خبریں

نگرانی فہرست میں آسام اور ناگا امن مذاکرات سے وابستہ بڑے رہنماؤں کے نمبر شامل

پیگاسس پروجیکٹ: آسام کے دو بڑے رہنماؤں، ایک منی پوری رائٹر اور بااثرناگاتنظیم این ایس سی این-آئی ایم کے کئی رہنماؤں کے نمبر اس فہرست میں درج ہیں، جن کے فون کو پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہیک کرکےنگرانی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

آسام کے رہنما سموجل بھٹاچارجی اور انوپ چیتیا۔

آسام کے رہنما سموجل بھٹاچارجی اور انوپ چیتیا۔

نئی دہلی: دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کی نگرانی سے متعلق  لیک ہوئے دستاویزوں میں آسام کے دو بڑے رہنما اور بااثر ناگا تنظیم نیشنل سوشلسٹ کاؤنسل آف نگالم اساک موئیواہہ (این ایس سی این-آئی ایم)کے رہنماؤں کے نمبر بھی شامل ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ ممکنہ طورپر  ان کے فون کو ہیک کیا گیا ہو۔

نگرانی فہرست میں شامل نارتھ-ایسٹ کے رہنماؤں میں آسام کے سموجل بھٹاچارجی، جو آل آسام اسٹوڈنٹس یونین(آسو)اور انوپ چیتیا، جو یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف اسوم (الفا)کے رہنما ہیں، کے نمبر شامل ہیں۔

اسی طرح این ایس سی این(آئی ایم)کے اتیم واشوم، اپم موئیواہہ، انتھنی شمرے اور فنتھنگ شمرنگ کے نمبربھی نگرانی فہرست میں درج پائے گئے ہیں۔

فرانس واقع میڈیانان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز نے سب سے پہلے یہ فہرست حاصل کی تھی، جسے بعد میں انہوں نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت دنیا بھر کے 17میڈیا اداروں کے ساتھ ساجھا کیا، جس میں دی وائر بھی شامل ہے۔ اس بات کاامکان ہے کہ اسرائیل واقع  این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے فہرست میں درج نمبروں کی نگرانی کی گئی ہوگی۔

بھٹاچارجی مرکزی حکومت کے ساتھ سال 1985 میں ہوئے آسام سمجھوتے پردستخط کرنے والے لوگوں میں سے ایک ہیں، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آسامی سماج کے لوگوں کی تہذیب، ثقافت،زبان سے وابستہ پہچان اور وراثت کی حفاظت، نگرانی اور فروغ کے لیے آئینی ، قانونی اور انتظامی اقدامات، جو بھی موزوں ہوں، کیے جائیں گے۔

اسی سمجھوتے کی وجہ سے آسام میں شہریت ثابت کرنے کے لیے کٹ آف تاریخ 24 مارچ 1971 رکھی گئی ہے، جو ملک  کے باقی صوبوں سے الگ ہے۔ اسی کی بنیاد پرصوبے میں این آرسی اپ ڈیٹ کرنے کا متنازعہ عمل چل رہا ہے۔

بھٹاچارجی کا نمبرنگرانی فہرست میں وزارت داخلہ کے ذریعےآسام سمجھوتے کی شق چھ کو لاگو کرنے کے لیےکمیٹی  کی تشکیل  سے تقریباً ایک مہینے پہلے ڈالا گیا تھا۔

ویسے کسی کا نمبر واقعی میں ہیک کیا تھا یا نہیں، اس کی تصدیق فارنسک جانچ کے بعد ہی کی جا سکتی ہے، لیکن اس فہرست میں نام ہونے کی وجہ سےمتعلقہ افراد کی نگرانی کےامکان سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آخر کیوں بھٹاچارجی کو ممکنہ ٹارگیٹ بنایا گیا تھا، لیکن جس دوران ان کے نمبر کو لسٹ میں جوڑا گیا تھا، اس سے کچھ جواب ملتے ہیں۔اس دوران وزارت داخلہ نے آسام سمجھوتے کی شق چھ کو لاگو کرنے کے لیے کمیٹی  کا قیام کیا تھا۔ سیاسی مبصرین  کا ماننا ہے کہ آسو کو مطمئن کرنے کے لیے ایسا کیا گیا تھا۔

اس کمیٹی  میں بھٹاچارجی کے علاوہ اس وقت کے اے اے ایسیہ جنرل سکریٹری لرنجیوتی گگوئی اور صدر دیپانکار ناتھ بھی تھے۔

وہیں الفا کے انوپ چیتیا کو جب دی وائر نے بتایا کہ ان کا بھی نام نگرانی فہرست میں ہے تو انہوں نے کہا کہ انہیں پہلے سے ہی پتہ تھا کہ ان پر نگرانی کی جا رہی ہوگی۔

انوپ نے کہا، ‘میرے پاس دو نمبر ہیں۔ ہر وقت پولیس میری بات چیت سنتی رہتی ہے۔ میں بالکل بھی حیران نہیں ہوں۔ (2015 سے)میرے جیل سے چھوٹنے کے بعد ایک نمبر مجھے آسام پولیس نے ہی دیا تھا۔ اس لیے یہ سوچنا بھی معصومیت ہوگی کہ اس نمبر کے ذریعے مجھ پر کوئی سرولانس نہیں ہوتا ہے۔’

چیتیا کےنمبر سال 2018 کے آخر اور سال 2019 کے وسط میں نگرانی فہرست میں دکھائی دیتے ہیں۔ الفا رہنما نے متنازعہ شہریت  قانون کی کھل کر مخالفت کی ہے۔

