خبریں

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات کے تئیں سرینگر میں عدم دلچسپی کیوں؟

پاکستان کے  زیر انتظام کشمیر میں فی الوقت انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔  724 امیدوار 25 جولائی کو 45 انتخابی حلقوں میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ ان میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے 33حلقوں سے 602 امیدوارجبکہ مہاجرین مقیم پاکستان کے 12 انتخابی حلقوں سے 122 امیدوار میدان میں ہیں۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

مجھے یاد ہے کہ غالباً آٹھویں جماعت میں شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں ہمارے اسکول نے اس سال پکنک کے لیے اوڑی جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ چونکہ ان دنوں اس علاقے میں فوج کی بہت زیادہ جمعیت نہیں ہوتی تھی اور رسائی بھی نسبتاً آسان تھی، اس لیے مہورا کا بجلی گھر، نمبلہ، نورکھاء اور دیگر آبشار دیکھنے کے بعد ہم نے لائن آف کنٹرول کے پاس ہی ڈھیرا ڈال دیا۔

ایک چھوٹے سے رسی والے پل کی دوسری  طرف پاکستانی فوج کی پوسٹ پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ مقامی دیہاتی اور ان کے بچے دریا کے دوسرے کنارے ہاتھ ہلا کر ہمارا استقبال کر رہے تھے۔  ہمار ے ساتھ آئے استاد جب بتا رہے تھے کہ اس لائن کی دوسری طرف چکھوٹی کا  قصبہ اور پھر مظفر آباد کا شہر ہے، تو گویا پورے گروپ میں موجود بچوں کی دل کی دھڑکنیں رک سی گئی تھیں۔

استاد کیا بچے اپنے ہی وطن کا دوسری طرف کا علاقہ دیکھ کر سرد آہیں بھر رہے تھے۔ بعد میں جب اپنے صحافتی کیریر کے دوران مجھے لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں خاص طور پر پونچھ، راجوری جانے کا موقعہ ملا تو دیکھا کہ سرحدی آبادی کس قدر دوسری طرف موجود اپنے اقربا و علاقے کو دیکھنے اور یکجا ہونے کے لیے مضطرب ہے۔

سال2011میں جب میں تہلکہ گروپ میں کام کر رہا تھا، توملک بھر میں تعمیر نئے باندھ بنانے اور ان کے نتیجے میں آبادی کے بے گھر ہونے سے متعلق ایک اسٹوری پر کام ہو رہا تھا۔ میں نے وادی گریز میں کشن گنگا پاور پروجیکٹ پر کام کرنے پر حامی بھرلی۔

بجائے دہلی سے فوٹو گرافر کو ساتھ لینے کے، مجھے بتایا گیا کہ سرینگر سے ہی کسی فری لانس  فوٹو گرافر کی خدمات حاصل کرلوں۔ خیر اجازت نامہ وغیرہ لینے کے بعد دو فوٹو گرافروں اور ایک مقامی صحافی کی معیت میں بانڈی پورہ کے راستے دن میں کئی رنگ بدلتے حبہ خاتون پہاڑ کے دامن میں سربز و شاداب وادی گریز پہنچا۔ میرے ساتھ باقی تینوں افراد سرینگر سے تعلق رکھتے تھے، اور لائن آف کنٹرول دیکھنے کا ان کابھی پہلا موقع تھا۔ میرا پروگرام تھا کہ کام مکمل کرنے کے بعد تلیل اور کابلی گلی سے ہوتے ہوئے سونہ مرگ یا کرگل کا سفر کیا جائے، کیونکہ ایسے علاقوں میں  دوبارہ شاذ و ناذ ہی آنے کا موقعہ ملتا ہے۔

مگر جونہی مقامی گائیڈ لائن آف کنٹرول کے بالکل پاس دوسری طرف پاکستانی چوکی کی طرف اشارہ کرتا تھا یا کوئی گاؤں دوسری طرف کا نظر آتا  تھا، تو سرینگر کے یہ تینوں نوجوانوں پر جیسے کوئی عمل تنویم کرتا تھا۔ وہ سجدے میں گر جاتے تھے۔ میر ی ڈانٹ پر و ہ سنبھل کر معافی بھی مانگتے تھے، مگر اگلے موڑ پر پھر یہی کچھ کرتے تھے۔

