خبریں

ممکنہ سرولانس کے نشانے پر تھے انل امبانی اور داسو ایوی ایشن کے ہندوستانی نمائندے

پیگاسس پروجیکٹ:  دی وائر اور اس کے پارٹنرس کے ذریعے لیک ہوئے ڈیٹابیس کی جانچ میں سرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کی کلائنٹ  نامعلوم ہندوستانی ایجنسی نےنگرانی کے ممکنہ ٹارگیٹ کے طور پر انل امبانی اور ان کے ریلائنس گروپ  کے ایک عہدیدار کےاستعمال کیے جانے والے فون نمبر بھی ملے ہیں۔

انل امبانی (فوٹو : رائٹرس)

انل امبانی (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: نریندر مودی سرکار کے ذریعے 36 رافیل طیارے کا سودا ہونے کے دو برس بعد 2018 میں اس خریداری  کو لےکر سوال اٹھنے لگے تھے۔ سپریم کورٹ کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج آن پڑا تھا کیونکہ ہندوستان اور فرانس دونوں ہی ملکوں کے کچھ میڈیا اداروں نے داسو ایوی ایشن کے ہندوستانی شراکت  دار کو لےکر سنگین سوال اٹھانے شروع کر دیےتھے۔ یہاں تک کہ سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کے اس تبصرے کہ کیسے اس سودے کا ایک کارپوریٹ شراکت دار چنا گیا تھا، کو لےکر خاصہ ہنگامہ ہوا تھا۔

دی وائرتصدیق  کر سکتا ہے کہ لیک ہوئی فہرست، جس کاتجزیہ  پیگاسس پروجیکٹ کنسورٹیم کے میڈیا پارٹنرس  نے کیا ہے، میں اس سال کمپنی کو لےکر چل رہے تنازعات  کے بیچ انل امبانی اور ریلائنس انل دھیروبھائی امبانی (اےڈی اے)گروپ کے ایک دوسرے عہدیدار کےستعمال کیے گئے فون نمبروں کو جوڑا گیا تھا۔

فون نمبر کا محض اس فہرست میں ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ اس سے جڑا اسمارٹ فون کامیابی کے ساتھ  ہیک ہوا تھا، یہ نتیجہ  صرف فون کی فارنسک جانچ کے بعد ہی نکالا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ این ایس او گروپ کی کلائنٹ نامعلوم  ایجنسی کو اس نمبر کا استعمال کرنے والے شخص میں دلچسپی تھی۔

اپنے پچھلے بیانات میں اسرائیلی کمپنی کی طرف سے ان الزامات کی تردید یہ کہتے ہوئے کی گئی ہے کہ ‘یہ ڈیٹابیس پیگاسس کے ٹارگیٹ یا ممکنہ نشانوں کی فہرست نہیں ہے۔’ کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا ‘این ایس او گروپ سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے۔’

حالانکہ فرانس کی میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے  ایکسیس کیے گئے ان فون نمبروں سے جڑے ساٹھ فون کا پیگاسس پروجیکٹ کے تحت کام کر رہے دی وائر اور کئی بین الاقوامی  میڈیا اداروں  نے فارنسک ٹیسٹ کروایا تھا، جس میں آدھے فون میں اس مہلک  اسپائی ویئر کے نشان ملے ہیں۔ تکنیکی وجوہات کو لےکر کوئی یقینی نتیجہ نہیں دیا جا سکا۔

امبانی کے علاوہ کمپنی کے دوسرے عہدیدار، جن کے نمبر فہرست میں شامل ہیں، ان میں کارپوریٹ کمیونی کیشن کے چیف ٹونی یسوداسن اور ان کی بیوی شامل ہیں۔ حالانکہ دی وائر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ امبانی موجودہ وقت میں اس نمبر کا استعمال  کر رہے ہیں یا نہیں۔ کمپنی کا ردعمل  نہ ملنے کی وجہ سےفارنسک عمل میں شامل ہونے کے بارے میں ان کی رضامندی کے بارے میں کوئی اطلاع بھی نہیں مل سکی۔

