسپائی ویئر کے کام کاج سے جڑی ہوئی ہے۔ دی وائر اور پیگاسس پروجیکٹ کے شراکت داروں کو بھیجے گئے خط میں کمپنی نے شروعات میں کہا کہ اس کے پاس اس بات پر ‘یقین کرنے کی خاطرخواہ  وجہ ہے’کہ لیک ہوا ڈیٹا ‘پیگاسس کا استعمال کرنے والی سرکاروں کے ذریعے نشانہ بنائے گئے نمبروں کی فہرست نہیں’ ہے، بلکہ ‘ایک بڑی لسٹ کا حصہ ہو سکتا ہے، جسے این ایس او کے صارفین  کے ذریعے کسی اور مقصد(مقاصد)کے لیے استعمال کیا گیا۔’

حالانکہ نشانہ بنائے گئے فون کی فارنسک جانچ میں فہرست میں شامل کچھ ہندوستانی  نمبروں پر پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کی تصدیق ہوئی ہے۔ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ سرولانس کا یہ بےحدغیرقانونی طریقہ جو ہیکنگ کی وجہ سے ہندوستانی  قوانین کے تحت قانونی نہیں ہے اب بھی صحافیوں اور دیگر  کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

پیگاسس اور ہندوستان

سال 2010 میں بنے این ایس او گروپ کو پیگاسس کے موجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پیگاسس ایک ایسا اسپائی ویئر ہے، جو اسے چلانے والوں کو دور سے ہی کسی اسمارٹ فون کو ہیک کرنے کے ساتھ ہی اس کے مائیکروفون اور کیمرہ سمیت، اس کے کنٹینٹ اور استعمال تک پہنچ دیتا ہے۔

کمپنی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ پیگاسس کو نجی اداروں یا کسی بھی سرکار کو نہیں بیچا جاتا ہے۔ اصل میں دی  وائر اور اس کے میڈیا آؤٹ لیٹس کو لکھے خط میں بھی این ایس او نے دہرایا کہ وہ اپنے اسپائی ویئر کو صرف‘جانچی پرکھی سرکاروں’ کو بیچتا ہے۔

این ایس او اس بات کی تصدیق  نہیں کرےگا کہ حکومت ہند اس کی صارف ہے یا نہیں، لیکن ہندوستان میں صحافیوں  اوردیگر لوگوں کے فون میں پیگاسس کی موجودگی اور ممکنہ  ہیکنگ کے لیے چنے گئے لوگوں کو دیکھ کر یہ واضح  ہوتا ہے کہ یہاں ایک یا اس سے زیادہ سرکاری ایجنسیاں فعال طریقے سے اس اسپائی ویئر کا استعمال کر رہی ہیں۔

نریندر مودی سرکار نے اب تک واضح طورپرپیگاسس کےسرکاری طور پر استعمال سے انکار نہیں کیا ہے، لیکن یہ ان الزامات کو خارج کرتی رہی ہے کہ ہندوستان میں کچھ لوگوں کی غیرقانونی نگرانی کے لیے پیگاسس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔سنیچر کو پیگاسس پروجیکٹ کے ممبروں کی جانب سے اس بارے میں بھیجے گئے سوالوں کے جواب میں آئی ٹی کی وزارت  نے اسی بات کا اعادہ کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکیورٹی لیب کے ذریعے لیک ہوئی فہرست میں شامل کئی ممالک کے لوگوں کے ایک چھوٹے گروپ  کے اسمارٹ فون کے آزادانہ فارنسک تجزیے میں آدھے سے زیادہ معاملوں میں پیگاسس اسپائی ویئر کے نشان ملے ہیں۔

ہندوستان میں جانچے گئے 13آئی فون میں سے نو میں انہیں نشانہ بنائے جانے کے ثبوت ملے ہیں، جن میں سے سات میں واضح طور پر پیگاسس ملا ہے۔ نو اینڈرائیڈ فون بھی جانچے گئے، جن میں سے ایک میں پیگاسس کے ہونے کا ثبوت ملا، جبکہ آٹھ کو لےکر یقینی  طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا، کیونکہ اینڈرائیڈ لاگ اس طرح کی تفصیلات دستیاب نہیں کرتے ہیں، جس کی مدد سے ایمنسٹی کی ٹیم پیگاسس کی موجودگی  کی تصدیق  کر سکتی ہے۔