جس کی وجہ سے میں نے کام جلدی نمٹا کر کوچ کرنے میں ہی عافیت جانی۔  1977 میں جموں و کشمیر کی تاریخ کا پہلا نسبتاً صاف و شفاف الیکشن میں خاص طور پر شمالی کشمیر میں شیخ محمد عبداللہ کے دست راست مرزا محمد افضل بیگ جلسوں میں سبز رومال اور پہاڑی نمک کی ڈلی دکھا کر مظفر آباد روڑ کھولنے کا وعدہ کرنے ووٹ مانگتے تھے۔

سال2015  میں جب میں سرینگر کے گیارہ صحافیوں کے ہمراہ رائزنگ کشمیرکے گروپ ایڈیٹر مرحوم شجاعت بخاری کی قیادت میں مظفر آباد وارد ہوا۔ تو اس شہر کی سڑکوں پر ٹہلتے ہوئے ایک بوڑھے شخص نے ہمیں وہاں آنے والے ٹورسٹ سمجھ کر پہاڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی:”اس پہاڑ کے پاس کپواڑہ ہے،اس دوسرے پہاڑکے پار اوڑی اور بارہ مولہ اور ایک بڑی سی جھیل ولر…“۔ جب ہم نے اسے بتایا کہ ہم انہی علاقوں کے رہنے والے ہیں تواس کی آنکھوں میں ایک عجب طرح کی چمک آگئی۔

بارہ مولہ قصبے کا رہنے والا یہ شخص اپنے والدکے ساتھ مظفرآباد کے قریب ایک دکان لگاتا تھا۔1947کے واقعات پیش آنے کے بعد سے وہ ان پہاڑوں کومسلسل دیکھتا رہتا ہے اوردیکھتے دیکھتے اپنے آبائی قصبے کی یادوں میں کھو جاتا ہے۔ وہ بارہ مولہ کے محلوں اور اپنے بچپن کے دوستوں کے نام یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس پر عجب طرح کی سرمستی طار ی ہوگئی۔

بچپن میں جب میں کپواڑہ ضلع کے دوردرازعلاقوں  چوکی بل، تارت پوریا  منز گام جاتا تھا تو 1947ء سے پہلے کی نسل، جو وادی نیلم کے راستے پشاور جا کر سردیوں میں مزدوری کرتے تھے، اب بھی شمس باری پہاڑوں کی طرف رخ کرکے دوسری طرف کی جنت نظیر کا خطہ دیکھنے کا خواب آنکھوں میں سجائے رکھتے تھے۔  مجھے یاد ہے،ان بزرگوں سے ان علاقوں کی کہانیاں سن کرہم بھی رومانوی دنیا میں پہنچ جاتے تھے۔

ان دونوں خطوں کے باسیوں کی اس طرح کی جذباتی وابستگی کے باوجودوادی کشمیر نہ ہی جموں کے خطوں میں پاکستان کے زیر ا نتظام کشمیر کے انتخابات کے تعلق سے کوئی دلچسپی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے  زیر انتظام کشمیر  میں فی الوقت انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔  724 امیدوار 25 جولائی کو 45 انتخابی حلقوں میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ ان میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے 33حلقوں سے 602 امیدوارجبکہ مہاجرین مقیم پاکستان کے 12 انتخابی حلقوں سے 122 امیدوار میدان میں ہیں۔

اسی طرح کشمیر کے انتخابات بھی  پاکستان کے  زیر انتظام کشمیر  میں تجسس پیدا نہیں کرتے ہیں۔ برطانیہ کے زیر انتظام شمالی آئرلینڈ اور ری پبلک آف آئرلینڈ اور شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے باسیوں کے درمیان بھی کچھ ایساہی تعلق ہے۔ میں نے انتخابات کے دوران ان دونوں علاقوں کا دورہ کیا ہے اور ووہ ایک دوسرے کے علاقے کی سیاسی صورت حال پر خاصے بحث و مباحثے کرتے ہیں۔ شمالی آئر لینڈ کے سیاسی لیڈران برطانوی شہریت کے باوجود ری پبلک آف آئر لینڈ کے انتخابات میں شرکت بھی کرتے ہیں۔