نومبر2018 میں احتجاجی مظاہروں  کے دوران چیتیا نے صحافیوں سے کہا تھا کہ اگر‘اس قانون کو لاگو کیا جاتا ہے تو آسام جل اٹھےگا۔’

لیک ہوئے ڈیٹا میں پایا گیا ایک فون نمبر منی پور کے باشندہ اور دہلی میں مقیم  قلمکارمالیم ننگتھوجا کا ہے۔ رابطہ کرنے پر انہوں نے د ی وائر کو بتایا کہ ‘کچھ لوگوں’ نے انہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ان کا فون ‘ٹریک کیا گیا ہوگا۔’

انہوں  نے کہا کہ باربار الگ الگ نمبروں سے کال آتی ہے، شور سنائی دیتا ہے، اچانک سے فون کٹ جاتا ہے، لیکن ہیکنگ کو لےکر کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔

ننگتھوجا نے کہا کہ چونکہ وہ ہر طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں اس لیے سرکار کو لگتا ہے کہ وہ انڈرگراؤنڈ گروپوں کے ساتھ ہیں اور انڈرگراؤنڈ گروپ  کو لگتا ہے کہ وہ سرکار کی کٹھ پتلی ہیں۔

ویسے اس کی  کوئی وجہ  نہیں پتہ چلی ہے کہ ان کا نام نگرانی فہرست میں کیوں آیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سال 2012 اور 2019 کے بیچ میں منی پور میں سرگرم کئی انڈرگراؤنڈ گروپوں کے رابطے میں تھا تاکہ میں اپنی کتاب کے لیے ان کے نظریات کوسمجھ سکوں۔ میں مختلف موضوعات جیسے کہ قومی خودمختاریت ،انقلاب، گلوبلائزیشن،امن وامان پر ان کی رائے جاننا چاہتا تھا۔ کچھ نے تو اس کا جواب دیا تھا، لیکن کچھ نے نہیں دیا۔’

اسی طرح حکومت ہندکے خلاف دہائیوں بغاوت  کرنے والے ناگا گروپ این ایس سی این(آئی ایم) کا سال 2015 میں مودی سرکار کے ساتھ سمجھوتہ ہونے کے بعد ان کے نمبر نگرانی فہرست میں دکھائی دیتے ہیں۔

لیک ہوئے ڈیٹا کے مطابق اتیم واشوم، جسے ای ایس سی این(آئی ایم) کے صدرٹی موئیواہ کا جاں نشیں  مانا جا رہا ہے، کا نمبر سال 2017 کے دوران ممکنہ  ٹارگیٹ کے طورپر چنا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ان  کے بھتیجے اپم موئیواہ کا بھی نمبر اس میں شامل کیا گیا۔

لیک ہوئے ریکارڈ میں این ایس سی این(آئی ایم)کی ناگا فوج کے کمانڈر ان چیف انتھنی ننگکھانگ شمرے کے دو فون نمبر بھی 2017 کے آخر میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے سابق کمانڈر ان چیف اور این این این پی جی کنوینر این کٹووی جھمومی کے فون نمبر 2019 کی پہلی ششماہی میں دکھائی دیتے ہیں۔

جن کے نام لیک ہوئے نگرانی فہرست میں آئے ہیں، انہوں نے سال 2015 کے امن مذاکرات  میں اہم رول ادا کیے تھے۔

قابل ذکرہے کہ نارتھ-ایسٹ کی تمام عسکریت پسند تنظیموں کا قائد مانے جانے والا این ایس سی این – آئی ایم غیرسرکاری طور پر سرکار سے سال 1994 سے امن کے عمل  کو لےکر بات کر رہا ہے۔سرکار اورتنظیم  کے بیچ باضابطہ مذاکرات سال 1997 سے شروع ہوئے۔ نئی دہلی اور ناگالینڈ میں بات چیت شروع ہونے سے پہلے دنیا کے الگ الگ ممالک  میں دونوں کے بیچ بیٹھکیں ہوئی تھیں۔

بتادیں کہ 18 سال چلی 80 دور کی بات چیت کے بعد اگست 2015 میں حکومت ہند نے این ایس سی این – آئی ایم کے ساتھ حتمی حل  کی تلاش کے لیےفریم ورک معاہدےپر دستخط  کیے ۔این ایس سی این- آئی ایم کے جنرل سکریٹری تھلنگلینگ موئیواہ اور مذاکرہ کار آر این روی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں تین اگست، 2015 کو اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

چار سال پہلے مرکز نے ایک سمجھوتے (ڈیڈ آف کمٹمنٹ)پر دستخط کرکےسرکاری طور پرچھ ناگا قومی سیاسی گروپ(این این پی جی)کے ساتھ بات چیت کا دائرہ بڑھایا تھا۔اکتوبر2019 میں سرکاری طور پر ان گروپوں کے ساتھ ہو رہے امن مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، لیکن ناگالینڈ کے دہائیوں پرانے سیاسی بحران کے لیے ہوئے حتمی  سمجھوتے کا آنا ابھی باقی ہے۔

موئیواہ نے اگست 2020 میں کہا تھا، ‘دہائیوں پرانی  تحریک کے حل کے لیے2015 میں باہمی وجود اور مشترکہ خودمختاری کے اصول کی بنیاد پرحکومت ہند کے ساتھ فریم ورک معاہدے پررضامندی بنی تھی۔’انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس معاہدے میں حکومت ہندنے ناگاؤں کی خودمختاریت کو تسلیم  کیاتھا۔ اس معاہدے میں خود مختار اقتدار میں شریک دو اداروں کے پرامن بقائے باہمی کا حوالہ دیا گیاتھا۔