حالانکہ اس مشترکہ تفتیش سے یہ صاف نہیں ہوا ہے کہ وہ تمام صحافی ، جن کے نمبر لیک ہوئی فہرست میں ملے ہیں، کی کامیابی کے ساتھ جاسوسی کی گئی یا نہیں۔ اس کے بجائے یہ تفتیش صرف یہ دکھاتی ہے کہ انہیں2017-2019 کے بیچ سرکاری  ایجنسی یا ایجنسیوں کے ذریعےہدف  کے بطور منتخب کیا گیا تھا۔

اےآئی کی سکیورٹی لیب کے ذریعے کیے گئےخصوصی ڈیجیٹل فارنسک تجزیے میں لیک ہوئی فہرست میں شامل چھ ہندوستانی صحافیوں کے موبائل فون پر پیگاسس اسپائی ویئر کے نشان ملے، جو اس لسٹ میں اپنا نمبر ملنے کے بعد اپنے فون کی جانچ کروانے کے لیے راضی ہوئے تھے۔

پیگاسس پروجیکٹ کی رپورٹنگ سے سامنے آئی صحافیوں کی فہرست کو بےحدتفصیلی یا نگرانی کا نشانہ بنے رپورٹرس کا سیمپل بھر بھی نہیں مانا جا سکتا، کیونکہ یہ صرف لیک ہوئے ایک ڈیٹا سیٹ میں ایک چھوٹی مدت میں سرولانس کے ایک طریقے یعنی صرف پیگاسس سے ہوئی جاسوسی کے بارے میں بات کرتا ہے۔

دہلی کے صحافیوں  پر تھی نظر

لسٹ میں شامل اکثرصحافی قومی راجدھانی کے ہیں اور بڑے اداروں سے وابستہ ہیں۔ مثلاً، لیک ڈیٹا دکھاتا ہے کہ ہندوستان  میں پیگاسس کے کلائنٹ کی نظر ہندستان ٹائمس گروپ  کے چار موجودہ اور ایک سابق ملازم پر تھی۔

ان میں ایگزیکٹوایڈیٹر ششر گپتا، ایڈیٹوریل پیج کے مدیر اور سابق بیورو چیف پرشانت جھا، سلامتی امور کےنامہ نگار راہل سنگھ، کانگریس کور کرنے والے سابق پالیٹکل رپورٹر اورنگ زیب نقش بندی اور اسی گروپ  کے اخبار منٹ کے ایک رپورٹر شامل ہیں۔

دوسرےاہم میڈیا گھرانوں میں بھی کم از کم ایک صحافی تو ایسا تھا، جس کا فون نمبر لیک ہوئے ریکارڈ میں دکھائی دیتا ہے۔ ان میں انڈین ایکسپریس کی رتیکا چوپڑہ(جو ایجوکیشن اورالیکشن کمیشن کور کرتی ہیں)، انڈیا ٹو ڈے کے سندیپ انیتھن(جو دفاع  اور آرمی  سے متعلق  رپورٹنگ کرتے ہیں)، ٹی وی 18 کے منوج گپتا (جو تفتیش  اور دفاعی  امور کے مدیر ہیں)، دی ہندو کی وجیتا سنگھ (وزارت داخلہ کور کرتی ہیں)شامل ہیں، اور ان کے فون میں پیگاسس ڈالنے کی کوششوں کے ثبوت ملے ہیں۔

دی وائر میں جنہیں نشانہ بنایا گیا، ان میں بانی مدیران سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو شامل ہیں، جن کے فون کی فارنسک جانچ میں اس میں پیگاسس ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ دی وائر کی ڈپلومیٹک ایڈیٹر دیوی روپا مترا کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

روہنی سنگھ کے علاوہ دی وائر کے لیےباقاعدگی سےسیاسی  اور سلامتی امور پر لکھنے والے سینئر صحافی پریم شنکر جھا کا نمبر بھی ریکارڈ میں ملا ہے۔ اسی طرح آزاد صحافی  سواتی چترویدی کو بھی تب نشانہ بنایا گیا تھا، جب وہ  دی وائر کے لیے لکھ رہی تھیں۔

سدھارتھ وردراجن، سواتی چترویدی، روہنی سنگھ، ایم کے وینو۔ (تمام فوٹو: دی وائر)

سدھارتھ وردراجن، سواتی چترویدی، روہنی سنگھ، ایم کے وینو۔ (تمام فوٹو: دی وائر)

سرولانس کے لیے نشانہ بنائے جانے کی بات بتائے جانے پر جھا نے کہا، ‘جس طرح یہ سرکار ہندوستانی آئین  کی توہین اس کی حفاظت  کرنے والوں کو ہی پھنسانے کے لیے کر رہی ہے، میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ یہ خطرہ  ہے یاتعریف۔’