شاید اس عدم دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ کشمیر کے دونوں خطوں میں یہ تاثر عام ہے کہ نئی دہلی یا اسلام آباد کی پشت پناہی کے بغیر کوئی بھی سرینگر یا مظفر آباد میں حکومت نہیں بنا سکتا ہے۔ 1977میں شیخ محمد عبداللہ صرف اسی وجہ سے بھاری اکثر یت سے جیت گئے کیونکہ اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی نے ان انتخابات میں مداخلت کرنے کے انکار کر دیا تھا۔ یہ تاثرا گر پاکستان کے  زیر انتظام کشمیر  کے انتخابات کے تئیں صحیح ہے، تو نہایت ہی خطر ناک ہے اور اس کا سد باب ضروری ہے۔

مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اس خطے کی پہلی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس سردار عبدالقیوم کی وفات کے بعد اپنی قد و قامت و اہمیت کھو چکی ہے۔ یہی حال کم و بیش اب وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس کا بھی ہوا ہے۔نئی دہلی کی جی حضوری کی وجہ سے کسی حد تک وہ سانس لے رہی تھی، مگر اب لگتا ہے کہ فاروق عبداللہ کے بعد شاید اس کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔ دونوں پارٹیوں نے اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر خاندانی راج کے ذریعے پارٹی اور خطےپرحکومت کرنے کی داغ بیل ڈال دی۔

کشمیر میں گو کہ پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی یعنی پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں بطور متبادل میدان میں آگئی، مگر اس نے نیشنل کانفرنس کی ہی راہ اپنا کر 2014میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے ساتھ ناطہ جوڑ کر اپنے ووٹروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔  پاکستان کے  زیر انتظام کشمیر  میں مسلم کانفرنس کو چیلنج کرنے کے لیے کوئی مقامی پارٹی میدان میں نہ آسکی۔ جس کی وجہ سے یہ سیاسی خلا پاکستان کی سیاسی جماعتوں نواز شریف کی مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی یعنی پی پی پی اور اب عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پوری کر رہی ہے۔

ویسے وادی کشمیر میں  اگر کسی واحد پاکستانی سیاستدان کو عوامی پذیرائی ملی ہے، تو وہ بلا شبہ ذولفقار علی بھٹو ہے۔ سرینگر کا بڈشاہ پل کراس کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی کے باالمقابل بھٹوکی قد آدم تصویر کئی سال تک نظر آتی تھی۔ وہاں کسی بھٹو میموریل کمیٹی کا دفتر بھی ہوتا تھا۔ شاید بھٹو کی تقریروں نے ان کے لیے کشمیر یوں کے دلوں میں جگہ بنائی تھی۔

پاکستان میں تو بھٹو کی موت پر شاید کسی نے ایسا سوگ نہیں منایا، جیسا کشمیریوں نے 1979میں منایا۔ مگر اس کے کچھ عرصے کے بعد فوجی آمر ضیا ء الحق بھی کشمیر میں خاصے مقبول ہوگئے۔ ان دو پاکستانی حکمرانوں کے علاوہ کوئی اور پاکستانی سیاسی یا فوجی لیڈر کشمیر میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکا ہے، چاہے وہ نواز شریف ہوں یا بے نظیر بھٹو۔

نواز شریف کو بیرون ملک جب بھی موقع ملتا تھا، تو میر واعظ عمر فاروق کے ساتھ تصویر کھنچ کر اس کی خوب تشہیر کرواتے تھے، مگر عوامی قبولیت سے وہ دور ہی رہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں جم کر کشمیر کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے نئی دہلی نے ان کو کبھی معاف نہیں کیا، مگر وہ بھی اپنے والد کے برعکس کشمیر میں جادو نہیں جگا سکی۔

