خبریں

سال 2019 کے این ایس او مالویئر حملے کے 1400متاثرین میں سرکاری افسر شامل تھے: وہاٹس ایپ سی ای او

وہاٹس ایپ کے سی ای او ول کیتھ کارٹ نے کہا ہے کہ انہیں2019 میں وہاٹس ایپ صارفین پر ہوئے حملے اور لیک ڈیٹا کی بنیاد پر پیگاسس پروجیکٹ کی رپورٹنگ میں مماثلت دکھتی ہے۔ 2019 میں وہاٹس ایپ صارفین پر ہوئے پیگاسس حملے کو لےکر فیس بک کی ملکیت والی کمپنی نے این ایس او گروپ پر مقدمہ کیا ہے۔

وہاٹس ایپ سی ای او ول کیتھ کارٹ۔ (السٹریشن: دی وائر)

وہاٹس ایپ سی ای او ول کیتھ کارٹ۔ (السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: دنیا بھر کے سرکاری افسر بھی ان 1400وہاٹس ایپ صارفین میں شامل تھے جن پر سال 2019 میں اسرائیل کے این ایس اوگروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر سے حملے کی کوشش کی گئی  تھی۔ وہاٹس ایپ کے سی ای او ول کیتھ کارٹ نے د ی گارڈین کو دیےایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا ہے۔

اس کے ساتھ کیتھ کارٹ نے یہ بھی کہا کہ انہیں2019 میں وہاٹس ایپ صارفین کے خلاف حملے اور لیک ڈیٹاکی بنیادپر پیگاسس پروجیکٹ کی رپورٹنگ میں مماثلت نظر آتی ہے۔بتا دیں کہ سال 2019 میں وہاٹس ایپ صارفین پر ہوئے پیگاسس حملے کو لےکر فیس بک کے تحت آنے والی کمپنی نے این ایس او گروپ کے خلاف مقدمہ کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دی وائر اور 16 میڈیا پارٹنرس کی ایک تفتیش  کے مطابق، اسرائیل کی سرولانس تکنیکی کمپنی این ایس او کے کئی سرکاروں کے کلائنٹ کی دلچسپی والے ایسے لوگوں کے ہزاروں ٹیلی فون نمبروں کی لیک ہوئی ایک فہرست میں وزیروں ،اپوزیشن کے  رہنماؤں،صحافیوں ، عدلیہ سے جڑے لوگوں، کاروباریوں، سرکاری عہدیداروں  اور کارکن وغیرہ شامل ہیں۔

فرانس کی میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعے ایکسیس کیے گئے ان فون نمبروں کے چھوٹے حصہ کا پیگاسس پروجیکٹ کے تحت کام کر رہے دی  وائر اور کئی بین الاقوامی  میڈیا اداروں نے فارنسک ٹیسٹ کروایا تھا، جس میں 37 فون میں اس مہلک  اسپائی ویئر کے نشان ملے ہیں۔

دو سال پہلے جب وہاٹس ایپ نے اپنے صارفین پر این ایس اومالویئر سے حملے کی کوشش کیے جانے کا اعلان کیاتھا تب اس نے کہا تھا کہ نشانہ بنائے جانے والے 1400نشانوں میں سے تقریباً 100سول سوسائٹی سے تھے جس میں صحافی ،ہیو من رائٹس کے کارکن اورسماجی کارکن شامل تھے۔

صارفین پر یہ حملہ میسیجنگ ایپ کی سیکیورٹی میں موجود ایک خامی کی وجہ  سےہوا تھا، جسے بعد میں درست کر دیا گیا تھا۔وہاٹس ایپ کے سی ای او نے کہا، ‘پہلی بات جو میں کہوں گا وہ یہ ہے کہ یہ رپورٹنگ اس حملے سے میل کھاتی ہے جسے ہم نے دو سال پہلے ہرایا تھا۔ اور اسے پوری طرح سے صحیح ٹھہراتی ہے جو ہم کہہ رہے تھے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘آپ جانتے ہیں کہ ہم نے جو حملے کی کوشش دیکھی تھی وہ این ایس او گروپ ہماری سروس کے ذریعے لوگوں کے فون کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ صاف طور پر حملے کی کوشش تھی۔ اور اس فہرست میں آپ کو پتہ ہے کہ ہم نے دنیا بھر کے صحافیوں ، ہیومن رائٹس کے کارکنوں، سرکاری عہدیداروں  اور دیگر کو دیکھا تھا ۔’