دی ہندو کی وجیتا سنگھ نے دی وائر سے کہا، ‘میرا کام اسٹوری کرنا ہے۔ خبر رکتی نہیں ہے، اسٹوری ویسی ہی کہی جانی چاہیے، جیسی وہ ہے، بنا کسی فیکٹ کو دبائے بنا سجائےسنوارے۔’

انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ یہ‘اندازہ  لگانا مناسب نہیں ہوگا’ کہ کوئی انہیں نگرانی کے ممکنہ ہدف کے طور پر کیوں دیکھےگا، ‘ہم جو بھی جانکاری اکٹھا کرتے ہیں، وہ اگلے دن کے اخبار میں آ جاتی ہے۔’

فہرست میں دی  پاینیر کے تفتیشی  رپورٹر جے گوپی کرشنن کا بھی نام ہے، جنہوں نے 2جی ٹیلی کام گھوٹالا کا انکشاف کیا تھا۔ انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘ایک صحافی  کے طور پر میں ڈھیروں لوگوں سے رابطہ کرتا ہوں اور ایسے بھی کئی لوگ ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں نے کس سے رابطہ کیا۔’

کئی ایسےسینئر صحافی ،جنہوں نے مین اسٹریم  کے اداروں کو چھوڑ دیا ہے، وہ بھی لیک ہوئے ڈیٹا میں ممکنہ ہدف کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے لوگوں میں سابق قومی سلامتی کےرپورٹر سیکت دتہ، ای پی ڈبلیو کے سابق مدیر پرنجوئے گہا ٹھاکرتا، جو اب باقاعدگی سے نیوزکلک ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں، ٹی وی 18 کی سابق  اینکر اور دی  ٹربیون کی ڈپلومیٹک رپورٹر اسمتا شرما، آؤٹ لک کےسابق  صحافی  ایس این ایم عابدی اور سابق ڈی این اے رپورٹر افتخار گیلانی کا نام شامل ہے۔

دی وائر کے ذریعے کیےگئے ڈیٹا کےتجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بالا اکثر ناموں کو 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے 2018-2019 کے بیچ نشانہ بنایا گیا تھا۔

وہیں کچھ صحافیوں کو کم وبیش ایک ہی وقت میں ممکنہ ہدف کی فہرست میں جوڑا گیا، دیگر کو اکیلے ہی نشانے کے طور پر چنا گیا ہے، شاید ان رپورٹس کے لیے جن پر وہ اس وقت کام کر رہے تھے۔ اور یہ رپورٹس ہمیشہ بہت معمولی  نہیں ہوتی ہیں۔

ایک نوجوان ٹی وی صحافی، جنہوں نے ان کا نام نہ دینے کو کہا ہے، کیونکہ وہ  کسی اورشعبہ میں کریئر بنانے کے لیے صحافت چھوڑ چکی ہیں، نے دی وائر کو بتایا کہ جہاں تک انہیں یاد پڑتا ہے ڈیٹا میں دکھائی گئی مدت میں جس اسٹوری کے لیے انہیں ممکنہ طور پر نگرانی کے لیے نشانہ بنایا جا سکتا ہے، وہ سی بی ایس ای پیپر لیک سے جڑی تھی۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

اس سے پہلے کے پیگاسس کے نشانے

سال2019 میں وہاٹس ایپ نے کنیڈا کے سٹیزن لیب کے ساتھ مل کر اس ایپ کی سکیورٹی  میں سیندھ لگانے کو لےکر ہوئے پیگاسس حملے کو لےکر اس سے متاثر ہوئے درجنوں ہندوستانیوں کوآگاہ کیا تھا۔ ایسے کم از کم دو صحافی  ہیں، جن کا نام پیگاسس پروجیکٹ کو ملے لیک ڈیٹا میں ہے، جنہیں 2019 میں وہاٹس ایپ کے ذریعے ان کے فون ہیک ہونے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

ان میں وزارت خارجہ کور کرنے والے رپورٹر سدھانت سبل (جو وی آن ٹی وی چینل میں کام کرتے ہیں)اورسابق لوک سبھا ایم پی  اور سینئر صحافی سنتوش بھارتیہ کا نام ہے۔