بطور کرکٹر عمران خان کو مقبولیت حاصل تو تھی۔ اکتوبر 1983میں سرینگر میں ہندوستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ایک روزہ میچ کے دوران اسٹیڈیم میں عمران خان کے قد آدم پوسٹر نمایاں تھے۔ وہ شاید کسی حد تک بھٹو کے بعد سیاسی مقبولیت حاصل کرسکتے تھے، مگر پچھلے تین سالوں کے درمیان کشمیر یا دیگر بین الاقوامی امور پر ان کی کارکردگی تقریروں سے آگے نہیں بڑھنے سے ان کے تئیں مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا موجودہ علاقہ جو 13297مربع کلومیٹر پر محیط ہے، دراصل وادی کشمیر کے پہاڑی علاقے اور اس کا بیشتر علاقہ جموں خطے کے ایکسٹنشن پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس کی سماجی ترتیب بھی وادی کشمیر کے بجائے جموں سے مماثلت رکھتی ہے۔ وادی کشمیر میں زبان و نسل و قبیلہ کے اعتبار سے ماضی کے انگلینڈ کی طرح یکساں قومیت کے لوگ رہتے ہیں۔

بقول چودھری غلام عباس، جنہوں نے ان دو خطوں کی سیاست کا موازنہ کیا ہے، تحریر کرتے ہیں کہ؛”وادی کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی وجہ سے سماجی، سیاسی اور جماعتی زندگی کا تحیل فرقہ وارانہ  طور پر تقریباً ناپید ہے۔“ ان کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس  ”صوبہ جموں کے مسلمان قبیلوں اور برادریوں کے بندھنوں میں گرفتار ہیں، کہیں سید اور مغل، کہیں جاٹ اور گوجر، کہیں راجپوت، سدھن اور چوہان۔ یعنی ہر قبیلہ دوسرے کے درپے آزار، ایک ضلع کی بولی، وضع قطع، شکل و شباہت، تہذیب اور معاشرت دوسرے ضلع سے مختلف۔۔“چودھری صاحب لکھتے ہیں ”کہ ایک موقع پر شیخ عبداللہ نے کسی معاملہ میں مجبور ہو کر ان کو کہا کہ اگر میں صوبہ جموں میں ہوتا، تو کب کا میدان سیاست سے راہ فرار اختیار کر گیا ہوتا۔“

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی 53 نشستوں پر مشتمل ہے، جن میں سے 45 نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں جبکہ خواتین کے لیے 5، ٹیکنوکریٹ، علماء مشائخ اور بیرونِ ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔ جن نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم ان مہاجرینِ جموں کشمیر کے لیے مختص ہیں جو 1947 اور 1965میں ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ ان میں سے 6 نشستیں صوبہ جموں اور 6 صوبہ کشمیر کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔

خطے کے معروف صحافی دانش ارشاد کے مطابق مہاجرین کی ان نشستوں کے حوالے سے عوامی اور سیاسی سطح پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں اور ان کو  جانبدارانہ اور شفاف انتخابات میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ ان حلقوں میں الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی عملداری کا نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں مقیم مہاجرین کے حلقوں میں ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 64 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے جموں کے حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 4 لاکھ 30 ہزار جبکہ وادی کشمیر کے مہاجرین کے حلقوں میں ووٹروں کی تعداد بس 30  ہزار ہے اور ان کے لیے بھی 6 نشستیں مختص ہیں۔

یہ ووٹر پاکستان کے صوبوں میں رہتے ہیں، جہاں تک کسی بھی امیدوار کے لیے پہنچنا تو ناممکن ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ وہاں کے انتخابی عمل کے طریقہ کار کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔ ان کا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی گورننس کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتاہے۔ان سیٹوں کی وجہ سے پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور بر سراقتدار سیاسی پارٹیاں مظفر آباد میں حکومت سازی پراثر انداز ہوتی ہیں۔