پچاس  ہزار کی تعداد بہت زیادہ  ہونے پر اٹھے سوال

پیگاسس پروجیکٹ کی رپورٹس کی اشاعت  سے پہلے لیک ہوئی فہرست کی تردید کرتے ہوئے این ایس اوگروپ  نے کہا تھا کہ کمپنی کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور پیگاسس پروجیکٹ کی رپورٹنگ کو خارج کر دیا تھا۔

اس نے ان نمبروں کی نگرانی کےالزامات کو بھی خارج کر دیا تھا۔ خاص طور پر این ایس او نے کہا تھا کہ 50 ہزار نمبروں کی بات کو بڑھا چڑھاکر بتایا گیا اور پیگاسس کے ذریعے نشانہ بنائے گئے لوگوں کی بہت زیادہ تعداد کو دکھاتا ہے۔

انٹرویوز میں این ایس او چیف شیلو ہولیو نے دعویٰ کیا ہے کہ ہراین ایس او کلائنٹ کے لیے نگرانی کی اوسط تعداد لگ بھگ 100 ہے اور کمپنی صرف 40 اور 45 ممالک کے بیچ اسپائی ویئر کو فروخت کرتی ہے۔حالانکہ کیتھ کارٹ کا ماننا ہے کہ وہاٹس ایپ کے ذریعے دو سال پہلے دیکھے گئے معاملے سے یہ میل نہیں کھائےگا۔

انہوں نے کہا کہ اگرصرف دو ہفتوں میں1400لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے چنا جا سکتا ہے تو طویل عرصے میں یہ تعداد اندازے سے کہیں زیادہ  ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہاٹس ایپ صارفین کے خلاف حملے کو لےکر انہوں نے دنیا بھر کی سرکاروں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا تھا۔ انہوں نے اس سمت میں ٹیک انڈسٹری کی مائیکروسافٹ اور دیگر کمپنیوں کی تعریف کی، جومالویئر کے خطروں کے خلاف کھل کر بول رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایپل کو لےکر سوال اٹھائے۔

وہاٹس ایپ سی ای او نے سرکاروں سے اسپائی ویئر بنانے والوں کے لیے جوابدہی میں مدد کرنے کی بھی گزارش  کی۔

انہوں نے کہا،‘این ایس او گروپ کا دعویٰ ہے کہ بڑی تعداد میں سرکاریں ان کے سافٹ ویئر خرید رہی ہیں، یعنی وہ سرکاریں، بھلے ہی ان کا استعمال زیادہ کنٹرولڈ ہو، وہ سرکاریں اس کی مالی اعانت کر رہی ہیں۔ کیا انہیں رک جانا چاہیے؟ کیا اس بارے میں تبادلہ خیال ہوناچاہیے کہ کون سی سرکاریں اس سافٹ ویئر کے لیے ادائیگی کر رہی ہیں؟’

وہاٹس ایپ کی جانب سےدائر مقدمے میں این ایس او نے کہا کہ اسے چھوٹ ملنی چاہیے کیونکہ اس کی کلائنٹ  غیرملکی  حکومتیں ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ اس کے کلائنٹ مجرموں کو نشانہ بنانے کے لیے پیگاسس کا استعمال کرنے کے لیےمعاہدہ کے ساتھ پابند ہیں اور یہ غلط استعمال کے الزامات کی جانچ کرتا ہے۔

اس نے کہا کہ اسے اس بات کی کوئی جانکاری نہیں ہے کہ سرکاری کلائنٹ اسپائی ویئر کا استعمال کیسے کرتے ہیں یا وہ کسے نشانہ بناتے ہیں، جب تک کہ کمپنی غلط کام کے الزامات کی جانچ کی گزارش نہیں کرتی۔

دی گارڈین کو دیے ایک بیان میں این ایس او ترجمان نے کہا، ‘ہم ایک محفوظ  دنیا بنانے میں مدد کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ کیا کیتھ کارٹ کے پاس دوسرے متبادل ہیں جو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور خفیہ ایجنسیوں کو اینڈ ٹو اینڈ اینکرپشن پلیٹ فارم کا استعمال کرکے پیڈوفائل، دہشت گردوں  اورمجرموں کے کارناموں  کا قانونی طور پرپتہ لگانے اور انہیں روکنے میں اہل  بناتے ہیں؟ اگر ایسا ہے، تو ہمیں یہ جان کر خوشی ہوگی۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)