دی وائر کے ذریعے جس ڈیٹا کا تجزیہ  کیا گیا، اس کے مطابق سبل کو 2019 کی شروعات میں چنا گیا تھا، انہوں نے اسی سال کے آخر میں بتایا تھا کہ انہیں وہاٹس ایپ نے ان کے فون سے ہوئی چھیڑ چھاڑ کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ ریکارڈس کے مطابق، بھارتیہ کو بھی ممکنہ ہدف  کے طور پر 2019 کی شروعات میں ہی چنا گیا تھا، انہوں نے عوامی  طور پر یہ بتایا تھا کہ انہیں بھی وہاٹس ایپ کی جانب سے پیغام  بھیجا گیا تھا۔

دہلی سے دور

لیک ہوئے ڈیٹامیں ان صحافیوں کے نمبر شامل ہیں، جو لیوٹنز دہلی اور قومی  چکاچوند سے بہت دور کام کرتے ہیں۔ اس میں نارتھ- ایسٹ کی منورنجنا گپتا، جو فرنٹیر ٹی وی کی ایڈیٹر ان چیف  ہیں، بہار کے سنجے شیام اور جسپال سنگھ ہیرن کے نام شامل ہیں۔

ہیرن لدھیانہ کے پنجابی روزنامہ روزانہ پہریدار کے ایڈیٹر ان چیف  ہیں۔ پنجاب کے ہر ضلع میں اخبار کے صحافی  ہیں، اسے بڑے پیمانے  پڑھا جاتا ہے اور صوبے میں اس کا خاصہ اثر ہے۔

ہیرن نے پیگاسس پروجیکٹ کو بتایا کہ ان کے اخبار کی تنقیدی  رپورٹ کی وجہ سے سالوں سے سبھی سرکاروں کے ساتھ ان کا ٹکراؤ ہوا ہے اور انہیں کئی قانونی نوٹس ملے ہیں۔

ہیرن اور ان کا اخبار۔ (فوٹو: پاون جوت کور)

ہیرن اور ان کا اخبار۔ (فوٹو: پاون جوت کور)

انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر کسی بھی طرح سے نگرانی رکھا جانا ‘شرمناک’ ہے۔ انہوں نے کہا، ‘انہیں یہ پسند نہیں ہے کہ ان کی قیادت میں ملک جس سمت میں جا رہا ہے، ہم اس کی تنقید کریں۔ وہ ہمیں چپ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔’

لدھیانہ سے جنوب مشرق میں 1500 کیلومیٹر دور ایک اور صحافی ملے، جو فوری طور پر تو بےحد بااثر نہیں لگتے ہیں، لیکن این ایس او گروپ کے ہندوستانی  کلائنٹ کی ان میں کافی دلچسپی نظر آتی ہے۔ جھارکھنڈ کے رام گڑھ کے روپیش کمار سنگھ آزاد صحافی  ہیں اور ان سے جڑے تین فون نمبر لیک ہوئے ڈیٹا میں ملے ہیں۔

روپیش یہ جان کر حیران نہیں تھے کہ انہیں جاسوسی کے لیے نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے بتایا، ‘مجھے ہمیشہ سے لگتا تھا کہ مجھ پر نظر رکھی جا رہی ہے،بالخصوص2017 میں جھارکھنڈ پولیس کے ذریعے ایک بے قصور آدی واسی کے قتل کو لےکر کی گئی رپورٹ کے بعد سے۔’

جس رپورٹ کا روپیش ذکر کر رہے ہیں، وہ 15 جون 2017 کو دی وائر ہندی میں شائع  ہوئی تھی اور جس میں ایک ایسے شخص کی موت کو لےکر سوال اٹھائے گئے تھے، جس کو لےکر ریاستی  پولیس نے ممنوعہ  ماؤنوازگروپ  سے تعلق  ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

پیگاسس پروجیکٹ کے ڈیٹا کے مطابق روپیش کے فون کی نگرانی کی شروعات اس رپورٹ کے کچھ مہینوں بعد ہوئی تھی۔

جون2019 میں روپیش کو بہار پولیس نے گرفتار کیا تھا اوریو اے پی اے کے تحت دھماکہ خیز مادہ رکھنے کا معاملہ درج کیا تھا۔ چھ مہینے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا کیونکہ پولیس طےو قت  کے اندر چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام  رہی۔

سنگھ نے کہا، ‘پولیس نےدھماکہ خیز مواد نصب کیے تھے۔ یہ میری رپورٹنگ کی وجہ سے مجھے ڈرانے دھمکانے کی کوشش تھی۔’

