خبریں

آدھی رات کو چھٹی پر بھیجے جانے کے بعد سرولانس فہرست میں ڈالا گیا تھا سی بی آئی ڈائریکٹر کا نمبر

پیگاسس پروجیکٹ: پیگاسس کے ذریعےسرولانس سےمتعلق  لیک ہوئی فہرست میں اکتوبر 2018 میں سی بی آئی بنام سی بی آئی تنازعہ کا اہم حصہ رہے آلوک ورما اور راکیش استھانا کے بھی نمبر شامل ہیں۔ ممکنہ سرولانس کی فہرست میں ورما کے ساتھ ان کی بیوی، بیٹی و داماد سمیت اہل خانہ  کے آٹھ لوگوں کے نمبر ملے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی،سابق  سی بی آئی چیف آلوک ورما،سابق سی بی آئی اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا اوروزیر داخلہ امت شاہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی،سابق  سی بی آئی چیف آلوک ورما،سابق سی بی آئی اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا اوروزیر داخلہ امت شاہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سی بی آئی بنام سی بی آئی تنازعہ  کا حصہ رہے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما، راکیش استھانا اور اےکے شرما سمیت ان کے اہل خانہ  کے نمبر لیک ہوئی اس فہرست میں پائے گئے ہیں، جن کی اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

یہ سب اس وقت ہوا جب 23 اکتوبر 2018 کی آدھی رات کو مودی سرکار نے اس وقت کے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما اور اس وقت کے اسپیشل  ڈائریکٹر کو چھٹی پر بھیج دیا تھا۔دی وائر کو حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی رات کچھ گھنٹے بعد ہی پیگاسس اسپائی ویئر کےتوسط  سے ایک نامعلوم  ہندوستانی ایجنسی نے ورما کے نمبر کوممکنہ ٹارگیٹ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

صرف ورما ہی نہیں، بلکہ ان کی بیوی، بیٹی اور داماد سمیت ان کے اہل خانہ  کے آٹھ لوگوں کے نمبر اس نگرانی فہرست میں شامل کیے گئے تھے۔

فرانس کی غیرمنافع بخش فاربڈین اسٹوریز نے پیگاسس اسپائی ویئر کے ممکنہ نشانے پر رہے 50000 سے زیادہ  نمبروں کی لیک ہوئی فہرست حاصل کی ہے، جسے انہوں نے دنیا بھر کے 17 میڈیا اداروں  کے ساتھ ساجھا کیا ہے۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فارنسک جانچ کی ہے، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔

راکیش استھانا کو بھی اسی رات ہٹایا گیا تھا اور ان کے نمبر بھی اس وقت اس لسٹ میں شامل کیے گئے تھے۔ استھانا اس وقت سینٹرل ریزرو پولیس فورس(سی آر پی ایف)کے چیف ہیں۔وہیں شرما، جو اس وقت پالیسی ڈویژن کے سربراہ  تھے، کو ان کے عہدےسے ہٹا دیا گیا تھا، لیکن ٹرانسفر کیے جانے سے پہلے جنوری 2019 تک وہ سی بی آئی میں ہی رہے۔

لیک ہوئے ڈیٹابیس میں استھانا، شرما، ورما اور ان کے اہل خانہ کے نمبر فروری 2019 تک ہی دکھائی دیتے ہیں۔ تب تک ورما سرکاری نوکری سے ریٹائر ہو چکے تھے۔

این ایس او کا دعویٰ ہے کہ لیک ہوئے ڈیٹابیس کا ان کی کمپنی یا پیگاسس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دی وائر نےفارنسک جانچ کے لیے ورما کا نمبر مانگا تھا، لیکن انہوں نے اس کے لیے انکار کر دیا۔ اس لیےیہ واضح طو رپر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے نمبر کو واقعی میں ہیک کیا گیا تھا یا نہیں۔ حالانکہ ہیکنگ کے امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان سے جڑے 22 لوگوں کے فون کی فارنسک جانچ کی گئی ہے، جس میں سے کم از کم 10 لوگوں کے فون میں پیگاسس کے نشان پائے گئے ہیں۔