ریگولیشن پالیسی اور میڈیا سے متعلق معاملوں میں امبانی گروپ  کو پریشانیوں سے نکالنے کے معروف  ٹونی کا نام سال 2018 میں فہرست میں شامل ہوا۔ اس سال کے وسط سے کمپنی کے لیے کئی مشکل بھرے دور آئے، جس میں اولاند کے بیان والا تنازعہ اور سپریم کورٹ کی تناؤوالی شنوائیاں شامل تھے۔

دسمبر2018 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ وقت کے بعد ٹونی کا نمبر ریکارڈس میں نہیں دکھتا۔ دی وائر نے کمپنی سے رابطہ  کیا تھا، لیکن رپورٹ کی اشاعت  تک کوئی جواب نہیں ملا۔ کمپنی کا کوئی ردعمل موصول ہونے پر اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائےگا۔

یقینی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ڈیٹابیس میں امبانی اور کمپنی کے دیگر عہدیداروں  کی موجودگی پوری طرح سے ان کے دفاعی سودوں سے جڑی ہوئی ہے، حالانکہ دیگر نمبروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ نامعلوم این ایس او کلائنٹ کیدفاعی شعبوں کے دیگر کھلاڑیوں میں بھی دلچسپی تھی۔

مثلاً، لیک ڈیٹابیس میں داسو ایوی ایشن کے ہندوستانی نمائندہ  وینکٹ راؤ پوسنا، ڈیفینس کمپنی ساب انڈیا کے سابق چیف اندر جیت سیال اور بوئینگ انڈیا کے چیف پرتیوش کمار کا نمبر سال 2018 سے 2019 کے بیچ میں دکھائی دیتا ہے۔

سال 2013 میں رافیل کو ایم ایم آرسی اےمعاہدہ  ہونے کے بعد ساب انڈیا چھوڑنے والے سیال نے دی وائر کو بتایا کہ نامعلوم  ہندوستانی ایجنسی کی نگرانی فہرست میں ان کا نام شامل ہونے کی ایک وجہ  یہ ہو سکتی ہے کہ نمبر ملنے کی مدت کے دوران  وہ ہندستان ایروناٹکس لمٹیڈ کے سینئر عہدے کی دوڑ میں تھے۔

میڈیا رپورٹس کی مانیں تو سال 2018 میں پوسنا کی امیج رافیل سودے کے دفاع میں اترے ایسے شخص کی تھی، جو اس بارے میں ٹوئٹر پر صحافیوں  کے ساتھ تنازعہ  تک پہنچ گئے تھے۔

انڈین ایکسپریس کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر سشانت سنگھ، جو بڑے پیمانے پر رافیل تنازعہ  کو کور کر رہے تھے اور کم از کم دو سرکاری عہدیدار، جودفاعی شعبے سے جڑے ہونے کے دوران فہرست میں آئے تھے، کا پیگاسس کے نشانوں میں ہونا دکھاتا ہے کہ دفاعی شعبہ اور شاید اس رافیل سودے پر کچھ زیادہ ہی توجہ مرکوز تھی، جو اس وقت سیاسی  طور پر ایک حساس  مدعا تھا۔

ان دوعہدیداروں میں سے ایک انڈین ڈیفینس اکاؤنٹس سروسز میں تھے اور دوسرے تھے پرشانت سکل، جو قومی اقلیتی کمیشن میں تبادلہ کیے جانے سے پہلے 2018 میں وزارت دفاع  میں آفسیٹ کی ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔ دونوں ہی عہدیداروں سے اس بارے میں کوئی بیان حاصل  نہیں ہو سکا۔

اس کے ساتھ ہی لیک ڈیٹابیس میں فرانسیسی فرم انرجی ای ڈی ایف  کے ہندوستانی چیف  ہرمنجیت ناگی کا بھی نمبر ہے۔ ناگی اس دوران ہندوستان  کے دورے پر آئے فرانس کے ایمانویل میکخواں کے سرکاری وفد  کا حصہ تھے۔