فارنسک تجزیہ کیا کہتا ہے؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکیورٹی لیب نے سات صحافیوں کے فون پر ڈیجیٹل فارنسک جانچ کی۔ اس کے نتائج کا سٹیزن لیب کے ماہرین  کے ذریعے ٹیسٹ  کیا گیا تھا، جبکہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ایک ادارےکے ذریعے ایک جامع طریقہ کار کا جائزہ لیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کےسابق صحافی سشانت سنگھ، ٹی وی 18 کی سابق اینکر اسمتا شرما، ای پی ڈبلیو کے سابق مید پرنجوئے گہا ٹھاکرتا، آؤٹ لک کے سابق صحافی  ایس این ایم عابدی، دی ہندو کی وجیتا سنگھ اور دی وائر کے دوبانی مدیران سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو کے فون کاتجزیہ کیا گیا تھا۔

اےآئی نے پایا کہ ان میں سے سشانت، پرنجوئے، عابدی، سدھارتھ اور وینو کے فون میں پیگاسس سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ اسمتا شرما کے معاملے میں تجزیہ دکھاتا ہے کہ ایپل کے آئی میسیج سسٹم کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ وہ فون میں پیگاسس ڈالنے میں کامیاب ہو سکے۔ اسی طرح وجیتا کے فون میں چھیڑ چھاڑ کی کوشش کے ثبوت تو ملتے ہیں، لیکن ہیکنگ ناکام رہی ہے۔

(علامتی تصویر فوٹو،بہ شکریہ: فیس بک/White Oak Cremation)

(علامتی تصویر فوٹو،بہ شکریہ: فیس بک/White Oak Cremation)

حالانکہ نتیجےیہ نہیں دکھاتے ہیں کہ حملہ آور نے پیگاسس کا استعمال کرکے کیا کیا، لیکن مندرجہ ذیل لوگوں کے لیے کچھ اہم نتائج دیے گئے ہیں:

ایس این ایم عابدی: اپریل 2019، مئی 2019، جولائی 2019، اکتوبر 2019 اور دسمبر 2019 کے مہینوں کے دوران پیگاسس کے ذریعےفون سے چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ ایمنسٹی اس کے طریقے(کس طرح اسپائی ویئر فون میں پہنچا)کوتصدیق نہیں کر سکا۔

سشانت سنگھ: مارچ 2021 سے جولائی 2021 تک پیگاسس کے ذریعے فون سے چھیڑ چھاڑ کی گئی، جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل آئی میسیج سروس میں ہوا زیرو کلک ایکسپلائٹ کہتا ہے۔ ایسے حملے کو ‘زیرو کلک ’اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں متاثرین کو کچھ نہیں کرنا ہوتا (جیسے ایس ایم ایس یا ای میل میں آئے کسی غلط ارادے والے لنک پر کلک کرنا وغیرہ)

پرنجوئے گہا ٹھاکرتا: اپریل 2018،مئی 2018، جون 2018 اور جولائی 2018 کے دوران پیگاسس کے ذریعے فون سے چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ ایمنسٹی اس طریقے کی پہچان کرنے میں ناکام رہا، جس کا استعمال اسپائی ویئر کی فون میں دراندازی کے لیے کیا گیا۔

ایم کے وینو: ایمنسٹی کے ماہرین نے پایا کہ فون کو حال ہی میں جون 2021 تک زیرو کلک ایکسپلائٹ کے ذریعے پیگاسس سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

سدھارتھ وردراجن: اپریل 2018 کے کچھ حصوں کے دوران پیگاسس کے ذریعے فون سے چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ ڈیجیٹل فارنسک یہ نہیں بتا سکا کہ اسپائی ویئر نے فون کو کیسے متاثر کیا۔

مین اسٹریم کے ایک ہندوستانی اخبار کے سینئر ایڈیٹر کے آئی فون کا بھی ڈیجیٹل فارنسک تجزیہ کیا گیا تھا، لیکن چونکہ یہ وہ ڈیوائس نہیں تھا جسے صحافی ممکنہ نشانے کے طور پر چنے جانے کے وقت استعمال کر رہے تھے، ایمنسٹی پیگاسس کے ثبوت تلاش کرنے میں ناکام رہا۔

فاربڈین اسٹوریز اور دی وائر نےمین اسٹریم سمیت دیگر کئی صحافیوں سے فارنسک تجزیے میں شامل ہونے کے بابت بات کی، لیکن انہوں نے ان کے مینجمنٹ کے ذریعےعدم تعاون اور اس عمل میں عدم اعتماد ظاہر کرنے جیسی  متعدد وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے اس میں حصہ  لینے سے انکار کر دیا۔

(پاون جوت کور، اجئے آشیرواد مہاپرشست اور دیوی روپا مترا کے ان پٹس کے ساتھ)