اسی بنیاد پر ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے جو اسلام آباد میں برسرِ اقتدار ہو۔یہ انتظام اس لیے رکھا گیا تھا  تاکہ یہ اسمبلی اور یہ حکومت پوری ریاست جموں و کشمیر میں بسنے والی تمام قومیتوں اور مذاہب کے افراد کی نمائندگی کرسکے۔ مگر مختلف  ترمیم کے بعد اس حکومت کی حیثیت محض پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے علاقوں میں بسنے والے شہریوں کی نمائندگی تک محدود رہ چکی ہے اور اس کے پاس بلدیاتی  طرز کے اختیارات ہیں۔لہذا موجودہ تقاضوں کے مدنظر وسیع تر سیاسی اصلاحات کی اشد ضروت ہے۔

اس خطے میں مہاجرین کی ایک تیسری قسم  بھی ہے، جو دوردراز علاقوں، خصوصاً لائن آف کنٹرول کے پاس رہنے والوں کی ہے، جنہیں کنٹرول لائن کے دوسری طرف یعنی زیر انتظام کشمیر کی طرف  1990یا اس کے بعد نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ حکومت کے مطابق اس قبیل کے مہاجروں کے تعداد 1292خاندانوں پر مشتمل ہے۔ مگر حکومت زیر انتظام کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق 90ء کے اوائل میں 5986خاندان منتقل ہوگئے تھے، ان کی تعداد اب 8000 سے تجاوز کرچکی ہے۔

اور یہ مختلف ریفیوجی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ان میں 75فیصد پہاڑی، 20فیصد گوجراور 5فیصد کشمیر النسل ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کشمیر کی کسی بھی سیاسی جماعت چاہے ہند نواز ہو یا آزادی یا حق خود ارادیت کی خواہاں، کسی کو ابھی تک یہ توفیق نہیں ہوئی ہے، کہ ان بے خانماں افراد کی باز آبادکاری یا اْنہیں اپنے گھروں کو واپس لانے کی سعی کریں یا کم سے کم آواز ہی بلند کریں، جس طرح کشمیری پنڈتوں کے لیے آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، جن کے لیے حکومت جموں وکشمیر اور حکومت دہلی کی طرف سے خاصی عنایتیں کی گئی ہیں۔

 اس سویلین آبادی کو شورش شروع ہوتے ہی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کر کے فوج نے لائن آف کنٹرول کے اس پار دھکیل دیا تھا۔ یہ2001ء اور 2011 ء کی مردم شماری کی رپورٹوں میں بارہ مولہ، کپواڑہ،پونچھ اور راجوری کے کم و بیش 20دیہاتوں کو غیر آباد بستیوں کے طور پر درج کیا گیا ہے۔چند سال قبل لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے، مجھے چند ایسے گاؤں دیکھنے کو ملے، جنہیں ان علاقوں میں تعینات فوجی بھی“ آسیب زدہ گاؤں“کے نام سے جانتے ہیں۔لمبی قد آدم گھاس کے درمیان شکستہ مکانات اور غیر آباد کھیت مکینوں کی واپسی کی راہ تک رہے ہیں۔ایک ہو کا عالم طاری ہے۔

کپواڑہ کے ایک دوردراز علاقہ کے ایک 70سالہ بزرگ غلام سرور نے مجھے بتایاکہ 1992ء میں ان کے گاؤں ملک بستی میں ہندوستانی فوج نے ڈیرہ ڈالا، اور انہیں 12گھنٹے کے اندر اندر گھروں کو خالی کرنے کے لیے کہا گیا۔ سرور کی ٹانگ میں فریکچر تھا، اس لیے وہ گاؤں والوں کا ساتھ نہیں دے سکا۔ عزیز و اقارب نے بھی اْسے تسلی دی، کہ حالات نارمل ہوتے ہی، وہ واپس آئیں گے۔ ان علاقوں میں تین بار مکینوں کو بے دخل کیا گیا۔ 1990ء کے علاوہ 1999 ء میں جنگ کرگل اور2001 ء میں ہندوستانی پارلیامان پر حملے کے بعد آپریشن پراکرم کے دوران لائن آف کنٹرول کو سیل کرنے کے بہانے بستیوں کو خالی کرایا گیا۔