حکومت ہند نے پیگاسس کے استعمال کو لےکر نہ تو قبول کیا ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے۔ وہ لگاتار گھما پھراکر جواب دیتے آ رہے ہیں۔ وہیں این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا پروڈکٹ پیگاسس صرف ‘سرکاروں’ کو ہی بیچتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 23 اکتوبر 2018 کو سی بی آئی میں آدھی رات کو اٹھاپٹک اس وقت ہوئی تھی جب اس کے دو دن پہلے ورما نے بدعنوانی  کا الزام  لگاتے ہوئے راکیش استھانا کے خلاف کیس درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

خاص بات یہ ہے کہ 21 اکتوبر 2018 کو درج کیا گیا یہ کیس فون ٹیپنگ سے ہی جڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اقتدارکے لیے بڑے پیمانے پر سبکی  کی صورتحال  پیدا ہو گئی تھی۔ استھانا کی مودی سے قربت پہلے سے ہی جگ ظاہر تھی۔ اس کے دو دن بعد استھانا نے مرکزی نگرانی کمیشن(سی وی سی) میں ورما کے خلاف کیس دائر کروا دیا۔

ورما کے خلاف کارروائی کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی مانی جاتی ہے کہ انہوں نے متنازعہ  رافیل معاملے میں جانچ کی مانگ کو خارج نہیں کیا تھا۔ چھٹی پر بھیجے جانے سے تقریباً تین ہفتے پہلے چار اکتوبر کو وکیل پرشانت بھوشن اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے ورما سے ان کے آفس میں ملاقات کر رافیل کی شکایت دی تھی۔

دی وائر نے جب اس رپورٹ کے لیے آلوک ورما سے رابطہ  کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ سی بی آئی میں اٹھاپٹک کی وجہ سے رافیل معاملے پر توجہ  نہیں دی جا سکی۔بھلے ہی آلوک ورما نے رافیل معاملے میں جانچ شروع نہ کی ہو، لیکن وزیر اعظم دفتر نے اسے اپنے خلاف حملے کے طور پر دیکھا اور انہیں چپ کرانے کے لیے آناً فاناً میں کارروائی کی گئی۔

ورما کو ہٹانے کے بعد داخلہ سکریٹری کی ہدایت  پر مرکزی نگرانی کمیشن(سی وی سی)نے سابق سی بی آئی چیف  کے خلاف جانچ شروع کی تھی۔ اس کے خلاف ورما نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی، جس پر اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی بنچ نے سی وی سی کو سچ کا پتہ لگانے کو کہا تھا۔

حالانکہ بعد میں اس میں ایک نیا موڑ تب آ گیا جب ورما نےاس وقت کے سی وی سی کے-وی چودھری پر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے اور پی ایم او کی ‘ہدایت ’ پر جانچ کرنے کا الزام لگایا۔

سی وی سی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ورما نے الزام لگایا تھا کہ جانچ کمیشن صرف راکیش استھانا کے ‘بے بنیاد’ الزامات پر دھیان دے رہا ہے اور ان کے خلاف زیر التوا بدعنوانی  کےالزامات کو درکنار کیا جا رہا ہے۔ کےوی چودھری اس سے پہلے بھی سہارا بڑلا ڈائری جیسے ہائی پروفائل معاملوں کو دبانے کو لےکرتنازعات میں رہ چکے تھے۔

بہرحال ورما جیسےاعلیٰ منصب  پر فائزافراد کے نمبر کو نگرانی کے لیے ممکنہ  ٹارگیٹ بنانا یہ دکھاتا ہے کہ اقتدارکے اعلیٰ عہدوں  پر بیٹھے لوگ کس طرح انہیں اپنے لیے خطرہ  مانتے تھے۔ بعد میں ورما اور استھانا دونوں کو سپریم کورٹ نےبے قصور قراردیا گیا تھا۔