خبریں

دلائی لامہ کے قریبی، تبتی حکام  پر تھی این ایس او گروپ کے کلائنٹ کی نظر

پیگاسس پروجیکٹ:  لیک ہوئے ڈیٹابیس سے پتہ چلا ہے کہ کئی تبتی حکام، کارکنوں اور مذہبی پیشواؤں  کے فون نمبر 2017 کے اواخر سے 2019 کی شروعات تک پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی  کے لیے نشان زد کیے گئے تھے۔

دلائی لامہ۔ (فوٹو: رائٹرس)

دلائی لامہ۔ (فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: پیگاسس پروجیکٹ کے تحت جاری ہوئے لیک ڈیٹابیس کے مطابق، تبت کےروحانی پیشوا دلائی لامہ اور ایک دیگر بودھ گرو سے متعلق عملے کے ممبروں  کے نمبر این ایس او گروپ کے کلائنٹ کی ممکنہ نگرانی کے دائرے میں تھے۔

فرانس کی میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعے ایکسیس کیے گئے ان فون نمبروں کے چھوٹے حصہ کا پیگاسس پروجیکٹ کے تحت کام کر رہے دی وائر اور کئی بین الاقوامی  میڈیا اداروں نے فارنسک ٹیسٹ کروایا  تھا، جس میں 37 فون میں اس مہلک اسپائی ویئر کے نشان ملے ہیں۔

لیک ہوئے ڈیٹابیس سے پتہ چلا ہے کہ 2017 کے اواخرسے 2019 کی شروعات تک کئی تبتی حکام، کارکنوں  اور پجاریوں کے فون نمبر نگرانی کے نشانے پر تھے۔ حالانکہ ان کے فون نمبروں کے اس لسٹ میں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیگاسس کامیابی کے ساتھ  ان کے فون میں تھا کیونکہ اس بات کی تصدیق صرف ڈیوائس کےفارنسک تجزیے سے کی جا سکتی ہے۔

پیگاسس پروجیکٹ کو بھیجے گئے ایک مفصل جواب میں این ایس او گروپ نے کہا ہے کہ ‘یہ ڈیٹابیس پیگاسس کے ٹارگیٹ یا ممکنہ  نشانوں کی فہرست نہیں ہے۔ کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کا ‘این ایس او گروپ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔’

ریکارڈس میں کمپنی کے کسی کلائنٹ  کا نام نہیں ہے لیکن این ایس او گروپ یہ کہتا رہا ہے کہ ‘وہ اپنے اسپائی ویئر کو صرف‘سرکاروں’ کو بیچتا ہے، جہاں اس کے اسپائی ویئر کا استعمال  صرف دہشت گردی  اورجرائم کے خلاف کیا جاتا ہے۔

وہیں حکومت ہند نے پیگاسس کے استعمال کو لےکر نہ تو کچھ تسلیم  کیا ہے اور نہ ہی اس سے انکار کیا ہے۔ حالانکہ ٹورنٹو یونیورسٹی  کے سٹیزن لیب نے اپنی جانچ میں بتایا تھا کہ ہندوستان  میں این ایس او کے کم از کم دو کلائنٹ ہیں۔

کرماپا سال 2000 میں بھاگ کر باہر آئے تھے اور 2017 سے وہ ہندوستان میں ہیں۔ اس کے علاوہ نئی دہلی میں طویل عرصے تک دلائی لامہ کے ساتھ رہے ٹیمپا تسیرنگ کا بھی نمبر نگرانی فہرست میں شامل ہے۔ اس وقت  وہ دلائی لامہ دفتر میں ہندوستان اور مشرقی  ایشیا کے ڈائریکٹر ہیں۔

اسی دوران دلائی لامہ نے امریکہ کے سابق صدر براک اوباما سے دہلی میں ملاقات کی تھی۔ اس بیچ ڈوکلام معاملے کے بعد ہندوستان چین کے ساتھ تعلقات  کو بہتربنا نے کے لیے پھر سے کوشش کر رہا تھا۔

اس کے ساتھ ہی دلائی لامہ کے دو سینئر معاون تینجن تاکلہا اور چمی رگجین، اگلے دلائی لامہ کی تقرری سے متعلق امور کو سنبھالنے والے ٹرسٹ کے صدرسمدھونگ رینپوچھے، جلاوطنی میں تبتی سرکار کے اس وقت کے چیف لوبسانگ سانگے اور ہندوستان  میں کئی دیگرتبتی کارکنوں کے فون نمبر نگرانی فہرست میں پائے گئے ہیں۔

چونکہ موجودہ دلائی لامہ کی عمر جیسے جیسے ڈھل رہی ہے، ویسے ویسے نئے دلائی لامہ کی تقرری کو لےکر چرچا تیز ہو رہی ہے۔ اس میں چین سے لےکر ہندوستان  تک کی کافی دلچسپی ہے۔

چین نے کہا ہے کہ وہ اگلے دلائی لامہ کو قبولیت فراہم کرےگا۔ اس کا مقصود ہے کہ پڑوسی ملک‘اپنے حساب’ کا دلائی لامہ مقررکروانا چاہتا ہے۔

نام نہ لکھنے کی شرط پر تبتی انتظامیہ کے ایک سابق عہدیدار نے پیگاسس پروجیکٹ کو بتایا، ‘ہندوستان یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ تبتی چین کے ساتھ کوئی ڈیل نہ کریں، جس میں دلائی لامہ کا واپس تبت جانا بھی شامل ہے۔’

سال 1959 میں 14ویں دلائی لامہ لہاسا سے بھاگ کر ہندوستان آئے تھے، جب وزیر اعظم  جواہر لال نہرو نے انہیں پناہ دی اور ہندوستانی شہر دھرم شالہ میں ان کا دفتر بنایا گیا۔ اسی پہاڑی شہر میں مرکزی تبتی انتظامیہ  کا ہیڈکوارٹر بھی بنایا گیا ہے، جسے ہندوستان  اور دوسرے ملکوں میں بڑے تبتی مہاجرین کے ذریعےجلاوطن سرکار کےطور پر دیکھا جاتا ہے۔

ہندوستانی حکام  ایک چین پالیسی کی حمایت کرتے آئے ہیں، لیکن پچھلی تقریباً ایک دہائی سے حکومت ہند کے ساتھ بات چیت میں اہم تبتی مدعے کو باہر کر دیا گیا ہے۔

چین کو لےکر ہندوستان  کی خارجہ پالیسی میں تبت ہمیشہ ہی ایک لازمی موضوع رہا ہے۔ وزیر اعظم کے طورپر نریندر مودی کے سال 2014کی تقریب حلف برداری میں مرکزی  تبتی انتظامیہ  کے اس وقت کے چیف لوبسنگ سانگے بھی راشٹرپتی بھون میں مدعومہمانوں میں سے ایک تھے۔

حکومت ہند نے پیگاسس پروجیکٹ کے انکشافات  کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک  کی امیج  کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔

(مائیکل سافی دی گارڈین کےصحافی  ہیں۔)